1
Monday 11 Feb 2019 18:23
انقلاب اسلامی وسعت پذیر اور استعماری بلاک کا اثر محدود ہو رہا ہے

کوئی بھی باغیرت پاکستانی قاتل سعودی ولی عہد بن سلمان کو خوش آمدید نہیں کہے گا، ناصر عباس شیرازی

کوئی بھی باغیرت پاکستانی قاتل سعودی ولی عہد بن سلمان کو خوش آمدید نہیں کہے گا، ناصر عباس شیرازی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ ناصر شیرازی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ اسلام ٹائمز کا صہیونی ریاست سے تعلقات، کشمیر پہ مقام معظم رہبری کی حمایت، سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان، شام اور افغانستان سے امریکی انخلاء کے اعلان، انقلاب اسلامی ایران کے مستقبل سے متعلق انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کے دور میں اسرائیل نوازی کی صدائیں زیادہ بلند ہو رہی ہیں، حکومت کی حامی جماعت ہونیکے ناتے ایم ڈبلیو ایم کی کیا پالیسی ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
ایک مدت سے پاکستان کے اوپر یہ effort کی جا رہی ہے، پاکستان جسکا اسرائیل کے حوالے سے سخت موقف ہے، یہ خارجہ پالیسی کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے، پاکستان کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر ڈٹا ہوا ہے، اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا، دنیا میں ہمارا پاسپورٹ ایک اچھوتا پاسپورٹ ہے جس پر لکھا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ ساری دنیا کے لیے کارآمد ہے۔ ہمارا آئیڈیالوجیکل اور نظریاتی پس منظر ہے جس کی وجہ سے پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ قائداعظم نے خارجہ پالیسی کے اصولوں میں قرار دیا کہ ہم اسرائیل کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ اسی لیے اٹیمی پاکستان کی طاقت کوتوڑنے کی کوشش کی گئی، اس سے پہلے پاکستان کو امریکہ اور اسرائیل نے دولخت بھی کروایا، جب پاکستان نے اسلامی ممالک کو متحد کرنیکی کوشش کی تب بھی اسرائیل نے دباؤ محسوس کیا۔

بالخصوص جب پاکستان معاشی بحران کا شکار ہوا تب اس حوالے سے پاکستان پر زیادہ کام ہوا ہے، جس وجہ سے یہ کیفیت اب موجود ہے کہ پہلے مشرف دور میں خبریں آئیں کہ وزیرخارجہ خورشید قصوری نے اسرائیل کا دورہ کیا، ملاقاتیں ہوئیں، پھر نواز دور میں بھی یہ کوشش جا رہی، کیونکہ نواز شریف کے سعودی عرب سے قریبی تعلقات تھے اور سعودی عرب نے صدی کی بڑی ڈیل کے طور پر اسرائیل کو تسلیم کروانے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے، یہ جو ابھی باتیں ہو رہی ہیں یہ اسی کا تسلسل ہے، کوئی نئی چیز نہیں ہے، کلی طور پر پاکستان پر یہ کام جاری ہے، اسی لیے یہ خبریں آتی رہتی ہیں۔ ایک رکن پارلیمنٹ
نے جو تقریر کی ہے، وہ انکی کم علمی کی وجہ سے ہے، یہ ممکن ہے کہ کسی نے انہیں اسکے لیے آمادہ کیا ہو، لیکن اس پر ردعمل پی ٹی آئی کے اندر سے بھی آیا اور باہر سے بھی آیا، ابھی تک حکومت کا جو موقف آیا ہے وہ یہی کہ وہ کمپرومائز نہیں کرینگے۔

کسی بھی حکومت کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، اسکے کیلے پریشر رہنا چاہیے۔ عوامی سطح پر دباو برقرار رہیگا تو کوئی بھی حکومت عالمی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنڈر نہیں کریگی۔ جہاں تک یہ  بات ہے کہ مجلس وحدت حکومت کی حامی ہے تو، یہ واضح رہنا چاہیے کہ پی ٹی آئی کیساتھ ہمارا الائنس نہیں ہوا، پولیٹیکل ایڈجسٹمنٹ ہوئی ہے، جو گذشتہ الیکشن کیلئے تھی، 2018ء کے الیکشن کے بعد یہ ایڈجسٹمنٹ ختم ہو گئی ہے۔ لیکن یہ درست ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی نسبت ہم تحریک انصاف کو بہتر سمجھتے ہیں۔ ہماری جو بھی قربت اور وابستگی ہے وہ ان اصولوں کی بنیاد پہ ہے جن کے لیے ہم نے جد و جہد کی ہے۔ اگر پی ٹی آئی ان اصولوں سے انحراف کریگی تو ہم اپنی جگہ کھڑے ہونگے اور وہ اپنی جگہ۔ ہم حکومت کے حامی نہیں ہیں لیکن باقیوں کی نسبت انہیں بہتر سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ نہیں چاہتے کہ موجود حکومت پریشان ہو اور پھر ان لوگوں کی حکومت آئے جن کا ماضی اور حال لوگوں کے سامنے ہے۔ مجلس اپنے اصولوں پہ کھڑی ہے اور ان اصولوں کی بنیاد پہ اختلاف بھی کریگی، انہی اصولوں کی بنیاد پہ کسی حکومت کا ساتھ دینے کا بھی حق رکھتی ہے۔

اسلام ٹائمز: مقام معظم رہبری نے واشگاف الفاظ میں کشمیر کی آزادی کی حمایت فرمائی ہے، پاکستان میں ولایت فقیہ کے پیروکاروں کا اسکی روشنی میں کیا لائحہ عمل ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
مقام معظم رہبری کا نہ صرف کشمیر کے متعلق، بلکہ آپ نے اگر دنیا کے امور پر کہیں گریہ کیا ہے تو وہ پاکستان کے سیلاب زدگان کی مصیبت کے موقع پر کیا تھا، جو پاکستانی ملت سے مقام معظم رہبری کی محبت کی دلیل ہے۔ انکا کا وژن ساری دنیا کے سامنے روشن ہے۔ اسی طرح رہبر معظم نے مسئلہ کشمیر پہ حمایت کی بلکہ اس کو عالمی مسائل جیسے فلسطین اور یمن کے ساتھ بیان فرمایا ہے، جوڑا ہے، فرمایا ہے کہ ان سب کیلئے صدا بلند رکھی جائے۔ ولی قفہیہ ایک ایسی ہستی ہیں جو اسلامی اصولوں کو احیاء فرماتے ہیں، اس لیے انکے مدنظر یہ نہیں ہوتا کہ ریاست کو خطے میں ان اصولوں کی وجہ سے کیا مسائل درپیش ہو سکتے ہیں، وہ صرف اصولوں کو زندہ رکھتے ہیں، جیسا مولا علی علیہ السلام نے وصیت میں فرمایا کہ ہمیشہ مظلوم کے حامی اور ظالم کے دشمن بن کر رہنا۔

بھارت کشمیر میں ظلم کر رہا ہے، کشمیری بھائی مظلوم ہیں، انہیں انکا آئینی حق نہیں دیا جا رہا، بھارتی مظالم ناقابل بیان ہیں، اس ظلم کیخلاف آواز بلند کرنا انسانی فریضہ ہے، آئینی فریضہ ہے، ہم سب پاکستانیوں کا اخلاقی فریضہ ہے، ہم سب کو اس میں حصہ ڈالنا چاہیے، ریاست کو اپنا آئینی کردار ادا کرنا چاہیے۔ جتنا ہمارا کشمیر پر موقف بہتر اور مضبوط ہوگا، اتنا ہمارے دوسرے ایشوز پر موقف کو تقویت ملے گی۔ ہم اس سرزمین کے بیٹے ہیں، Son of the soil ہیں، پاکستان بنانے والے ہم ہیں، لہذاٰ پاکستان کے مسئلوں پر اپنا قائدانہ کردار ہونا چاہیے، ہمیں lead کرنا چاہیے، اس بنیاد پر پاکستانی ملت کو direction
دینی چاہیے، مسئلہ کشمیر پہ مکتب اہلبیت علہیم السلام کے پیروکاروں کا رول  leading  ہونا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: جارح اور قاتل سعودی ولی عہد پاکستان آرہا ہے، مظلومین کی حمایت میں آواز بلند ہوگی یا سرکاری پالیسی کیمطابق پی ٹی آئی کا ساتھ دینگے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ ہمارا پی ٹی آئی کیساتھ تعلق اصولوں کی بنیاد پہ ہے، جب پی ٹی آئی نے انسانی حقوق کمشین میں سعودی کے حق میں ووٹ دیا تھا تو مجلس کی قیادت نے باقاعدہ پریس کانفرنس کی تھی، پھر ڈائیلاگ کا ایک سلسلہ ہوا تھا، موجودہ حکومت کو باور کروایا گیا تھا کہ یہ آپ غلط کر رہے ہیں، آپکا نیوٹرل کردار باقی نہیں رہا، آپ یکطرفہ طور سعودی مفادات کو آگے بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں، ثالث کو ثالث رہنا چاہیے، اس کے حکومتی حلقوں کی جانب سے باقاعدہ معذرت کی گئی۔ اسی وجہ سے کسی عالمی فورم پہ ایسا نہیں کیا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پہلے پاکستان سعودی عرب کی کالونی شمار ہوتا تھا، اب خارجہ پالیسی کو تھوڑی حد تک بیلنس کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جیسے قطر کو سعودی عرب برداشت نہیں کرتا، پاکستان نے قطر سے اچھے تعلقات استوار کیے ہیں، ایک لاکھ ملازمتوں کا معاہدہ ہوا ہے، ایل این جی کے معاہدے ہوئے ہیں۔

قطر بھی پاکستان میں میگا انوسٹمنٹ کرنے جا رہا ہے پاکستان میں۔ اسی طرح ترکی جو خاشقجی کے قتل کے بعد سعودیہ کیلئے کسی طور پر قابل قبول نہیں ہے، ترکی کا نمایاں دورہ ہوا ہے، ملائیشیاء کہ جہاں مہاتیر محمد نے آتے ہی نجبیب رزاق دور کے وہ تمام معاہدے جو سعودی ولی عہد کے ساتھ براہ راست توسط سے ہوئے تھے، انہیں بحق سرکار ضبط کیا ہے، ملایشیاء نے سعودی ملٹری الائنس سے نکلنے کا اعلان کر دیا ہے، انکے ساتھ پاکستان نے اچھے تعلقات استوار کیے ہیں، وزیراعظم پاکستان نے وہاں کا دورہ کیا ہے۔ اب پہلے کی نسبت ایک لحاظ سے ہماری خارجہ پالیسی میں تواز آیا ہے۔ لیکن جب پاکستان بڑے معاشی بحران کا شکار ہے، اسوقت جب یو اے ای اور سعودی عرب نے زیادہ امداد کا اعلان کیا ہے، جس وجہ سے پاکستان کا جھکاؤ انکی طرف ہوا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ بحران کے باوجود یہ جھکاؤ پاکستان کیلئے فائد مند نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ کہ ممکن ہے کہ سعودی عرب پاکستان کی معاشی امداد کر کے دنیا کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو جائے کہ پاکستان ہمارے ساتھ کھڑا ہے، بالخصوص وہ ایشوز جنکی وجہ سے سعودی عرب سے نفرت کی جاتی ہے تو بطور پاکستانی قوم ہماری عزت، وقار اور عظمت پہ حرف آئے گا، بلکہ ہماری ساکھ پہ سوال کھڑا ہو جائیگا۔ سعودی ولی عہد چونکہ داخلی سطح پہ تنہائی کا شکار ہے، تیونس اور مراکش میں، افریقہ میں اسے سخت ہزیمت کا سامنا ہے، ڈیوس کانفرنس میں بھی اسے تنہائی کا شکار ہونا پڑا ہے، عالمی لیڈرشپ نے اس کے ساتھ ہاتھ نہیں ملایا، اس کی کوشش ہے کہ وہ تنہائی سے کسی طرح نکلے۔ پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ساتواں بڑا ملک ہے، اسلامی دنیا میں اپنا مقام رکھتا ہے، ایٹمی طاقت ہے، لیکن بدقسمتی سے انہوں نے پہلے بھی یہاں افغان جہاد کے نام پہ، کبھی مدارس کے نام پہ اور کبھی دینی امور کے نام پہ پاکستان میں بہت زیادہ مداخلت کی ہے، جس وجہ سے انکے حمایت یافتہ مذہبی اور سیاسی مذہبی گروپ موجود ہیں،
جو انکے مفاد کیلئے کام کرتے ہیں۔

اس بنیاد پہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دورے سے وہ اپنی تنہائی ختم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین شیعہ اور سنی جماعتوں کے اشتراک عمل سے حمایت مظلومین جہاں کے پلیٹ فارم کے ذریعے اس حوالے سے اپنا موقف پہنچا رہی ہے۔ ہم زبردست طریقے سے محمد بن سلمان کے اس دورے کو رد کرتے ہیں، اس دورے کو پاکستان کی سلامتی کے منافی قرار دیتے ہیں، اسے پاکستان کے طویل المعیاد مفاد کے خلاف قرار دیتے ہیں، تحریک مظلومین جہاں کیساتھ کھڑے ہیں، اس حوالے سے پاکستان میں رائے عامہ کو ضرور ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میڈیا پہ اپنی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے، ہم سیاسی اور سفارتی کوششیں کرتے رہینگے، عوامی سطح پر کوشش کرینگے، اس حوالے سے اسلام آباد میں بہت بڑی کانفرنس میں مجلس وحدت نے اپنا موقف دیا ہے۔

ہم یہ باور کروائیں گے کہ پاکستان سعودیہ کو کالونی نہیں ہے، ایک خودمختار ملک ہے، ہم اپنے اس اصولی موقف پر قائم ہیں کہ پاکستان میں غیرملکی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ بن سلمان جو یمن جنگ کی وجہ سے، اسرائیل کی حمایت کی کیوجہ سے، کشمیر پر ہماری اسپورٹ نہ کرنیکی وجہ سے، امریکہ کے حد سے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے،  سعودیہ کے اندر اور باہر اپنے سیاسی مخالفین کیساتھ بربریت پہ مبنی سلوک کی وجہ سے، خاشقعجی قتل جیسے واقعات کی وجہ سے، سرزمین مقدس حجاز کو پائمال کرنیکی وجہ سے، وہاں مقدس مقامات کی مسماری کی وجہ سے، بن سلمان کے ذاتی طور پر ظالم اور جابر ہونیکی وجہ سے، اس منفور شخص کو، کوئی بھی باغیرت مسلمان، کوئی بھی پاکستانی، اپنی سرزمین پر اسکا استقبال نہیں کریگا۔ ہمارا یہی موقف ہے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن مڈٹرم الیکشن کا عندیہ دی رہی ہے، ایم ڈبلیو ایم قومی اور بلدیاتی الیکشن میں کس طرح حصہ لیگی، تیاری کیسی ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
 اپوزیشن وسط مدتی انتخابات کی بات کر رہی ہے، لیکن یہ اپوزیشن جماعتیں بھی جانتے ہیں کہ اگر قبل از وقت الیکن ہوتے بھی ہیں تو ان کی پوزیشن اچھی نہیں کہ انہیں کوئی کامیابی مل سکے گی۔ انکا مقصد یہی ہوگا کہ موجودہ سسٹم کو ڈی ریل کر دیں۔ کیونکہ احستاب کی وجہ سے ان پارٹیوں کے قائدین مشکل میں ہیں، وہ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں اس سے نکال سکیں۔ لیکن کوئی قبل از وقت الیکن مشکل ہے، نہ ہی سیاسی طور پر ایسا صورتحال یا عدم استحکام کی کیفیت ہے۔ بلدیاتی الیکشن کی جہاں تک بات ہے، عدالت کے احکامات کی وجہ سے پرانا نظام ہی موجود ہے، حکومت کی طرف سے متبادل بلدیاتی نظام لانے کی کوشش ہو رہی ہے، ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ اصلاحات کے بعد جو بلدیاتی نظام آئے اس کے تحت بلدیاتی الیکشن ہوں۔ بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ اس حوالے مجلس وحدت مسلمین عوامی سطح پہ بھی ضروری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، ذہنی قربت رکھنے والی سیاسی جماعتوں کیساتھ ایڈجسٹمنٹ کیلئے بھی روابط جاری ہیں۔ الیکشن آتے ہی اپنی اسٹریٹیجی پر عمل کرینگے۔

اسلام ٹائمز: ٹرمپ کیطرف سے شام اور افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے اعلان پہ کیا تبصرہ کرینگے۔؟
ناصر عباس شیرازی:
ٹرمپ کے شام اور افغانستان سے فوجوں کی واپسی سے متعلق اعلان کو الگ الگ تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
بطور امریکی حاکم ٹرمپ ہر چیز کو صرف اقتصادی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہ فوجوں کی تعیناتی کی وجہ سے معاشی بوجھ سے چھٹکارا چاہتا ہے، ان افواج کی موجودگی سے امریکہ کیخلاف نفرت کی فضاء ہے، اس میں بھی کمی لانے کی کوشش ہے۔ شام میں تو جنگ کا خاتمہ ہوگیا ہے، جو امریکی چاہتے تھے، وہ حاصل نہیں کرسکے، نقشہ تبدیل ہوگیا ہے، بشار الاسد کی گرفت مضبوط تر ہو رہی ہے، کرد جو امریکہ کے حامی تھے، وہ بھی امریکہ کے حق میں نہیں رہے ہیں، ترکی کی طرف سے اپنی جگہ پریشر موجود ہے۔ ملک میں شیعہ سنی وحدت کی فضاء بن چکی ہے۔ امریکی فورسز داعش کی بقاء کیلئے یہاں موجود تھیں، داعش کا صفایا ہوچکا ہے، اب ان کے پاس کرنے کو کام نہیں بچا۔

ایران نے کردستان میں ہونیوالے حملے کے جواب میں داعش کو جس کروز میزائل سے نشانہ بنایا ہے، وہ امریکی فوجوں کے اطراف میں تھا۔ اس سے امریکی فوجوں کو پیغام گیا ہے کہ اب وہ محفوظ نہیں ہیں۔ اب وہ ٹراما کی حالت سے گذر رہے ہیں، انکا باقی دنیا کیساتھ زمینی رابطہ ختم ہوچکا ہے، کوئی پیش رفت نہیں کرسکتے، اب وہ ایک خطرناک مثلث میں محصور ہوچکے ہیں، شکست کا سامنا ہے، کردوں کو پتہ ہے کہ ترکی اور عراق کے مقابلے میں امریکہ انکا ساتھ نہیں دے سکتا، اب امریکہ کا استعماری جسد کمزور ہوچکا ہے۔ اپنی موجودگی اور داعش کی حفاظت اب اس خطے میں امریکہ کے بس میں نہیں ہے۔ شامی حکومت اور انقلابی گروہوں کی وجہ سے امریکہ کو ہزیمت کا سامنا ہے اور بخوشی شام سے نہیں نکل رہا۔ اب امریکہ کوشش ہے کہ اس کمی کو عراق سے پورا کریں، لیکن عراق میں جو نئی تبدیلی آئی ہے، اس میں امریکہ مخالف قوتوں کا غلبہ ہے، یہاں امریکہ کی دال اب نہیں گلے گی۔

افغانستان میں امریکہ چاہتا ہے کہ عدم استحکام پیدا ہو، تاکہ پورا خطہ عدم استحکام کا شکار رہے۔ امریکی پاکستان، چین، روس متاثر کرنا چاہتے ہیں، سی پیک جیسا اسٹریٹیجک روٹ متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں پہلے ہی داعش جیسے گروہوں کیلئے زمینہ موجود ہے۔ امریکی داعش کی فکر اور مناسب فضاء کی موجودگی کو مضبوط بنا کر ایک نئی گوریلا جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اب امریکہ یہ دیکھ رہا ہے کہ افغانستان میں موجود رہنے سے یہ مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں، تو فوجوں کی موجودگی کو طول دینگے، اگر موجودگی ختم یا کم کرنے سے یہ ہدف حاصل کرسکتے ہیں، تو پھر ایسا کرینگے۔ وہ یہاں امن نہیں چاہتے، دونوں صورتوں میں عدم استحکام ہی انکی منشاء ہے۔ ایک پہلو یہ ہے کہ امریکہ مخالف بلاک اس صورتحال سے کیسے نبردآزما ہوتا ہے۔ جیسے عراق میں اپنی موجودگی کیلئے صدام کو ہٹایا، لیکن انقلابی گروہ وہاں حاوی ہوگئے۔

اسی طرح یہ ممکن ہے کہ افغانستان میں داعش کے پنجے مضبوط کرنے کیلئے امریکی فوجیں نکل جائیں، لیکن امریکہ مخالف ممالک حکمت عملی سے امریکہ کو بھی نکلنے پہ مجبور کریں اور بعد میں افغانستان کو عدم استحکام کا شکار بھی نہ ہونے دیں۔ میرے خیال میں امریکہ مکمل انخلاء کی بجائے جزوی طور پر افواج واپس بلائے گا، اسی طرح مکمل امن بھی فوری طور پر نظر نہیں آرہا، ایک نئے تصادم کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ خطے کے ممالک حکمت عملی سے افغانستان میں پیدا ہونیوالے عدم استحکام اور ارتعاش کو افغانستان تک محدود کرسکتے ہیں، جس سے
عالمی استعمار کے مقاصد کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ آئی ایس او کے سابق مرکزی صدر ہیں، موجودہ دور کے تقاضوں کیمطابق آئی ایس او کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔؟
ناصر عباس شیرازی:
بطور تنظیم آئی ایس او کی عوامی حلقوں میں موجودگی ضروری ہے، یہ تربیت، تعلیم، قومی کردار ہر حوالے سے ناگزیر ہے۔ میرے خیال میں آئی ایس او کا قومی کردار دیکھ کر لوگ تنظیم میں آتے ہیں، تعلیمی عنوان سے آئی ایس او مدد تو کرتی ہے، لیکن یہ کام اکیڈمی سے بھی ہوسکتا ہے، آئی ایس او میں طالب علم دینی عنوان سے آتا ہے، تاکہ وہ اس بنیاد پہ اپنا قومی کردار ادا کرسکے۔ آئی ایس او کو شہید قائد علامہ عارف حسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی عطا کردہ روح، یعنی قومیات میں کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے، اپنی توسیع کی کوشش کرنی چاہیئے، اس سے باقی تمام کام ہوسکتے ہیں۔ میری نگاہ میں آئی ایس او کی ترجیحات میں دو بنیادی چیزیں ہیں، یعنی اپنے خط یعنی قومیات میں کردار کی بالعمل حفاظت اور دوسرا توسیع، بالخصوص لوکل یونٹس کا قیام، محب یونٹس کا قیام، ایسی تمام آبادیاں جہاں اہلبیت علہیم السلام کے پیروکار موجود ہیں، وہ تنظیم کی تشکیل، تاکہ وہ وہاں اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکیں۔

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی کے چالیس سال مکمل ہوگئے، انقلاب اسلامی کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی:
انقلاب کے چالیس سال کامیابی سے مکمل ہوگئے ہیں۔ امریکہ، عالم غرب اور انکے اتحادیوں نے اقتصادی، عسکری، سیاسی اور نظریاتی و نفسیاتی اقدامات کیے ہیں، لیکن چالیس سال بعد انقلاب محدود نہیں ہوا، بلکہ امریکی دائرہ کار محدود ہوا ہے۔ انکے قدم رکے ہیں، امریکہ کے اتحادی خطے میں بدنامی کا شکار ہیں، یورپی یونین انتشار کا شکار ہے، لیکن انقلاب اسلامی داخلی طور پر بھی مضبوط ہو رہا ہے، خارجی سطح پر بھی انقلاب کے اثرات اور نقش میں مضبوطی اور اضافہ ہوا ہے۔ انقلاب اسلامی نے جس ظرح داخلی طور پر استحکام پکڑا ہے، اس سے عالمی سطح پر انکی درجہ بندی بہتر ہوئی ہے، انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلامی اصولوں پہ قائم رہ کر ایک قوم سرفراز ہوسکتی ہے۔ انقلاب کا درس ہے کہ ہماری قوم زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کرسکتی ہے، عالمی سطح پہ باوقار مقام بنا سکتی ہے، دشمن کی طرف درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

اس طرح انقلاب اسلامی نے دنیا کے محرومین کو دنیا میں عزت کیساتھ زندہ رہنے کا ہنر عطا کیا ہے۔ اسی وجہ سے اسلامی ممالک کے علاوہ لاطینی امریکہ میں بھی انقلاب کو آئیڈیالائز کیا جاتا ہے۔ انقلاب اسلامی نے عالم استعماری طاقتوں کے مقابلے میں لوگوں کو کھڑے ہونا سکھایا ہے، اپنی صلاحیتوں پر اعتماد سکھایا ہے، خدا سے تعلق کی بناء پر مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت دی ہے، امریکہ نے جو سحر طاری کیا ہوا تھا کہ قدرت و طاقت کا مرکز و منبع وہ ہے، اسکو توڑا ہے۔ اس طرح دیکھیں تو انقلاب اسلامی کی مخالف قوتوں کو ناکامی ہوئی ہے۔ یہ قوتیں زوال پذیر ہیں، انقلاب اسلامی اندرونی طور پر مضبوط اور بیرونی طور پر وسعت پذیر ہے، یہ رجحانات دراصل اسکا تعین کرتے ہیں کہ انقلاب کا مستقبل ماضی کی طرح شاندار ہے، یہ انقلاب ایک عالمی انقلاب کی زمینہ سازی کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 777271
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش