0
Sunday 21 Oct 2018 12:35
بلوچستان کی ترقی و خوشحالی عمران خان کے ویژن میں شامل ہے

فیصلہ سازی میں اعتماد میں نہ لینا سردار یار محمد رند اور جام کمال کے اختلافات کی اصل وجہ ہے، نصیب اللہ مری

بلوچستان کے ماضی کے کرپٹ حکمرانوں کا احتساب ہونا چاہیئے
فیصلہ سازی میں اعتماد میں نہ لینا سردار یار محمد رند اور جام کمال کے اختلافات کی اصل وجہ ہے، نصیب اللہ مری
نصیب اللہ مری وزیر صحت بلوچستان اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء ہیں۔ وہ 20 دسمبر 1969ء کو کوہلو میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی۔ 2002ء میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے ضلع ناظم کوہلو منتخب ہوئے اور اسکے بعد دوسری مرتبہ بائب ناظم کوہلو منتخب ہوئے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر حلقہ پی بی 9 کوہلو سے انتخابات میں حصہ لیا اور بعدازاں محکمہ صحت کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے باہمی اختلافات، صوبے میں‌ ترقیاتی مںصوبوں کی پیشرفت اور سی پیک سے متعلق "اسلام ٹائمز" نے ایک مختصر انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جو محترم قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلوچستان عوامی پارٹی اور خصوصاً وزیراعلٰی جام کمال صاحب سے آپکی صوبائی قیادت سردار یار محمد رند اکثر ناراض دکھائی دیتے ہیں، انکے اصل تحفظات کیا ہیں۔؟
نصیب اللہ مری:
جب ہم حکومت سازی کے مراحل سے گزر رہے تھے تو بی اے پی نے آکر عمران خان کیساتھ غیر مشروط طور پر حمایت کا اعلان کر دیا۔ اسی لئے ہم نے بھی ان کیساتھ صوبے میں غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔ مگر پہلے ہم نے نہ ان سے وزارتیں مانگی تھیں اور نہ دیگر مراعات کا مطالبہ کیا تھا، لیکن جب آپ کسی اتحادی جماعت کو ساتھ لیکر چلتے ہیں تو ان کے تحفظات کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت کی بھی اپنی ایک سوچ ہے، اگر حکومت صوبے کے اہم فیصلوں میں ہمیں ساتھ نہیں رکھے گی تو اختلافات پیدا ہونگے۔ انہی تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری صوبائی قیادت عمران خان صاحب کے پاس گئی اور انہیں آگاہ کیا۔ عمران خان صاحب کی کاوشوں سے اب بلوچستان کے سیاسی حالات قدرے بہتر ہیں اور ہمیں امید ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت کو صوبے کے اہم فیصلوں میں بائی پاس نہیں کرے گی۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے این ایف سی ایوارڈ میں اس مرتبہ کٹوتی کی گئی ہے، کیا یہ صوبے کیساتھ زیادتی نہیں۔؟
نصیب اللہ مری:
پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد سب نے یہی امید ظاہر کی تھی کہ بلوچستان کو خصوصی توجہ دی جائے گی اور بلاشبہ عمران خان یہ توجہ دے رہے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کے وسائل میں کٹوتی کوئی نیک شگون نہیں، لیکن آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ گذشتہ حکومت نے پانچ سال کے عرصے میں 32 ارب ڈالر قرضے لئے۔ ماضی کے حکمرانوں نے اس ملک کے وسائل بے دردی سے لوٹے۔ پاکستان بھر کی طرح بلوچستان میں بھی ماضی کے حکمرانوں کا احتساب ہونا چاہیئے۔ 2010ء کے بعد این ایف سی ایوارڈ کی مد میں جو پیسے بلوچستان کو ملے، اس کا حساب سب کے سامنے لانا ہوگا۔ یہ پتہ لگانا ہوگا کہ بلوچستان کے فنڈز دبئی، ملائشیا یا کسی اور ملک میں تو نہیں لگے۔؟ بلوچستان حکومت کو بھی ملک سے باہر لئے گئے پیسوں کو واپس لانا ہوگا۔ آج اگر این ایف سی ایوارڈ میں کٹوتی کی گئی ہے، یہ ماضی کے بدعنوان حکمرانوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ پورے ملک میں اس وقت پیسے نہ ہونے کے برابر ہیں، جسکی وجہ سے بلوچستان سمیت تمام صوبوں کے حصوں میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان بلوچستان کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے کیا ویژن رکھتے ہیں۔؟
نصیب اللہ مری:
وزیراعظم پاکستان عمران خان کو بلوچستان سے ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کا بخوبی علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نومنتخب وزیراعظم نے اپنی اولین ترجیحات میں بلوچستان کو ترقی کے قومی دھارے میں لانے کا پختہ اعادہ کیا ہے۔ چاہتے ہیں کہ بلوچستان کی نئی حکومت عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے اور گڈ گورننس کے قیام کے لئے پائیدار اور قابل عمل اقدامات کرے۔ پاکستان تحریک انصاف مفاد عامہ کے ہر اجتماعی عمل کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ عوام نے اپنے مسائل کے حل کے لئے اسمبلی میں بھیجا ہے۔ مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے، بلکہ مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم اپنے اولین خطاب کے ایجنڈے میں بلوچستان کو شامل کرکے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے ان دیرینہ زخموں پر مرہم رکھی ہے، جو ماضی کی منفی سیاسی حکمت عملی اور نظر انداز کرنے کی پالیسی کے باعث قائم ہوئے۔ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی ہم سب کا مشترکہ ویژن ہے۔

سی پیک پاکستان سمیت پورے خطے کی معاشی و اقتصادی ترقی کا اہم زینہ ہے، جسے بہرصورت ہم نے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کا مستقبل بلوچستان سے وابستہ ہے۔ بلوچستان کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کئے بغیر پائیدار ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ماضی کی حکومتوں کی موجودگی میں ہی پاکستان تحریک انصاف بلوچستان نے بغیر کسی مصلحت کے بروقت کرپشن کی نشاندہی کی اور تخت راونڈ کے آشیر باد سے اہم پوسٹوں پر متعین افسر شاہی کے کالے کرتوت آشکار کئے۔ کرپشن، بدعنوانی اور میرٹ کے برعکس عمل کی مخالفت کی ہے اور آئندہ بھی اپنے اصولی موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بلوچستان کے عوام نے نئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں، ان پر پورا اترنے کے لئے پی ٹی آئی کے ہر کارکن کی جدوجہد جاری رہے گی۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں بلوچستان میں سیندک، ریکوڈک اور سوئی گیس جیسے منصوبے شروع کئے گئے، لیکن اسکا زیادہ فائدہ صوبے کے عوام کو نہیں ملا۔ کیا سی پیک سے امید لگائی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں اسکا براہ راست فائدہ بلوچستانیوں کو دیا جائیگا۔؟
نصیب اللہ مری:
سی پیک بلوچستان سمیت پورے خطے کیلئے ایک مستقبل کی نوید ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اس منصوبے کیلئے بلوچستان کے لوگوں اور نوجوانوں کو ہنرمند بنائیں۔ بلوچستان میں اس وقت چھ ٹیکنیکل سینٹرز موجود ہیں۔ سی پیک پروجیکٹ میں مین پاور کی اشد ضرورت ہے، اسی لئے ہم اپنے ہی نوجوانوں کو اس حوالے سے تربیت دے رہے ہیں۔ میں نے اپنے محکمے میں بھی کہا ہے کہ سی پیک سے متعلق جو بھی منصوبے زیر التواء ہیں، انہیں فوری طور پر مکمل کیا  جائے۔ ماضی کے حکمرانوں سے متعلق تو میں کچھ نہیں کہونگا، لیکن ہماری حکومت سی پیک سے بلوچستان کیلئے جتنا ہوسکے، فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی، تاکہ ماضی کے برعکس عوام کی محرومیوں کو دور کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں قائم ہسپتالوں اور صحت مراکز میں لیڈی ڈاکٹر اور دیگر عملے کی کمی کو کیسے دور کیا جا رہا ہے۔؟
نصیب اللہ مری:
حکومت کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے کنٹریکٹ بنیادوں پر مرد اور خواتین ڈاکٹرز کو بھرتی کرنے کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔ ان ڈاکٹروں کو عارضی طور پر بھرتی کرکے انہیں بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں موجود بی ایچ یو، آر ایچ سی میں تعینات کرکے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کو بہتر طبی سہولیات دی جائیں گی۔ بلوچستان میں اس وقت لیڈی ڈاکٹر گائنا کالوجسٹ سمیت دیگر ڈاکٹروں کی کمی ہے، اس لئے ہم پاکستان کے دیگر صوبوں سے بھاری تنخواہ اور مراعات کے عوض ڈاکٹروں کو بلوچستان میں لا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں جعلی ادویات فروخت کرنیوالوں کیخلاف کیا اقدامات اٹھائے جائینگے۔؟
نصیب اللہ مری:
انسانی جانوں کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کے قائم کردہ اداروں، ڈرگ انسپکٹرز اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ صوبے میں موجود عطائی ڈاکٹروں، جعلی ادویات فروخت کرنے والے میڈیکل سٹوروں اور کمپنیوں کیخلاف بھرپور کارروائی کی جائیگی، تاکہ عوام کو ان جعل سازوں کے چنگل سے آزاد کرایا جاسکے۔ بلوچستان میں پرچیزنگ کمیٹی ادویات کی خرید و فروخت کے حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان حکومت کی تشکیل کیساتھ ہی صحت ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، محکمہ صحت میں اب تک کونسی اصلاحات لائی گئی ہیں۔؟
نصیب اللہ مری:
وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق جس طرح پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ماضی میں کے پی کے میں‌ صحت، تعلیم اور پولیس ریفارمز کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے ہیں، ان کی روشنی میں بلوچستان میں محکمہ صحت کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے بہت جلد سیکرٹری صحت، ڈی جی صحت صوبہ خیبر پختونخؤا کا دورہ کرینگے۔ وہاں پر محکمہ صحت کے ماہرین سے ملاقات کرکے تجاویز لی جائے گی۔ خیبر پختونخوا کے طرز پر بلوچستان میں بھی اصلاحات لائی جائیں گی۔ بلوچستان میں ہیلتھ کارڈ بھی متعارف کرانے کا پروگرام ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ علاج معالجے کیلئے عوام کو دیگر صوبوں کی جانب نہ جانا پڑے۔

اسلام ٹائمز: کوئٹہ میں سب سے بڑے سرکاری ہستپال بولان میڈیکل کمپلکس کی تعمیر بردار اسلامی ملک ایران کی کاوشوں سے ممکن ہوئی، لیکن مذکورہ ہسپتال کی انتظامیہ اسے صحیح طریقے سے چلانے میں کامیاب نہیں رہی۔؟
نصیب اللہ مری:
بی ایم سی کا قیام 1970ء میں ایرانی حکومت کے تعاون سے معرض وجود میں آیا، جو کئی سالوں کے بعد مکمل ہوا۔ اس وقت ہسپتال میں 870 بیڈ کی گنجائش تھی، جو وقت کیساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے 1040 بیڈ تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح فاطمہ جناح ٹی بی سینٹوریم، شیخ زید ہسپتال اور بینظیر ہپستال کو وسعت دینے کیساتھ ساتھ سرہ غڑگئی میں 200 بیڈ کا ہسپتال بنا کر بی ایم سی پر مریضوں کا بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت بی ایم سے میں 27 آر سی سینٹر اور 24 آپریشن تھیڑ بی ایم سی میں کام کر رہے ہیں۔ بی ایم سی میں روزانہ 5 سے 6 ہزار مریض او پی ڈی میں آتے ہیں۔ بی ایم سی میں 335 ڈاکٹر، 275 نرس، 540 پیرا میڈیکل اسٹاف، 36 فارماسسٹ، 2 فزیو تھراپسٹ اور 88 خاکروب اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہسپتال بالکل غیر فعال ہے۔ ہماری حکومت کے پاس وسائل کم اور مسائل بہت زیادہ ہے، لیکن ہمارے عزم میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں حکومت میں رہنے والوں نے اس صوبے کیلئے کچھ نہیں کیا، جس کی وجہ سے آج مسائل کا ایک بہت بڑا انبار کھڑا ہوچکا ہے۔ میری کوشش ہے کہ 20 دنوں کے اندر بی ایم سی کی پرانی مشینوں کو مرمت کرکے یا نئی مشینری فراہم کرکے لوگوں کو طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بناؤں، کیونکہ ہمارے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔

اسلام ٹائمز: میڈیا سنسرشپ کے حوالے سے بلوچستان میں بھی احتجاج کئے گئے۔ کیا واقعی پاکستان میں آزادی صحافت ناپید ہے۔؟
نصیب اللہ مری:
میڈیا تو بالکل آزاد ہے۔ فریڈم آف سپیچ پر تو کسی نے بھی پابندی نہیں لگائی۔ نہ ہی میرے پاس ایسی کوئی خبریں آئی ہیں کہ کسی نے میڈیا کو خبروں کی نشر و اشاعت سے متعلق تنگ کیا ہو۔ البتہ میڈیا کو ہر خبر شائع کرنے سے پہلے تحقیق کر لینی چاہیئے۔ غیر مناسب خبروں کا اثر براہ راست عوام پر پڑتا ہیں، لہذا میڈیا کو بھی احتیاط برتنی چاہیئے۔ بلوچستان میں بھی تمام میڈیا آزاد ہے اور انہیں‌ تو آئینی تحفظ بھی حاصل ہے۔
خبر کا کوڈ : 757026
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش