0
Saturday 31 Mar 2018 12:24
مقدس سرزمین پر قابض گروہ اپنے آپکو خادمین حرمین سمجھتا ہے اور مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے

سعودی عرب امریکہ سے اسلحہ لیکر مسلمانوں کیخلاف استعمال کر رہا ہے، علامہ حیدر علوی

داعش کی سرپرستی کرنیکی بجائے اسکے کیخلاف کام ہونا چاہئے تھا، جو نہیں ہو رہا ہے
سعودی عرب امریکہ سے اسلحہ لیکر مسلمانوں کیخلاف استعمال کر رہا ہے، علامہ حیدر علوی
علامہ محمد حیدر علوی جمعیت علماء پاکستان (نورانی) پنجاب کے ترجمان ہیں، ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، وہ اس سے پہلے سنی تحریک کے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں، طالب علمی کے زمانے میں انجمن طلبہ اسلام پنجاب کے ناظم رہے ہیں، اسکے علاوہ دعوت اسلامی میں بھی مختلف عہدوں پر کام کیا ہے، علامہ حیدر علوی پاکستان عوامی تحریک راولپنڈی کے رہنماء بھی رہے ہیں، تاہم دھرنے سے چند روز قبل اختلافات کے باعث انہوں نے عوامی تحریک چھوڑ دی، عالم اسلام، اسلامی تحریکوں اور ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے ایک خاص نکتہ نظر رکھتے ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے اُن سے خصوصی گفتگو کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز۔ آپکو دینی جماعتوں کا سیاسی مستقبل کیا نظر آرہا ہے جبکہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف ایم ایم اے دوبارہ فعال ہوگئی ہے اور دوسری طرف اہل سنت کی جماعتوں نے نظام مصطفٰی محاذ بنا لیا ہے۔؟
علامہ حیدر علوی:
دیکھیں ایم ایم اے تو اعلانیہ کہہ رہی ہے کہ ہم نواز شریف کا مقدمہ لڑ رہے ہیں اور اسی کے ساتھ اتحاد کریں گے، یوں کہہ لیجیے کہ نون لیگ نے ایم ایم اے کی شکل میں داڑھی رکھ لی ہے، باقی تو ایسا کوئی فرق نظر نہیں آرہا، اگر تو ایم ایم نے الیکشن لڑنا ہے اور سیٹیں نکالنی ہیں تو انہیں ایک ڈوبتی کشتی کا مسافر نہیں بننا چاہیئے، جہاں تک نظام مصطفٰی محاذ کا تعلق ہے تو اس کے اندر اب تک کوئی بڑی جماعت نہیں آرہی، ایسی جماعت جس کے پاس کوئی عوامی قوت بھی ہو، یہ اہم بات ہے کہ اہل سنت کی غالب اکثریت اس وقت نون لیگ کے خلاف کھڑی ہے اور نفرت کرتی ہے، اس نفرت کی وجہ مکتب کی بنیاد پر ہے اور بھارت نوازی کی بنیاد پر موجود ہے، پانامہ کیس اور ختم نبوت کے معاملے پر عوام اب نون لیگ سے نفرت کرتی ہے، البتہ پاپولر ووٹ تون لیگ لے گی، لیکن منشور اور نظریہ کی بنیاد پر نون لیگ کو ووٹ پڑنے والا نہیں ہے۔ میں یہی کہوں گا کہ مذہبی جماعتیں کسی بڑی سیاسی جماعت سے اتحاد کر لیں گی اور اسی میں ان کی بقا نظر آرہی ہے، اگر تو نظام مصطفٰی متحدہ محاذ اپنی ذاتی حیثیت سے کوئی واضح منشور لے کر آیا تو شاید اسکو کوئی کامیابی مل جائے، ورنہ جو ماحول بنا ہوا ہے، شاید مذہبی لوگوں کے لئے جگہ نہ بن سکے۔ ان کا ماضی بھی کوئی اتنا شاندار نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال میں نون لیگ کا کیا مستقبل نظر آرہا ہے، کیا بریلوی مکتب فکر انہیں ووٹ دیگا۔؟
علامہ حیدر علوری:
میرا خیال ہے کہ جس طرح انہوں نے اپنی نالائقیوں کی وجہ سے اپنے خلاف نفرت کی فضا بنا لی ہے، اس صورتحال میں انہیں باہر سے کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے، یہ مذہبی ووٹ کی بنیاد پر اقتدار میں آتے ہیں، لیکن کام اور فیصلے ایسے کرتے ہیں، جو ملک کیا دین کے بھی خلاف ہوتے ہیں، جوتا پڑنا یہ نفرت کا اظہار تھا، جو دینی طبقہ میں موجود ہے، یہ عمل کوئی شائستہ نہیں تھا، لیکن بہرحال لوگ نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ اہلسنت کی ایک بڑی عظیم درسگاہ جہاں دہشتگردی کے خلاف ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید نے فتویٰ جاری کیا، وہاں پر میاں صاحب کو جوتا پڑا ہے، یہ چیز خود شریف فیملی اور نون لیگ کے لئے سوچنے کا مقام ہے، اب بھی وقت ہے، یہ اپنی غلطیاں تسلیم کرکے قوم سے معافی مانگ لیں۔ ہوسکتا ہے کہ لوگ انہیں معاف کر دیں اور ووٹ پڑ جائے۔

اسلام ٹائمز: آپ کہہ رہے ہیں کہ اہل سنت طبقہ ناراض ہے، لیکن بعض دینی رہنماوں نے رانا ثناء اللہ کے بیان پر اسٹینڈ لیا اور پھر یوٹرن بھی لے لیا۔ اسکی کیا وجہ ہے۔؟
علامہ حیدر علوی:
دیکھیں ایک تو اس میں دینی جماعتیں نہیں تھی، کچھ گروہ اور شخصیات تھیں، جنہوں نے اسٹینڈ لیا، انکا کوئی سیاسی بیک گراونڈ نہیں تھا اور نہ ہی اُن کے پیچھے کوئی سیاست تھی، ایک خاص مذہبی ایشو پر وہ سامنے آئے اور غائب ہوگئے، میں سمجھتا ہوں کہ رانا ثناء اللہ ایک مذہبی طبقے کے ساتھ کھڑے ہیں، کالعدم تنظیموں کی ریلیوں میں شرکت کرتے رہے ہیں، وہ ان کے خلاف کیوں جائیں گے؟، یہ طبقہ نون لیگ کے ساتھ کھڑا ہے اور انہی کو سپورٹ کرتا ہے، نون لیگ رانا ثناء اللہ کی قیمت پر حکومت چلی جائے، وہ برداشت کرلے گی، لیکن اس کو نہیں چھوڑیں گے، قادیوں کا مسئلہ ہو یا پھر سانحہ ماڈل ٹاون اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ رانا ثناء اللہ کی پاکستان اور دینی مخالفت ایسے اقدامات ہیں، جس کا کوئی دفاع نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عدلیہ نے بھی صوبائی وزیر قانون کے فرقہ وارانہ بیانات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔

اسلام ٹائمز: ایوان صدر میں پیغام پاکستان کے عنوان سے ایک بیانیہ سامنے آیا، لیکن اسکو عوامی پذیرائی نہیں ملی، اسکی کیا وجہ سمجھتے ہیں، دوسرا کہا جا رہا ہے کہ کالعدم جماعتوں کو سپیس دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ حیدر علوی:
دیکھیں دہشتگردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، ایوان صدر میں جو تقریب ہوئی، اس میں جو خامی ہم محسوس کرتے ہیں، وہ یہ تھی کہ اس میں بڑی تعداد میں اُن لوگوں کو بلایا گیا، جو براہ راست دہشتگردی کا حصہ رہے ہیں یا ان کے حمائتی رہے ہیں، یہ تو خود ایک سوالیہ نشان ہے، چند دن پہلے سندھ کی تقریب میں بھی وہی لوگ موجود تھے، جو دہشتگردی میں ملوث رہے ہیں یا دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، خودکش حملوں پر ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور اہل تشیع کے فتاویٰ موجود ہیں کہ یہ عمل حرام ہے، ریاست کے خلاف جتھے بنانا اور مسلح جدوجہد کرنا فعل حرام ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف اسلحہ کس نے اٹھایا؟، کس نے گڈ اور بیڈ طالبان کی اصطلاح معارف کرائی۔؟ کس نے عام انسانوں کا قتل کیا، قوم توقع رکھتی ہے کہ تمام دہشتگردوں، ان کے حمائتیوں اور سہولتکاروں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ان جھتوں اور ان کے سہولتکاروں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا، تب تک دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی۔ نہ ہی یہ بیانیہ کام آسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا اسلامی نظریاتی کونسل میں اہل مذہب کی نمائندگی ہو رہی ہے، اگر ہو رہی ہے تو مذہب کے نام پر سیاست کرنا درست ہوگا، جبکہ آئین میں تمام چیزیں طے ہوچکی ہیں۔؟
علامہ حیدر علوی:
دیکھیں افغان جہاد، اس کے بعد افغان مہاجرین، ایک خاص مکتب پر ہاتھ رکھا گیا، انہیں اسلحہ اور پیسوں سے مضبوط کیا گیا، مساجد اور مدارس بنائے گئے جبکہ اصل اکثریتی طبقہ جس میں اہل سنت اور اہل تشیع شامل ہیں، انہیں اگنور کیا گیا، یعنی انہیں کمزور کیا گیا، جبکہ دوسرا طبقہ ہر لحاظ سے مضبوط ہوگیا، یوں طاقت کا توازن بگڑ گیا، حتٰی سیاست میں بھی وہ لوگ آگئے، یوں احساس کمتری نے ہر طرف دراوزے کھٹکھٹانے شروع کر دیئے، اگر ریاست ماں جیسا سلوک کرتی تو نوبت آج یہاں تک نہ پہنچتی، دہشتگردی کی جنگ میں نقصان کس کا ہوا؟، ہزاروں انسان جو مارے گئے ہیں، وہ کون ہیں اور مارنے والے کون ہیں۔؟ سعودی حمایت یافتہ لوگوں کو اوپر لایا گیا، میں سمجھتا ہوں کہ جب مایوسی کی فضا ڈیرے ڈالتی ہے تو لوگ اپنے حقوق کی خاطر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ اچھا نہیں کہ لوگ اسلحہ اٹھانے کے بجائے الیکشن کی طرف آئیں۔ آپ دیکھیں کہ کئی دہائیوں سے شیعہ سنی کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، سیاسی پارٹیوں کے بنائے ہوئے قانون اور بلز بھی اس عمل کو نہ روک سکے، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس پر ریاست کو سوچنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ الیکشن میں کیا نتیچہ دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ حیدر علوی:
مجھے الیکشن وقت پر ہوتے نطر نہیں آرہے اور دیگر معاملات پر حکومت اور اپوزیشن یکجا ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، جس طرح کی اپوزیشن بنی ہوئی ہے، اس صورت حال میں قاتل الیکشن نظر آرہے ہیں، اس میں مذہبی عمل بھی دخیل ہوگا۔ کھربوں روپے کرپشن کرنے والے ہمارے نمائندے بھی اپنے سہولتکاروں کے ہمراہ میدان میں اتریں گے، آپ دیکھیں کہ ڈالر 116 روپے کراس کر گیا ہے اور کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، ملک قرضوں کے بوجھ تلے مسلسل دبا جا رہا ہے۔ ظلم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری معیشت برباد ہوگئی ہے، ہاں امریکی معیشت ضرور بہتر ہوئی ہے۔ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جس مسلم لیگ نے ہندوں سے اس ملک کو آزاد کرایا تھا، آج وہی مسلم لیگ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطٰی کے حالات پر کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ حیدر علوی:
جب دہشتگروں کے ہاتھ کمزور ہوں گے، تب عالمی سامراجی میڈیا فرقہ واریت کرتا نظر آئے گا، شام میں بھی شیعہ سنی کا نام لے کر اور یمن میں بھی شیعہ سنی کا نام لے کر وارد ہوئے ہیں، اسی طرح عراق میں بھی عالمی سامراج نے اپنے مفادات کے دفاع کیلئے داعش کو وجود بخشا۔ ہر ملک میں یہ لوگ مسالک کی بنیاد پر فسادات کراتے ہیں اور اپنے مفادات کا دفاع کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں ہوگیا ہے کہ کوئی نوٹس تک نہیں لیتا، امت کی خون ریزی کو روکنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ سنی اسلام کے دو مضبوط بازو ہیں۔ انتالیس رکنی مسلم اتحاد کس مرض کی دوا کی ہے؟، کیا یمینوں کا خون بہایا جائیگا، دہشتگردوں کے پاس جدید اسلحہ کہاں سے آرہا ہے، کون ہے جو ان کے ساتھ کھڑا ہے اور کون ہے، جو ان کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ سب چیزیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کے کردار پر کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ حیدر علوی:
سعودی عرب کی کیا بات کرتے ہیں، ابھی امریکہ سے 100 ملین ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا گیا ہے، کتنا اچھا ہوتا کہ خود ہی یہ اسلحہ بناتے اور ایران، شام، عراق اور یمن کے بجائے دشمن کے خلاف اس اسلحے کو استعمال کرتے۔ مقدس سرزمین پر قابض گروہ اپنے آپ کو خادمین حرمین سمجھتا ہے اور مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: افغان صورتحال پر کیا کہیں گئے۔؟
علامہ حیدر علوی:
افغانستان برادر اسلامی ملک ہے، لیکن وہاں کی حکومت کسی بھی حوالے سے پاکستان کے موقف کی بات نہیں کرتی، لیکن پاکستان نے ہر جگہ پرامن اور استحکام کی بات کی ہے، افغانسان سے ہر طرح کے تعاون کی بات ہے، لیکن اس وقت کابل میں امریکہ اور انڈیا لابی کام کر رہی ہے، اس سے یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف جو سرحدی جنگ ہے، اسکا ایک بڑا بیس کیپ افغانستان بننے جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ خود افغانستان کے اندر فرقہ واریت کو ہوا ملے گی، ہم سمجھتے ہیں کہ داعش کی سرپرستی کرنے کی بجائے داعش کے خلاف کام ہونا چاہئے تھا جو نہیں ہو رہا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 714706
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش