0
Thursday 31 Jan 2019 13:36
یمنی اور فلسطینی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، دونوں مظلوم ہیں

پاکستان میں براہ راست سعودی سرمایہ کاری کسی نئے فتنے کو جنم دے سکتی ہے، مفتی گلزار نعیمی

مولانا فضل الرحمان کی سیاست نے دینی قوتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے
پاکستان میں براہ راست سعودی سرمایہ کاری کسی نئے فتنے کو جنم دے سکتی ہے، مفتی گلزار نعیمی
شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگر خاص ہیں۔ انہوں نے جامع نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک وہ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے اپنے نظریات کیلئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے، جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ انہوں نے جماعت اہل حرم بھی بنائی ہے۔ اسلام ٹائمز نے پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں مفتی گلزار نعیمی سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: افغان طالبان کے ہاں ایک بڑا شفٹ دیکھنے کو مل رہا ہے، کہا ہے کہ شعیہ ہمارے بھائی اور تہران ہمارا دوسرا گھر ہے، اس شفٹ کی کیا وجہ نظر آرہی ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
میں سمجھتا ہوں کہ اچھائی جب بھی ظاہر ہو، اس کی تعریف کرنی چاہیئے۔ یہ بات بھی اٹل ہے کہ طالبان کے اقدامات کی وجہ سے امت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس شفٹ سے کوئی ہمارا پچھلا نقصان پورا تو نہیں ہوسکتا، لیکن یہ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ جو نقصان ہونا ہے وہ نہ ہو۔ یہ کہنا کہ اہل تشیع ہمارے بھائی ہیں، میں اسے اچھا شگون سمجھتا ہوں، امید ہے کہ اندر اور باہر دونوں سائیڈوں سے یہ بیان ہوگا، مطلب ظاہر اور باطن ایک ہو، اس میں منافقت نہیں ہوگی۔ اگر اس موقف میں کوئی نفاق نہیں ہے تو یہ بہت ہی اچھا بیان ہے، انہوں نے ایران اور تہران کو دوسرا گھر قرار دیا ہے تو یہ اچھا بیان ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایران، پاکستان اور عراق کے ساتھ ظلم کیا گیا، کیوںکہ داعش کو شکست کے بعد اب اسے افغانستان میں شفٹ کر دیا گیا ہے، یہ ایسا جن ہے جو اب امریکا کے ہاتھ سے بھی نکل چکا ہے۔ اب یہ امریکا کے لیے مسائل پیدا کرے گا۔ بس کہنا اتنا چاہتا ہوں کہ یہ بیانات امریکی محبت اور داعش کے خوف سے نہ دیئے گئے ہوں، اگر طالبان نے درست سمت اختیار کرلی ہے تو یہ نہایت ہی اچھا شگون ہے، باقی ان کے سیاہ کارنامے تاریخ میں زندہ رہیں گے، انہوں نے اہل تشیع اور بریلوی سنیوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچایا ہے۔

اسلام ٹائمز: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان کو یقین ہے کہ اگلی حکومت انکی ہے، اس لئے وہ اپنے آپکو سب کیلئے قابل قبول بنا رہے ہیں، وہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ کسی کیلئے خطرہ نہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اٹھارہ سال سے جنگ لڑ رہے ہیں، حصول اقتدار ان کی ترجیح ہے، بس یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں یہ امریکی شرائط پر اقتدار میں نہ آئیں۔ یہ بات ایران، پاکستان، چین اور روس سمیت خطے کے کسی بھی ملک کے لیے اچھی نہیں ہے۔ اس سے پھر صورتحال خراب ہوگی۔ اس میں امت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: روسی صدر پیوٹن کے نمائندے خصوصی برائے افغان امور بھی پاکستان آئے ہوئے ہیں، انکو بھی خدشات لاحق ہوسکتے ہیں۔ سب افغانستان کی فکر میں ہیں، کیا ہونے جا رہا ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
اس میں کوئی شک والی بات ہی نہیں ہے، پاکستان، ایران اور روس افغانستان کی ہمسائیگی کی وجہ ڈسٹرب ہیں، ان ممالک نے بھاری قیمت چکائی ہے، اس کا حل ہونا چاہیئے، سب افغانستان میں امریکی انخلا اور امن چاہتے ہیں۔ افغانستان کا حل خطے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے خدشات کو مدنظر رکھ کر نکالنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: امریکا شام اور افغانستان سے جا رہا ہے، خطے میں جنگیں اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے، کیا وجہ ہے کہ یمن میں ابھی جنگ باقی ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
میں سمجھتا ہوں کہ اس جنگ میں بنیادی طور پر سعودیہ گھناونا کردار ادا کر رہا ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یمن کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم روا رکھا جا رہا ہے، یمنی اور فلسطینی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، دونوں مظلوم ہیں، ادھر اسرائیل مظالم ڈھا رہا ہے، ادھر سعودی عرب مظالم کی انتہا کر رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ مسئلہ دیر پا رہے گا۔

اسلام ٹائمز: محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر آرہا ہے، پندرہ ارب کی انوسٹمنٹ بھی کریگا، اس پر کیا کہتے ہیں۔ اس سے پاکستان کے حالات پر کوئی فرق پڑیگا۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
دیکھیں اگر معاشی حالات پر کوئی فرق پڑے بھی تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس طرح براہ راست کسی ملک کو انویسٹمنٹ نہیں کرنے دینی چاہیئے، یہ چیز پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری چاہیئے اسلامی ملک کی جانب سے ہو یا غیر اسلامی ملک کی طرف سے۔ ہر ریاست اپنے دفاع کو ترجیح دیتی ہے، بعض اسلامی ممالک کی براہ راست مداخلت نے فرقہ واریت کو ہوا دی ہے، سابقہ تجربات اور حالات ہمارے سامنے ہیں۔ پاکستان میں ایک خاص مسلک کو سپورٹ کیا گیا ہے، انہیں فنانشلی مضبوط کیا گیا، دیگر مکاتب فکر کو دیوار سے لگایا گیا۔ یہ انویسٹمنٹ شروع میں اچھی لگتی ہے لیکن بعد میں اس کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی شرائط پر سرمایہ کاری کرنے دیں۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان کی سیاست پر کیا کہتے ہیں، ناموس رسالت کے نام پر ملین مارچ کرکے گالیاں عمران خان کو دے رہے ہیں، حتیٰ یہودی ایجنٹ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پچھلی حکومت پر کوئی الزام نہیں لگاتے تھے کیونکہ وہ اسکا حصہ ہوتے تھے۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
مولانا کی سیاست کا دوسرا نام منافقت ہے، جب وہ نواز شریف کے ساتھ اتحادی تھے، اس وقت انہوں نے ناموس رسالت ﷺ جس پر قانون سازی کی گئی تھی اور یہ اس قانون سازی کا حصے تھے، اس وقت ایک لفظ تک نہیں بولا تھا، اب کیونکہ حکومت میں نہیں ہیں، اس لیے گالیاں دے رہے ہیں۔ سچ پوچھیں تو مولانا فضل الرحمان کی سیاست نے دینی قوتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے ناموس رسالت پر کبھی ساتھ نہیں دیا، آج تنہا یہ ایشو لیکر نکلے ہوئے ہیں۔ یہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے، لیکن کبھی کشمیر پر کوئی بات نہیں، اب کشمیر پر دو جنوری کو کانفرنس کرنے جا رہے ہیں، یہی تو منافقت ہے۔ یہ کیسے سییاستدان ہیں، جو عوام کو بےوقوف بنا رہے ہیں، لیکن یاد رکھیں کہ عوام بےوقوف نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 775295
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش