0
Sunday 23 Sep 2018 18:28
مجھے خدشہ ہے کہ یہ حکومت سی پیک کا بستر گول نہ کر دے

عمران خان مشرق وسطیٰ کے متعلق ثالثی کا کردار انجام دینے کی سکت نہیں رکھتے، خواجہ محمد آصف

وزیراعظم کا بھارت سے ایک دم امیدیں وابستہ کرلینا جلد بازی ہے
عمران خان مشرق وسطیٰ کے متعلق ثالثی کا کردار انجام دینے کی سکت نہیں رکھتے، خواجہ محمد آصف
سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف 1949ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انکے والد خواجہ محمد صفدر آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں میں سے ایک اور تجربہ کار پارلیمنٹیرین تھے۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے بیچلرز کیا اور یونیورسٹی کالج لاہور سے ایل ایل بی کیا۔ بینکاری کے شعبے سے وابستہ رہے۔ جنیوا سکول آف ڈپلومیسی نے انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دے رکھی ہے۔ خواجہ آصف کا تعلق سیالکوٹ کے ایک اہم سیاسی خاندان سے ہے، اپنے آبائی علاقے سیالکوٹ سے 1993ء، 1996ء، 2002ء، 2008ء، اور 2013ء میں لگاتار انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ کئی سال متحدہ عرب امارات میں رہائش کے بعد جب وہ پاکستان واپس لوٹے تو پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں پہلی مرتبہ 1991ء میں منتخب ہوئے۔ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں انہیں نجکاری کمیشن کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔ 2008ء میں جب کچھ وقت کیلئے مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی کی اتحادی تھی تو خواجہ آصف کے پاس پیٹرولیئم، قدرتی وسائل اور کھیل کی وفاقی وزارتیں رہیں۔ خواجہ آصف 2013ء کے انتخابات میں سیالکوٹ کے حلقہ این اے 110 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، نواز شریف کی کابینہ میں انہیں دفاع اور پانی و بجلی کی وزارتوں کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ 2017ء میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ سنبھالی تو خواجہ آصف کو ملک کا نیا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا تھا اور وہ نو ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ پاک بھارت کشیدگی، خطے کی صورتحال اور موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: عرب ممالک نے پاکستان کی یمن سے متعلق پالیسی پر سخت گرفت کی تھی، لیکن عمران خان کا زبردست استقبال کیا گیا ہے، آپکے خیال میں یمن کے متعلق حکومتی پالیسی میں تبدیلی آسکتی ہے۔؟
خواجہ محمد آصف:
پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان اسوقت بھی تنہاء نہیں تھا، یہ تاثر بھارتی لابی اور امریکی اداروں نے دینے کی کوشش کی، دوسرا یہ کہ سعودی عرب کیساتھ اسٹرٹیجک تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حل اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے مل کر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، یہ تو طے ہے کہ پاکستان بھی ہمیشہ سعودی عرب کے ساتھ کھڑا رہے گا اور اس کی حمایت جاری رکھے گا، کیونکہ سعودی عرب نے بھی ضرورت پڑنے پر ہمیشہ پاکستان کی مدد کی۔ یہاں تک تو درست ہے کہ کسی کو بھی سعودی عرب پر حملہ کر نے کی اجازت نہیں دینگے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم امہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت اور حق خود ارادیت کے لیے کردار ادا کرے۔ لیکن جو بیانات عمران خان کی جانب سے آئے ہیں اس میں عجلت اور معمول کے مطابق یو ٹرن کا تاثر ہے، یہ رویہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو منفی انداز میں متاثر کرتا ہے، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے ہوم ورک نہیں کیا۔ اس کے مقابلے میں ہماری حکومت نے یمن معاملے پر پوری پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا، تب سب سے زیادہ عمران خان گلا پھاڑ کر کہتے رہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں۔ اب یہ حکومت میں ہیں، عمران خان بتائیں کہ سعودی عرب جانے سے پہلے وہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، وہاں پہنچ کر انہیں کیا ہوا کہ ایسے بیانات دینے کی ضرورت پیش آئی، جس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ پاکستان اس جنگ کا حصہ بننے کیلئے تیار ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کا انحصار ہمیشہ بیرونی امداد اور قرضوں پہ رہا ہے، موجودہ حکومت کی یہ پالیسی یا ایسا تاثر معاشی مجبوریوں کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔؟
خواجہ محمد آصف:
اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح خودانحصاری کے دعوووں کو پورا کرنتے ہیں، وہ کہہ چکے ہیں کہ میں خودکشی کر لوں گا، مگر کسی سے بھیک نہیں مانگوں گا۔ اب امداد کی بجائے سعودی عرب سمیت دوست ممالک کیساتھ تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ملک میں پہلی بار نئی پالیسیاں روشناس کرا رہے ہیں، جس کے تحت خواتین کو کافی آزادی دی جا رہی ہے، اس کے علاوہ وہاں تجارتی مواقع بڑھانے کے لیے بھی مختلف منصوبوں پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔  پاکستان کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اقتصادی میدان میں ترقی کرتے ہوئے سعودی عرب سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی پالیسی اپنائے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی اور اقتصادی میدان میں تعلقات کی گہرائی دو ممالک اور اقوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔

لیکن میرے خیال میں موجودہ حکمرانوں میں یہ اہلیت نہیں ہے، وہ اپنے نعروں کے بالکل برعکس، عرب ممالک سے جس طرح امداد حاصل کرنے کے جتن کاٹ رہے ہیں، ایسے ہی یہ لوگ امریکہ کے اگے بھی ہاتھ پھیلائیں گے۔ یمن پالیسی کی طرح کسی بھی معاملے میں یوٹرن لے سکتے ہیں۔ اسی لیے یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اسلامی دنیا کو درپیش مسائل میں اہم کردار کر ہی نہیں سکتے، ابھی تو صرف سعودی عرب گئے ہیں اور تاثر یہ مل رہا ہے کہ وہ غیرجانبدار نہیں رہے، حقیقت یہ ہے کہ عمران خان مشرق وسطیٰ کے متعلق ثالثی کا کردار انجام دینے کی سکت نہیں رکھتے، وہ ثالثی کیلئے کیسے کوئی کردار کر سکتے ہیں۔ دنیا کیساتھ تعلقات میں حکمرانوں کی حیثیت بھی اثرانداز ہوتی ہے، انکی پہچان صرف کھیل ہے، انکا طرز حکمرانی بھی ایسا ہی ہے۔ یہ اناڑی ہیں، پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے مضبوط قیادت کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی کی حکومت میں یہ عنصر ناپید ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمیں بھارت کیطرف سے ہمیشہ مخصامانہ طرزعمل کا سامنا رہا ہے، ابھی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں، یہ حالات کیا رخ اختیار کرینگے۔؟
خواجہ محمد آصف:
پاکستان اس وقت اپنی خارجہ پالیسی کو زیادہ سے زیادہ موثر اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں وہ اپنے ہمسایہ ممالک سمیت عالمی سطح پر دیگر ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے کا راستہ اپنائے تو یہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک چیلنج ہے اور پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے میں بہت سی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا ہے، جن پر قابو پانے کے لیے بڑی تیزی سے عملدرآمد کرنا ہوگا۔ بھارت الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی پالیسی پر عمل کر رہا ہے، جیسا کہ انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے تک پاکستان کے ساتھ کوئی جامع مذاکرات نہیں ہو سکتے، ہم ہمیشہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں، لیکن دہشت گردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے، جب تک لوگ سرحد پر مر رہے ہیں، مذاکرات کی بات مناسب نہیں۔ اس میں حیرانگی والی بات یہ ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کا یہ انتہائی شدید اور مخاصمانہ بیان عین اس وقت سامنے آیا ہے، جب بھارت نے رضامندی ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے وزراء یو این او میں سائیڈ لائن پر بات چیت کریں گے۔ اس سخت وضاحت کے بعد ہی ظاہر ہو گیا کہ بھارت اپنی روش سے ہٹنے والا نہیں ہے۔

سشما سوراج کے متنازعہ بیانات نے صورتحال کو مزید گمبھیر کر دیا ہے اور یوں لگ رہا ہے جیسے بھارتی لابی نہیں چاہتی کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کی مثبت پیش رفت کی جائے۔ بھارت نے یہ مضحکہ خیز الزام لگایا ہے کہ مذاکرات کے پس پردہ پاکستان کا ازسرنو بات چیت کا ایجنڈہ بہیمانہ اور شرانگیز ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کو ایک عرصے سے عالمی سطح پر عالمی تنہائی کا شکار کرنے کے لیے مذموم کھیل کھیلا جا رہا ہے، جس کا مقصد نہ صرف اس کی معیشت کو نقصان پہنچانا، بلکہ داخلی اور خارجی سطح پر ایک کمزور ریاست کے طور پر اس کا امیج ابھارنا ہے، ہر دفعہ سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل انڈیا ایسی حرکتیں ضرور کرتا ہے، تاکہ عالمی برادری کو یہ باور کرویا جا سکے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہے، تاکہ دنیا کی توجہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور جد و جہد آزادی سے ہٹائی جا سکے۔ اسی لیے بھارت نے شہید برہان وانی کے ڈاک ٹکٹ پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں کہ پاکستان نے برہان وانی کے ڈاک ٹکٹ سے دہشت گردوں کو جسٹیفائی کیا ہے، انڈیا یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ عمران خان کا اصلی چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے، حالانکہ برہان وانی شہید تو تحریک آزادی کا سنہرا باب ہیں، ٹکٹ پر انکی تصویر پاکستان کی طرف سے کشمیر پر اصولی موقف کی ہی تائید اور کشمیری مسلمانوں کیساتھ اظہار یکجہتی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو موجودہ حالات میں دھمکی کے جواب میں جنگ، سفارتکاری یا پرامن مذاکرات میں سے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔؟
خواجہ محمد آصف:
بھارت نہ صرف سخت لہجہ اختیار کیا، بلکہ وزرائے خارجہ ملاقات سے پیچھے ہٹتے ہوئے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا ہے، یہاں محتاط رویہ اپناتے ہوئے ہمیں پالیسی اختیار کرنا ہو گی، بھارت کی پینترے بازیوں سے ایک دنیا واقف ہے، پاکستان نے جب بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا بھارت نے ہمیشہ الٹی چال چلی، اب سارک وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی غیر یقینی ہو گیا ہے۔ یہ موودی کی سیاست ہے، جسکے اندرونی عوامل ہیں، بھارت میں آیندہ سال انتخابات ہیں، بات چیت سے فرار بھارت کے شدت پسندوں کے دبائو کے باعث ہے۔ بھارت اور فرانس کے درمیان لڑاکا طیاروں کی ڈیل میں کرپشن کے معاملے نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا ہے، فرانس کے ساتھ رافیل طیاروں کی ڈیل مودی سرکار کے لیے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ فرانس کے اُس وقت کے صدر فرانکوئس ہولاند نے ایک بیان میں مودی سرکار پر ڈیل کے دوران اپنے دوست انیل امبانی کی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مودی حکومت نے فرانسیسی حکومت کو امبانی کی کمپنی Reliance Defense کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ جس پر اپوزیشن مودی سے مستعفی ہونیکا مطالبہ کر رہی ہے۔ وہ یہی دباو پاکستان کیطرف موڑ کر آئندہ بھارتی انتخابات میں رائے عامہ کا رخ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کو سوچنا ہو گا کہ مذاکرات سے ہمیشہ راہِ فرار اختیار نہیں کی جا سکتی، مسائل اور تنازعات کا پرامن حل نکالنا از حد ضروری ہے، بھارت اپنے لہجے کی تلخی کو کم کرتے ہوئے شدت پسندانہ بیانات سے گریز کرے اور پاکستان کی امن کاوشوں کا مثبت جواب دے۔ ورنہ جنگ برصغیر کو نہ صرف ترقی اور خوشحالی سے روک سکتی ہے بلکہ نہایت بھیانک اثرات ہونگے۔ عالمی برادری میں بھارت کے مکروہ چہرہ کو بڑی آسانی سے بے نقاب کیا جا سکتا ہے، صرف تدبر اور بہترین حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح اسوقت فوج، حکومت، اپوزیشن اور عوام ایک صفحے پر ہیں، اس صورتحال میں ذمہ داری موجودہ حکمرانوں کی ہے کہ وہ بھارت کو ٹھوس انداز میں امن کے راستے پہ لائیں، پاکستان کے وقار کو برقرار رکھیں۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کیجانب سے بھارتی حکومت کو لکھے گئے خط پہ کیا تبصرہ کرینگے۔؟
خواجہ محمد آصف:
کشمیر میں قتل عام جاری ہے، تو ان معصوموں کے خون کیلئے کوئی بات نظر نہیں آئی عمران خان کے خط میں، لیکن دوسری طرف بغیراجازت کرتار پور والا بارڈر کھولنے کا اعلان، انڈیا کو دو قدم آگے بڑھ کر بات کرنیکی پیشکش، خط کا خفیہ انداز، یہ سب شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں، جن کی بین الاقوامی تعلقات میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ پھر کہوں گا، بھارت سے تعلقات میں محتاط رہنا ہوگا، اتنی لچک کے باوجود اگر بھارت کا یہ رویہ ہے تو قومی وقار پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت سے ایک دم امیدیں وابستہ کرلینا جلد بازی ہے۔ اتنی لچک کے باوجود اگر بھارت کا یہ رویہ ہے تو قومی وقار پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت سے تعلقات میں محتاط رہنا ہوگا۔ موجودہ وزیر اور وزیر اعظم پہلے کچھ بیان دیتے ہیں اور بعد کچھ اور نکلتا ہے۔ حکومت کو کچھ طور طریقے سیکھ لینے چاہئیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی دعوت اور امن کی خواہش کے باوجود بھارت کی جانب سے پاکستان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ حالانکہ یہ بھارت کیخلاف دباؤ بڑھانے کا بہترین موقع ہے، مودی سرکار پر دوست کو نوازنے کے الزام کا بھانڈہ پھوٹنے کے بعد بھارت میں سوشل میڈیا پر میرا وزیر اعظم چور ہے، ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔

اسلام ٹائمز: سی پیک کے متعلق موجودہ حکومت کی پالیسی زیربحث ہے، کیا منصوبے میں بنیادی اور بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔؟
خواجہ محمد آصف:
سمندری راستہ اور سمندر تک رسائی کو معیثت میں بنیادی مقام حاصل ہے، ہر ملک کیلئے معیثت کا مضبوط ہونا ضروری ہے، دنیا میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اس کیلئے قدرت کا ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔ مشرق و مغرب کو ملانے میں پاکستان مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ سی پیک پاکستان اور چین کا مشترکہ اقتصادی منصوبہ ہے جس کی قدر و قیمت کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ روس اور وسط ایشیا کی دیگر ریاستوں سمیت دنیا کے بیشتر ممالک بھی اس سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ وسط ایشیا کی ریاستیں دنیا میں سب سے زیادہ تیل کا ذخیرہ رکھتی ہیں، جن کی ترسیل کیلئے وہ گوادر بندرگاہ کا انتخاب کریں گی اور ایک اندازے کے مطابق محض ٹول ٹیکس کی مد میں پاکستان کو اربوں کی آمدنی ہوگی۔ یہ اتنا بڑامنصوبہ ہے کہ اس کے وسیع تر ہوتے چلے جانے سے دنیا کے کم و بیش 5 درجن ممالک اس کا حصہ بن جائیں گے اور یہ ملک پاکستان کے حلیف ہوں گے۔

سعودیہ کو اس منصوبے کا حصہ بن پائے تو یہ خوش آئند ہوگا، جس سے امید ہے کہ مشرق وسطیٰ کے مزید ممالک اس منصوبے کا حصہ بننے کے خواہاں ہوں گے، حالات اس نہج پر چل پڑے تو نہ صرف اس منصوبے کے دشمنوں کو منہ کی کھانا پڑے گی بلکہ وہ بھی اس منصوبے کا حصہ بننے کیلئے ملتمس ہوں گے۔ پاکستان کو اب مزید احتیاط کی بھی ضرورت ہے اور اپنے دوست ممالک کا دائرہ کار وسیع کرنے کی بھی۔ گویا عسکری و سفارتی محاذ پر اپنی بہترین کارکردگی دکھانا ہوگی۔ اگر سی پیک میں مسائل تھے، توانھیں خاموشی سے حل کیا جا سکتا تھا، میڈیا پہ ڈھونڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت تھی، لیکن حکومت میں بیٹھے ہوئے سقراط شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے سیانا بندہ کوئی اورروئے زمین پہ موجود نہیں ہے، دوسرا چینی وزیر خارجہ کے ساتھ پروٹوکول کے معاملے میں بھی نظر آیا ہے کہ امریکیوں کو خوش کرنے کے چکرمیں زیادتی ہوئی ہے۔ پمپیو اس کے بعد کابینہ اور اس کے بعد یہ والا بیان مستقبل قریب میں حکومت سی پیک منصوبہ میں رکاوٹ اس طرح ڈالے گی کہ نوازشریف نے چینی کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات ٹھیک طریقے سے نہیں کئے اور انہیں آوٹ آف ٹرن مراعات دی ہیں، لہذا سی پیک منصوبہ ریویو کیا جاتا ہے، تاکہ امریکی دباو برداشت نا کرنا پڑے۔

مجھے خدشہ ہے کہ یہ حکومت سی پیک کا بسترا گول کرے گی، کیونکہ 14 ارب ڈالر پیکج امریکہ کے علاوہ اور کوئی ریاست حکومت کو دینے کے قابل نہیں اور انکا اس کے بغیر گذارا بھی ممکن نہیں، جس کے بدلے میں امریکہ کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ سی پیک کو فورا بند کروایا جائے۔ رزاق داؤد جو جنرل پرویز مُشرف کابینہ میں بھی رہے ہیں، ان کی طرف سے مشکوک قسم کی وضاحت آئی ہے، لیکن اس خبر کی تردید نہیں آئی جو انہوں نے سی پیک کے متعلق دیا تھا، امریکیوں نے یہ دباو ڈالنا شروع کردیا تھا کہ سی پیک کو بند کروایا جائے اور یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 31 ارب ڈالر چاہئیں جب کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو پاکستان کو 31 ارب ڈالر دینے پر تیار ہوجائے، اس لیے آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
خبر کا کوڈ : 751596
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش