0
Thursday 31 Jan 2019 17:29
خارجہ پالیسی میں خرابی کے باعث ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات بہتر نہیں ہو رہے

سپریم کورٹ کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسکے خلاف بھرپور احتجاج کرینگے، مولانا عبدالغفور حیدری

ہمارا احتجاج حکومت کیخلاف ہے جو مخصوص ایجنڈے کے تحت ہم پہ مسلط کی گئی ہے
سپریم کورٹ کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسکے خلاف بھرپور احتجاج کرینگے، مولانا عبدالغفور حیدری
مولانا عبدالغفور حیدری جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں۔ جون 1957ء کو بلوچستان کے ضلع قلات کی تحصیل گرگ میں پیدا ہوئے، انکے والد کا نام عظیم خان لہڑی ہے۔ مڈل تک سکول کی تعلیم حاصل کی۔ اسکے بعد مدرسہ میں داخل ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سندھ ضلع جیکب آباد گڑھی خیر و مدرسہ دارالھدیٰ، بعد ازاں سندھ کے مختلف مدارس میں پڑھنے کے بعد مولانا عبداللہ درخواستی کے مدرسہ جامعہ مخزن العلوم میں تعلیم حاصل کی اور پھر دارالعلوم ٹنڈو اللہ یار سے سند حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی سے جمعیت طلباء اسلام کیساتھ وابستہ ہوئے، جمعیت طلباء اسلام بلوچستان کے صدر اور مرکزی نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ 1981ء کو انہوں نے جمعیت علمائے اسلام میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ 1983ء میں انکو جمعیت علمائے اسلام کوئٹہ کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں کچھ عرصہ جیل میں رہے۔ رہائی کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہوئے۔ 1990ء کے انتخابات میں قلات سے صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ جمعیت علمائے اسلام نے مسلم لیگ کیساتھ ملکر حکومت بنائی تو انکو جمعیت علمائے اسلام کا پارلیمانی لیڈر نامزد کیا گیا۔ دو سال بعد اختلافات رونما ہوئے تو قبل از وقت مستعفی ہوئے۔ بلوچستان کی وزارت اعلٰی کی دوڑ میں شامل ہوئے اور ذوالفقار مگسی کے مقابلے میں دو ووٹ سے ہار گئے۔ 1993ء میں جمعیت علمائے اسلام کے ٹکٹ پہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام نے انکو ڈپٹی پارلیمانی لیڈر نامزد کیا۔ 2002ء کے الیکشن میں ایک بار پھر پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2008ء کے الیکشن کے بعد سینیٹ کے انتخابات میں ممبر منتخب ہوئے اور قائد حزب اختلاف نامزد کئے گئے، مارچ 2011ء تک وہ اس عہدے پر فائز رہے۔ مارچ 2015ء کے سینیٹ انتخابات میں وہ ایک بار پھر ممبر منتخب ہوئے اور اسکے بعد سینیٹ میں پیپلزپارٹی
کے رضا ربانی چیئرمین اور مولانا عبدالغفور حیدری ڈپٹی چیئرمین کے لئے منتخب کئے گئے۔ اسلام ٹائمز نے مولانا عبدالغفور حیدری صاحب کیساتھ موجودہ حکومت کی کارکردگی، سانحہ ساہیوال اور جے یو آئی کیجانب سے جاری ملین مارچ کے سلسلہ میں گفتگو کی، جو کہ انٹرویو کیصورت میں پیش خدمت ہے۔(ادارہ)


اسلام ٹائمز: عدالت نے تمام تر قانونی تقاضے پورے کرنیکے بعد آسیہ مسیح کے حق میں فیصلہ دیا، آپکی جماعت اس عدالتی فیصلے کو کیوں مسترد کر رہی ہے۔؟
مولانا عبدالغفور حیدری: 
یہ فیصلہ قانون و انصاف کے تقاضے پورے کرکے نہیں سنایا گیا بلکہ بیرونی خواہش اور ہدایت پہ سنایا گیا ہے۔ آسیہ کی رہائی بیرونی مداخلت پہ ہوئی ہے۔ دو عدالتوں میں اس کیس کا ٹرائل ہوا تھا۔ دونوں نچلی عدالتوں نے جرم ثابت ہونے پہ اسے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ سپریم کورٹ میں جب یہ کیس آیا تو یہاں بیرونی دباؤ پہ چار سال تک اس کیس کو دبائے رکھا گیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ صادر کیا اور اسے بری کر دیا گیا۔ رہائی کا فیصلہ دو عدالتوں کے فیصلے کو یکسر مسترد کرکے جاری کیا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف ملک کے طول و عرض میں شدید عوامی ردعمل سامنے آیا ہے۔ ہر شہر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے، ملین مارچ تک ہوئے۔

ہمیں اور ہمارے سمیت پاکستان کے عوام پرامید تھے کہ ان احتجاجی مظاہروں اور اس حساس مسئلہ پہ قومی جذبات کا احساس کرتے ہوئے اور رسول کریم (ص) سے عہد وفا کرتے ہوئے عدالت گذشتہ عدالتوں کے فیصلے کو بحال کرتے ہوئے آسیہ کی سزائے موت کا فیصلہ جاری کرے گی، مگر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بعد اسی کے ساتھی نے بھی انصاف نہیں کیا اور اس گستاخ کو بری کر دیا ہے۔ ہم اس فیصلے کو ہرگز نہیں مانتے اور اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ آنے والے جمعہ کے روز ہم اس نظرثانی اپیل کے فیصلے کے خلاف، آسیہ کی رہائی کے خلاف شدید احتجاج کریں گے۔ نماز جمعہ کے خطبات میں اس عدالتی
فیصلے کے خلاف مذمتی قراردادیں پیش کریں گے اور جمعیت کے کارکن، عہدیدار اور عوام اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے۔

اسلام ٹائمز: جے یو آئی کیجانب سے جاری احتجاج اور ملین مارچ کے سلسلہ کی بنیادی وجہ آسیہ کی رہائی ہے یا اور بھی وجوہات ہیں۔؟
مولانا عبدالغفور حیدری:
آسیہ کی رہائی کا معاملہ بھی ایک وجہ ہے۔ اصل میں تو یہ سارے معاملات پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے دور میں ہو رہے ہیں۔ توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کی کوشش بھی اسی دور حکومت میں ہو رہی ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے شخص کو یہودی قرار دیکر اسرائیل بھیجا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ روابط اور تعلقات قائم کرنے کیلئے حکومت فضا بنا رہی ہے اور عوامی ردعمل دیکھنے کیلئے اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے۔ تبدیلی کے نعرے سے ملک میں مہنگائی، بیروزگاری کے فروغ کے ساتھ ساتھ ہمارے عقائد و نظریات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمارا تو احتجاج اس حکومت کے خلاف ہے کہ جو مخصوص ایجنڈے کے تحت مسلط کی گئی ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت عوامی مینڈیٹ لیکر آئی ہے، جمہوریت کا تقاضہ یہی نہیں ہے کہ حکومت کو وقت دیا جائے۔؟
مولانا عبدالغفور حیدری:
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کو حکومت کا وجود کہاں دکھائی دے رہا ہے۔ موجودہ حکومت صرف دعویٰ کی بنیاد پہ چلائی جا رہی ہے، گراؤنڈ پہ کچھ بھی نہیں ہے۔ حکمران جماعت نے دعوے اور وعدے کچھ اور کئے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد سبھی سے مکر رہی ہے۔ ماضی میں خود دوسروں کو آئی ایم ایف کے طعنے دیتے تھے آج خود آئی ایم ایف سے درخواستیں کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ایجنڈے کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ملک میں آئے گا اور اس ملک پہ لاگو ہوگا جو کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے۔ موجودہ حکومت میں کوئی ایک بھی سنجیدہ نہیں ہے، جو داخلہ، خارجہ، توانائی و دیگر معاملات پہ پالیسیاں ترتیب دے سکے۔ خارجہ
پالیسی میں خرابی کے باعث ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہو رہے۔

امریکی ناراضگی سے ہم تنہا نہیں ہونگے، مگر ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں عدم بہتری کے باعث ہم تنہا ہوں گے۔ اس کے علاوہ آخری انتخابات کو ہم ہی نے نہیں بلکہ تمام جماعتوں نے یہ کہا کہ یہ شفاف انتخابات نہیں تھے۔ پہلے دن سے ہمارا یہی موقف تھا کہ یہ حکومت جعلی ہے اور جعلی مینڈیٹ کے ساتھ آئی ہے۔ یہ عوام کا مینڈیٹ لیکر نہیں بلکہ عوام کا مینڈیٹ چوری کرکے آئی ہے، لہذا یہ بات قطعاً غلط ہے کہ جمہوریت کا تقاضہ اس حکومت کو وقت دینا ہے، بلکہ اس حکومت کا قائم رہنا جمہوریت کی نفی ہے۔ اس مینڈیٹ کے ذریعے یہودی لابی سے منسلک لوگ ہمارے اوپر مسلط ہوئے ہیں۔ معلوم نہیں اداروں نے ان میں کیا خوبی دیکھ کر انہیں اقتدار دیا۔ 

اسلام ٹائمز: ساہیوال میں پیش آنیوالے سانحہ پہ آپکا کیا موقف اور کیا مطالبہ ہے۔؟
مولانا عبدالغفور حیدری:
نام نہاد مدینہ کی ریاست میں والدین کو بچوں کے سامنے قتل کیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ متاثرہ خاندان سے اظہار ہمدری کے بجائے ان کے پیاروں کو دہشت گرد بنایا جا رہا ہے، سارا ملک اس اقدام سے اضطراب کا شکار ہے۔ مدینہ کی ریاست میں شہری بچوں کے ساتھ نکلنے سے ڈرنے لگے ہیں، کیونکہ پتہ نہیں کب کہاں سے انہیں دہشت گرد کے نام پر مار دیا جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ ساہیوال میں جس طرح انسانیت سوز واقعہ پیش آیا ہے، اس سے ملک بھر میں بسنے والے عوام غمزدہ ہیں، کوئی بھی ذی شعور انسان اس واقعہ کے حق میں نہیں ہے، سکیورٹی کے نام پر لوگوں کو دن دیہاڑے بچوں کے سامنے قتل کرنا انتہائی شرمناک اقدام ہے۔

حکمران طفل تسلیوں کے بجائے ٹھوس اقدامات اٹھائیں اور واقعہ میں ملوث عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں لائی جائے، تاکہ آئندہ کوئی بھی اس طرح کا قدم اٹھانے سے قبل دس بار سوچے۔ حکمران اپنی ذاتی مصروفیات
میں مشغول ہیں، وہ اچھے اور برے کی تمیز کھو چکے ہیں۔ ساہیوال واقعہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتی ناکامی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اب تک واضح موقف دینے سے قاصر ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں کو سی ٹی ڈی میں کیسے بھرتی کیا گیا اور متعلقہ واقعہ کن اداروں کی رپورٹ کی بنیاد پر کیا گیا ہے، اس کی تحقیقات سامنے لائی جائیں۔

اسلام ٹائمز: آپکی جماعت کیجانب سے حکومت پہ مسلسل اسرائیل سے روابط اور قادیانیوں پہ مہربانی کا الزام دیا جاتا ہے، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
مولانا عبدالغفور حیدری:
اس حکومت کو لانے کا ایجنڈا اور مقصد ہی یہی تھا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے۔ چند دن ہوئے ہیں، ایک مسلمان شخص کہ جو خود بھی مسلمان، اس کا والد بھی مسلمان، اسے حکومت یہودی قرار دیتی ہے اور اسے یہودی بناکر اسرائیل بھیجتی ہے۔ اس حکومت کے قائم ہونے سے پہلے ہی ہم کہتے تھے کہ یہ یہودی ایجنٹ ہیں، مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا، مگر آج نیازی اور ان کی حکومت ثابت کر رہے ہیں کہ وہ یہودی ایجنٹ ہیں، قادیانی ایجنٹ ہیں اور مغربی لابی کے لوگ ہیں۔ گذشتہ دنوں اسرائیلی طیارہ پاکستان آیا، اس طیارے کی آمد سے بھی ظاہر ہے کہ اس حکومت کے تانے بانے اسرائیل سے ملتے ہیں۔ ہم اسرائیل جیسے ملک کو کسی صورت تسلیم نہیں کرتے۔ حکومت کا ایجنڈا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے مغربی ایجنڈے کو ملک پہ مسلط کیا جائے۔

حکومت قادیانیوں کیلئے بھی راہ ہموار کر رہی ہے۔ یونیورسٹی کے طالب علموں اور پروفیسرز کے دورہ ربوہ کو مکمل سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ اس کے علاوہ جب سے یہ حکومت آئی ہے کہ تو انہوں نے کشمیر ایشو کو مکمل طور پر چھوڑ دیا ہے۔ جب یہ حکومت میں نہیں تھے تو آئے روز یہ کشمیر کی بات کرتے تھے۔ جب سے یہ حکومت میں آئے ہیں تو گفتگو، عمل، کردار سے کشمیر کو ایک سائیڈ پہ رکھا ہوا ہے اور اس کا اب نام تک نہیں لیتے۔ جب سے یہ حکومت میں آئے
ہیں، کشمیر میں بھارتی مظالم اور جرائم میں اضافہ ہوچکا ہے۔ بچے یتیم ہو رہے ہیں، عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں۔ معصوم بچیاں زخمی ہو رہی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پہ کشمیر میں ظلم و جبر کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں، مگر حکومت کی جانب کوئی ردعمل نہیں دیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کے عنوان سے آپکی جماعت نے کیا لائحہ عمل ترتیب دیا ہے جبکہ یوم یکجہتی کشمیر بھی قریب ہے۔؟
مولانا عبدالغفور حیدری:
دو دن کے بعد اسلام آباد میں کل جماعتی مشاورتی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ جس میں پاکستان کی کشمیری، دینی، سیاسی، صحافی، تاجر، وکلا ہر طبقے کے افراد اس کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ تاکہ مل بیٹھ کے کشمیر کے مسئلہ کے حل کیلئے سوچا جائے اور کشمیر میں ہونے والے مظالم اور بھارتی حملوں کا کوئی مستقل حل سوچا جائے۔ کل جماعتی کانفرنس کیلئے ملک کی سیاسی و مذہبی قیادت سے روابط مکمل کر لئے گئے ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت خصوصی طور پر شریک ہوگی۔ علاوہ ازیں جمعیت علماء اسلام کے زیراہتمام پانچ فروری کو ملک بھر میں جلسوں اور مظاہروں کا انعقاد کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: مولانا سمیع الحق قتل کیس داخل دفتر کرنیکی تیاری ہے، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
مولانا عبدالغفور حیدری:
مولانا سمیع الحق ایک عظیم اور معروف عالم دین اور اعلٰی شخصیت تھے۔ ان کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کا سوال تو حکومت سے کرنا چاہیئے۔ انہوں نے ملک کی خدمت کی۔ اپنی ہی رہائشگاہ پہ راولپنڈی میں انہیں قتل کیا گیا۔ حکومت اس وقت تک اس قتل کی ذمہ دار ہے، جب تک مولانا کے قاتل گرفتار کرکے سزا نہیں دی جاتی۔ پی ٹی آئی والے تو کہتے تھے کہ جس قاتل کا پتہ نہ چلے تو اس قتل کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے۔ مولانا سمیع الحق تو حکومت کے اتحادی بھی تھے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود قاتل نہیں پکڑے گئے، تو مطلب یہی کہ قاتلوں کو پکڑنا مقصود ہی نہیں۔
خبر کا کوڈ : 775344
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش