0
Thursday 15 Nov 2018 23:34
عمران حکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچائے

مسلم ممالک کے مابین تنازعات میں پاکستان کا کردار غیر جانبدار و ثالث کا ہونا چاہیئے، سید ظفر اقبال قادری

مسلم ممالک کے مابین تنازعات میں پاکستان کا کردار غیر جانبدار و ثالث کا ہونا چاہیئے، سید ظفر اقبال قادری
سید محمد ظفر اقبال قادری پاکستان عوامی تحریک سندھ کے سیکرٹری کوآرڈینیشن ہیں، وہ مرکزی مجلس شوریٰ کے بھی رکن ہیں، انہوں نے 1985ء میں ادارہ منہاج القرآن میں شمولیت اختیار کی تھی، جو اب تحریک منہاج القرآن ہے۔ وہ تحریک منہاج القرآن سندھ کے سابق نائب امیر اور نائب ناظم سندھ، کراچی کے امیر بھی رہ چکے ہیں۔ بعد ازاں ڈاکٹر طاہر القادری کے حکم پر انہوں نے 2012ء میں پاکستان عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی، جہاں انہوں نے جوائنٹ سیکرٹری سندھ کے عہدے پر فعالیت انجام دی۔ 2016ء سے تاحال وہ صوبائی سیکرٹری کوآرڈینیشن کی حیثیت سے ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے سید محمد ظفر اقبال قادری کیساتھ مختلف موضوعات کے حوالے سے کراچی میں انکی رہائشگاہ پر ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر انکے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: عمران حکومت کی ابتک کی کارکردگی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
سید محمد ظفر اقبال قادری:
تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے، لیکن جس طرح تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے پہلے دعوے اور وعدے کئے تھے، جن چیزوں کی یقین دہانی کرائی تھی، تو قوم نے بہت زیادہ امیدیں قائم کر لی ہیں، وفاقی کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے، لیکن اب تک وہاں بھی وزیراعلیٰ کے حوالے سے بھی ابھی تک معاملات سنبھل نہیں پا رہے ہیں، مجموعی طور پر ملک بھر کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو جس طرح سے حکومت چل رہی ہے، اسی طرح چلتی رہی تو میں سمجھتا ہوں کہ جو انہوں نے دعوے وعدے کئے تھے، اس حساب سے یہ اپنی کارکردگی بہتری کی طرف نہیں لے جا سکیں گے۔ لیکن میں پھر یہ کہوں گا کہ ان کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے، کسی بھی نئی حکومت کو سنبھلنے کیلئے وقت دینا چاہیے، ہم امید کرتے ہیں کہ عوام کو کچھ ریلیف ملے گا۔

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف نے انتخابی مہم کے دوران سو روزہ ایجنڈا پیش کیا تھا، اس پر عملدرآمد کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
سید محمد ظفر اقبال قادری:
سو روزہ ایجنڈے کے حوالے سے بھی اس وقت تک کوئی پیشرفت سامنے نہیں آسکی ہے، پہلے ماہ میں ہمیں کچھ فعالیت نظر آئی، پچاس لاکھ گھروں کے منصوبے کے حوالے سے ٹیم تشکیل دی گئی، اعلان کیا گیا، اسی طرح ایک کروڑ نوکریوں کے حوالے سے بھی، لیکن جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، بجائے یہ کہ پی ٹی آئی حکومت ان چیزوں کی طرف توجہ دے، جو انہوں نے وعدے وعدے کئے تھے، یہ اپنے معاملات اور مسائل میں زیادہ الجھتے جا رہے ہیں، جب قائد جو پوری کابینہ کو چلا رہا ہو، وہی معاملات اور مسائل میں الجھ جائے تو ہمیں نہیں لگتا کہ جو ٹائم تحریک انصاف نے سو روزہ ایجنڈے کے حوالے سے دیا ہے، اس حوالے سے چند فیصد بھی پیشرفت ہوسکی ہو، صورتحال بہت زیادہ اطمنان بخش نظر نہیں آرہی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف سیاسی حوالے سے ایکدوسرے کے نزدیک نظر آتے ہیں، کیا آپکی جماعت سو روزہ ایجنڈے کی تکمیل کے حوالے سے عمران حکومت کا ساتھ دیگی، کیا دونوں جماعتوں میں اس حوالے سے رابطے ہیں۔؟
سید محمد ظفر اقبال قادری:
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا آج بھی وہی مؤقف ہے، پہلے بھی یہی کہتے رہے کہ جس انتخابی نظام کے تحت یہ الیکشن ہوتے ہیں، اس میں صاف شفاف لوگ برسراقتدار نہیں آسکتے، لیکن اقتدار میں آنے والے پہلے والوں سے بہتر تھے، اس لئے ہم نے ان کی حمایت کی، ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے پاس ملکی مسائل و بحرانوں سے نجات کا حل ہے، مکمل پلان ہے، چاہے معاشی و اقتصادی مسائل ہوں یا سود سے پاک بینکاری، اگر کوئی جماعت یا حکومت ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اس حوالے سے ملنا چاہے، ڈسکس کرنا چاہے، تو ڈاکٹر صاحب پہلے بھی تیار تھے، اب بھی تیار ہیں، لیکن اب تک پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اس حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان عوامی تحریک اس حوالے سے تحریک انصاف حکومت سے رابطہ کرنے میں پہل کرسکتی ہے۔؟
سید محمد ظفر اقبال قادری:
ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی اہلیت اور ویژن کو پاکستان میں بسنے والے مقتدر لوگ جانتے ہیں، پہچانتے ہیں، خصوصاً ڈاکٹر صاحب کی علمی، دینی، سیاسی و دیگر حوالوں سے۔ اسی طرح تحریک انصاف میں بھی بہت سارے ایسے افراد ہیں جو ڈاکٹر صاحب یا پاکستان عوامی تحریک کے حوالے سے کافی معلومات رکھتے ہیں، لہٰذا اگر کوئی حکومت ملک و عوام سے مخلص ہے، ملکی تعمیر و ترقی کیلئے مخلص ہے، تو پھر جو کوئی بھی شخص دعویٰ کرتا ہے کہ میرے پاس ملکی مسائل و بحرانوں سے نجات کا حل موجودہ ہے، تو حکومت کو اس شخص سے مل کر حل لینا چاہیئے، ڈسکس کرنا چاہیئے، بہرحال ابھی تک حکومت کی طرف سے اس حوالے سے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ہم نے خود سے اس حوالے سے پی ٹی آئی حکومت سے رابطہ کیا ہے، کیونکہ اگر حکومت جانے کے باوجود اس طرف توجہ نہیں کر رہی، تو میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں ہمارا خود سے رابطہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہاں میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جب تحریک انصاف حکومت میں نہیں تھی تو اس وقت بھی وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے ہماری بھرپور حمایت یا اعلان کرتے رہے ہیں، انصاف دلانے کے حوالے سے یقین دہانی کراتے رہے ہیں، اب چونکہ تحریک انصاف بھرپور حکومت میں ہے، لہٰذا سانحہ ماڈل ٹاؤن والے معاملے پر بھرپور توجہ دیکر جو ملوث ذمہ داران ہیں، انہیں کیفر کردار تک پہنچائے۔

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل واضح اعلان کیا تھا کہ آئی ایم ایف و دیگر سے قرض نہیں لینگے، لیکن حکومت میں آنیکے بعد انکی روش بھی سابقہ حکومتوں والی نظر آرہی ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
سید محمد ظفر اقبال قادری:
یہ بہت واضح سی بات ہے کہ جب کوئی جماعت حکومت میں نہیں ہوتی ہے، تو اس کی ترجیحات اور بیانات کچھ اور ہوتے ہیں اور جب وہ حکومت میں آجاتی ہے تو کچھ اور، کیونکہ جب وہ حکومت میں آتی ہے، تو ساری اندرونی و بیرونی حقیقت اس کے سامنے عیاں ہو جاتی ہے، جب صورتحال سامنے آتی ہے، تو وہ کہیں نہ کہیں مواقع ڈھونڈتے ہیں کہ اس صورتحال سے باہر کیسے نکلا جائے، کیونکہ حکومتی و ملکی معاملات تو چلانے ہیں، تو تحریک انصاف اب جب بھرپور حکومت میں آچکی ہے، تو اب جب صورتحال ان کے سامنے آئی ہے، تو اب انہیں یہ یقین ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، البتہ آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے عام عوام دبتی چلی جا رہی ہے، ہر نئی آنے والی حکومت گذشتہ حکومت پر الزام دھر کر انہیں طریقہ کار پر چل نکلتی ہے کہ جن پر گذشتہ حکومتیں گامزن رہیں۔

اسلام ٹائمز: خارجہ پالیسی خصوصاً یمن سعودی تنازعے میں پاک فوج بھیجنے کے حوالے سے تحریک انصاف نے گذشتہ نواز حکومت میں واضح مخالفت کی اور مؤقف اپنایا کہ پاکستان کا کردار غیر جانبدار ہونا چاہیئے، لیکن اب یمن معاملے میں عمران حکومت کا کردار جانبدار اور سعودی عرب کیجانب جھکاؤ نظر آتا ہے، کیا کہنا چاہیں گے۔؟
سید محمد ظفر اقبال قادری:
اس وقت پوری دنیا کی صورتحال حساس ہے، پاکستان کو بہت سارے مواقع پر ماضی میں بھی اور اب بھی گھسیٹا جاتا ہے، جو ہماری سوچ ہے، جو عام عوام کی سوچ ہے، وہ یہی ہے کہ مسلم ممالک کے مابین تنازعات میں پاکستان کو اپنا غیر جانبدار کردار ادا کرنا چاہیئے، ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیئے، جہاں ظلم ہو رہا ہے، زیادتی ہو رہی ہے، اس پر بھرپور آواز اٹھانی چاہیئے، یہ پاکستانی خارجہ پالیسی کا ایک اہم کردار ہونا چاہیئے، اس حوالے سے وزیر خارجہ و حکومت کا اہم کردار ہونا چاہیئے، ملکی اقتصادی صورتحال کے حوالے سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا جب حکومت کو یقین ہوتا جا رہا تھا، تو ان کے سامنے دو تین ملک تھے، سعودی عرب تھا، چین تھا، قطر اور متحدہ عرب امارات۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی عرب نے ہماری بھرپور مدد کی ہے، لہٰذا اب جب ایک ملک آپ کو ایک بحران سے نکالتا ہے تو لامحالہ آپ کا جھکاؤ تھوڑا سا ان کی طرف بڑھتا ہے، شاید یہ وجہ ہے کہ تحریک انصاف ماضی کے مقابلے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی لا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: ماضی کیطرح آج بھی اگر پاکستان کسی ایک مسلم ملک کیجانب جھکاؤ رکھتا ہے تو کیا اسکے منفی اثرات ملک و قوم پر نہیں پڑینگے۔؟
سید محمد ظفر اقبال قادری:
ماضی میں جب ہم فریق بنے تھے، تو اسکا خمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں، افغان جنگ کے حوالے سے بھی، اگر آج بھی پاکستان نے جس طرح افغان جنگ میں اپنی پالیسی بنائی تھی، اگر ایک طرف جھکاؤ کرکے ایک جانب ہو جاتا ہے، تو صورتحال ماضی کی طرح ایک بار پھر شدید مشکلات و پریشانی کا باعث بن سکتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وزیر خارجہ اور عمران حکومت کو شاید صورتحال سمجھنے میں وقت لگے گا، بہرحال مسلم دنیا میں اگر پاکستان کا جھکاؤ کسی ایک طرف جاتا ہے، تو لامحالہ نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے، جو ملک و قوم کیلئے مشکلات و پریشانی کا باعث ہوگا۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں حکومتی جماعت تحریک انصاف کی خاتون رکن قومی اسمبلی نے ایوان میں قرآنی آیت کی غلط تشریح کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کے حق میں خطاب کیا، اسے کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
سید محمد ظفر اقبال قادری:
خاتون رکن اسمبلی دین کا بالکل علم نہیں رکھتی ہیں، انہوں نے قرآن میں قبلتین کے حوالے سے نازل ہونے والی آیت کی غلط تشریح کی ہے، شرم کی بات یہ ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی میں دیندار افراد موجود تھے، جو اس آیت کے بارے میں سمجھتے تھے، انہوں نے بھی اس پر کوئی سرزنش نہیں کی ہے، یہ قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے دیندار طبقے کیلئے شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے۔ خاتون رکن اسمبلی کی اس تقریر سے پاکستان بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، ان خاتون رکن اسمبلی کو آیت قرآنی کی غلط تشریح کے معاملے پر اپنی اصلاح اور تصیح کرنی چاہیئے۔ اس معاملے پر حکومتی سطح پر کوئی تردید بھی نہیں آئی ہے، جو مناسب نہیں۔
خبر کا کوڈ : 761468
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش