0
Wednesday 15 Aug 2018 16:39
سردار اختر مینگل صاحب کے چھ نکات پر بات چیت کی جاسکتی ہے

پی ٹی آئی اور بی اے پی کا اتحاد انتخابات سے قبل طے پاچکا تھا، ظہور احمد بلیدی

بلوچستان میں معصوم عوام کا خون بہنا بند ہونا چاہیئے
پی ٹی آئی اور بی اے پی کا اتحاد انتخابات سے قبل طے پاچکا تھا، ظہور احمد بلیدی
میر ظہور احمد بلیدی بلوچستان عوامی پارٹی کے نائب صدر اور نومنتخب رکن بلوچستان اسمبلی ہے۔ وہ صوبہ بلوچستان کے علاقے کیچ میں‌ پیدا ہوئے۔ اس سے قبل 2013ء میں بھی آزاد رکن کی حیثیت سے پی بی 49 کیچ سے رکن بلوچستان اسمبلی بننے میں کامیاب ہوئے اور بعدازاں آپ کو گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی وزارت سونپی گئی۔ میر ظہور احمد بلیدی نے گریجویشن کی تعلیم فورمن کرسچن کالج لاہور سے حاصل کرکے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 2018ء کے انتخابات سے قبل بننے والی بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور مذکورہ پارٹی کے سینیئر نائب صدر منتخب ہوئے۔ بلوچستان میں‌ حالیہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے عمل، اتحادی جماعتوں کیساتھ یکجہتی اور مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل سے متعلق ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے انکا ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلوچستان عوامی پارٹی کا انتخابات سے قبل یہ نعرہ تھا کہ بلوچستان کے فیصلے بلوچستان میں ہی ہونگے، لیکن وزارت اعلٰی کے انتخاب سے متعلق پہلا باضابطہ اعلان بنی گالہ سے ہوا اور عمران خان نے آپ کی حمایت کا اعلان کیا۔ آیا بلوچستان کے فیصلے اس مرتبہ رائیونڈ یا بلاول ہاؤس کی بجائے بنی گالہ میں ہونگے۔؟
ظہور احمد بلیدی:
ہم اپنے اس موقف پر کل بھی کھڑے تھے اور آج بھی کھڑے ہیں کہ بلوچستان کے فیصلے بلوچستان میں ہی ہونگے۔ بی اے پی کی پارلیمانی کمیٹی کے میٹنگ میں فیصلہ ہوچکا ہے کہ وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال صاحب اور اسپیکر اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو صاحب ہونگے۔ الیکشن سے قبل عمران خان صاحب جب کوئٹہ آئے تھے، تو انہوں نے کہا کہ بی اے پی اور پی ٹی آئی بلوچستان میں ملکر انتخابات میں حصہ لینگے۔ یعنی ہماری کمٹمنٹ پی ٹی آئی کیساتھ پہلے سے تھی۔ ہماری بات پاکستان تحریک انصاف کیساتھ پہلے سے طے ہوچکی تھی کہ ہم اپنے ایم این ایز کی حمایت عمران خان کو دینگے۔

اسلام ٹائمز: سردار اختر مینگل صاحب اپنے آٹھ نشستوں کیساتھ کہتے ہیں کہ میں بنی گالہ نہیں جاونگا، جبکہ بی اے پی اپنی تیس نشستوں کیساتھ سب سے پہلے بنی گالہ پہنچ گئی۔؟
ظہور احمد بلیدی:
ہماری قیادت عمران خان کے پاس مبارکبادی کیلئے گئی تھی، اس موقع پر میڈیا کے سامنے پی ٹی آئی کے رہنماء جہانگیر ترین صاحب نے کہا کہ چونکہ بی اے پی کے صدر جام کمال ہے اور اکثریت اسی جماعت نے حاصل کی ہے تو انہوں نے ہماری حمایت کا اعلان کیا۔

اسلام ٹائمز: سردار اختر مینگل نے پی ٹی آئی کی حمایت کے بدلے چھ نکاتی معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ کیا آپ کی جماعت اس چھ نکاتی معاہدے پر عملدرآمد کی حمایت کرے گی۔؟
ظہور احمد بلیدی:
سردار اختر مینگل صاحب کے ان چھ نکات پر ہم بات چیت کر سکتے ہیں، لیکن کچھ چیزیں بلوچستان میں واضح ہونی چاہیئے۔ اس وقت بلوچستان میں انسرجنسی چل رہی ہے، لیکن اس مسئلے کو مینگل صاحب اپنے طور پر دیکھتے ہیں اور ہم کسی اور نگاہ سے اسے دیکھتے ہیں۔ ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ بلوچستان میں معصوم عوام کا خون بہنا بند ہونا چاہیئے۔ دونوں جماعتیں بلوچستان کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی تشکیل دے سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ان مسائل پر اگر آپ اکھٹے بیٹھ سکتے ہیں تو حکومت کی تشکیل میں بھی بی این پی (مینگل) کو کیوں شامل نہیں کرلیتے۔؟
ظہور احمد بلیدی:
ایک سیاسی جماعت ہونے کی حیثیت سے ہم اپنی قبائلی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے بی این پی (مینگل) کو یقیناً حکومت کا حصہ بنانے کے خواہش مند ہے، سردار اختر مینگل نے تو یہ بیان بھی دیا تھا کہ بی اے پی والے اپنی اکثریت کے غرور میں ہے اور ہم سے ملنا نہیں چاہتے، لیکن بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر جام کمال صاحب نے ان سے ملاقات کی اور انہیں حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ اب یہ بی این پی (مینگل) پر منحصر کرتی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہوتے ہیں یا نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پی ٹی آئی کیساتھ یہ معاہدہ تو طے نہیں پایا گیا کہ پچھلی حکومت کی طرح اڑھائی سال سردار یار محمد رند وزیراعلٰی ہونگے اور اڑھائی سال جام کمال صاحب اس عہدے پر رہینگے۔؟
ظہور احمد بلیدی:
اس حوالے کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ گذشتہ حکومت جب ثناء اللہ زہری یا ڈاکٹر مالک صاحب کی حکومت میں یہ معاہدہ طے پایا تھا، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں جماعتوں کے پاس اکثریت نہیں تھی، جبکہ انہوں نے اپنے فیصلے مری میں طے کئے تھے۔ اس مرتبہ ہماری جماعت کو اکثریت حاصل ہے، اسی وجہ سے ہم ایک مضبوط حکومت کی تشکیل کیجانب گامزن ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ کو اس مرتبہ کامیابی نہیں ملی۔؟
ظہور احمد بلیدی:
نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ ڈیلور نہیں کر پائی، اسی وجہ سے انہیں اس مرتبہ عوام نے ووٹ نہیں دیا۔ بلوچستان میں جب تک آپ اپنے گورننس سسٹم کو صحیح نہیں کرینگے، تب تک حکومت نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی کوشش ہوگی کہ ماضی کی حکومتوں اور جماعتوں کی غلطیوں کو نہ دہرائے اور تعلیم، صحت، امن وامان سمیت دیگر شعبوں میں ضروری اصلاحات متعارف کروائیں۔ بلوچستان کی محرومیاں ستر سالہ ہے اور انہیں ایک دن میں حل نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے ہمیں یقیناً عمران خان کے تعاون کی اشد ضرورت ہوگی۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان عوامی پارٹی میں وہی پرانے چہرے ہیں جوکہ اپنے آباؤ اجداد کے دور سے حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ آپکی جماعت میں شمولیت سے وہ کیا خاص تبدیلی لاپائینگے۔؟
ظہور احمد بلیدی:
بلوچستان کے فیصلے اس سے پہلے وفاق سے ہوا کرتے تھے، اسی وجہ سے بلوچستان کے سیاستدان اپنی خواہشات کے مطابق کام نہیں کرپاتے تھے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس مرتبہ بلوچستان کے انہی تجربہ دار سیاستدانوں کے مشوروں سے بلوچستان کے دیرینہ مسائل کو حل کریں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے گورننس سسٹم کی بہتری میں مخلوط حکومت کی تشکیل کو زیادہ تر حصہ دار ٹہرایا جاتا ہے۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرینگے۔؟
ظہور احمد بلیدی:
بلوچستان کی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ یہاں ہمیشہ مخلوط حکومت تشکیل پائی ہے، جسکی وجہ سے باقی دوستوں کو راضی رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن ہماری جماعت کو چونکہ اکثریت حاصل ہے اسی وجہ سے ہمیں یقین ہے کہ ہمیں اس طرح کی مشکلات نہیں ہونگی۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ (ن) کو بھی بلوچستان عوامی پارٹی کی طرح ہی اکثریت حاصل تھی، لیکن بعدازاں انہیں اپنی جماعت کے اندر سے ہی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا آپ ایسی مشکلات سے بچ پائینگے۔؟
ظہور احمد بلیدی:
بی اے پی کا موازنہ مسلم لیگ (ن) کیساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تو اپنی جماعت کے اراکین کی بجائے قوم پرست جماعتوں کو نوازا تھا، اسی وجہ سے ان کے ارکان ناراض ہوگئے۔ ہماری جماعت کو واضح اکثریت حاصل ہے اور ہماری جماعت میں تمام ارکان کو برابر حیثیت واختیارات حاصل ہے۔ ہم اپنے تمام فیصلے باہمی مشاورت سے کرتے ہیں اور تمام افراد کو ساتھ لیکر چلنے کے قائل ہے۔

اسلام ٹائمز: سینیٹ چیئرمین کے حوالے سے یہ امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں شائد صادق سنجرانی کو ہٹایا جائے۔ اس سے متعلق آپکی کیا معلومات ہے۔؟
ظہور احمد بلیدی:
ہماری کوشش ہوگی کہ چیئرمین سینیٹ بلوچستان عوامی پارٹی کا ہی رہے، لیکن چونکہ ابھی تک حکومت کی تشکیل کا معاملہ زیرغور ہے، لہذا اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

اسلام ٹائمز: وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے آپ کی جماعت کا کیا فارمولا ہوگا۔؟
ظہور احمد بلیدی:
وزارتوں کی تقسیم کیلئے ابھی تک ہم نے اپنے اتحادی جماعتوں کیساتھ باہمی فیصلہ نہیں کیا۔ ہم اپنے ساتھ شامل تمام جماعتوں کا خیال رکھے گے اور ان کی رائے کا احترام بھی کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کیلئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قاسم سوری کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے۔ اس اقدام کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
ظہور احمد بلیدی:
میں عمران‌ خان صاحب کے اس فیصلے کو سراہتا ہو، جنہوں نے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کیا۔ قاسم سوری گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان تحریک انصاف کا حصہ رہے ہیں اور ان کی خدمات پارٹی کیلئے بہت ہے۔ جب کوئی بھی جماعت اپنے چھوٹے کارکنوں کو اس حدتک اہمیت دے گی، تو تمام جماعتوں میں یہ رجحان بڑھے گا کہ اپنے وفادار اور قابل کارکنوں کو آگے لاکر بڑی ذمہ داریوں‌ سے نوازیں۔ اسی طرح اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب کے لئے خیبر پختونخواء کے نمائندے کو آگے لانا بھی ایک مثبت پیغام ہے۔ ایسے فیصلوں سے ہماری سیاسی روایات مزید مستحکم ہونگی۔
خبر کا کوڈ : 744774
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش