0
Tuesday 12 Feb 2019 02:36
عالمی طاقتیں عرب اور افریقی ممالک کو اسرائیل کے قریب لا رہی ہیں، تاکہ صدی کی ڈیل کا پلان کامیاب ہو

اسلامک ملٹری الائنس یمن میں ہی امن قائم نہیں کرسکا تو فلسطین کو کیا آزاد کرائے گا، صابر ابو مریم

اسلامک ملٹری الائنس یمن میں ہی امن قائم نہیں کرسکا تو فلسطین کو کیا آزاد کرائے گا، صابر ابو مریم
صابر ابو مریم کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے، وہ فلسطین فانڈیشن پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے یکجہتی فلسطین (APSP) اور گلوبل کمپین ریٹرن ٹو فلسطین (GCRP) کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں۔ 2012ء میں عالمی مارچ برائے آزادی القدس (GMJ) کے پاکستان میں بنیادی آرگنائزر بھی ہیں۔ صابر کربلائی کا نام پاکستان کے ان چیدہ افراد میں سرفہرست آتا ہے، جنہوں نے ماضی یا حال میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے جدوجہد کی ہے، اس کیساتھ ساتھ صابر کربلائی ایک مایہ ناز ریسرچ اسکالر اور کالم نویسی بھی کرتے ہیں، انکے درجنوں کالم پاکستان کے معروف اخبار روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوچکے ہیں، وہ غرب ایشیاء (مشرق وسطیٰ) اور فلسطین کے حوالے سے خصوصی کالم نویسی انجام دیتے ہیں۔ دور حاضر میں فلسطین فانڈیشن پاکستان ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم ہے، جس سے پاکستان کی ہر سیاسی و مذہبی جماعت سمیت حقوق انسانی کیلئے کام کرنیوالی تنظیمیں اچھی طرح سے واقفیت رکھتی ہیں، گذشتہ سال سے فلسطینیوں کے واپسی مارچ، بحرین میں آل خلیفہ حکومت کیخلاف تحریک، یمنی عوام کی استقامت اور نام نہاد اسلامی ملٹری الائنس کے کردار کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ تفصیلی گفتگو کی ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: بحرینی عوام گذشتہ کئی سالوں سے آل خلیفہ حکومت کی آمریت کیخلاف سراپا احتجاج ہیں، 14 فروری بھی آنیوالا ہے ، اسوقت اس تحریک کی پیشقدمی کو کسطرح سے دیکھتے ہیں۔؟
صابر ابو مریم:
بسم اللہ الرحمن الرحیم، بہت شکریہ آپ کا، میں سمجھتا ہوں کہ بحرین کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ وہاں پر عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی ہے، ملک کی اکثریت عوام پر ایک مخصوص خاندان حکمرانی کر رہا ہے، دو تہائی عوام اس شہنشاہیت اور آمریت کے خلاف برسرپیکار ہے، وہاں پر جو آل خلیفہ حکومت ہے، وہ پڑوسی عرب ممالک سے فوجیں کرائے پر خرید کر بحرین میں جاری عوامی انقلاب کو سبوتاژ کر رہی ہے، عوام کی جانب سے جاری جدوجہد کو ختم کرنے کے لیے اوچھے ہتھکندے استعمال کیے جا رہے ہیں، حال ہی میں بحرین کی حزب اختلاف (اپوزیشن) نے قطر، کویت اور ترکی سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی کہ بحرین میں موجودہ آمریت اور شہنشاہیت کو مذاکرات کی میز پر لائے اور بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو ممالک بحرین کا ساتھ دے رہے ہیں، جن میں متحدہ عرب امارت، سعودی عرب اور دیگر ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ یہ ممالک آگے بڑھیں اور کوئی ثالثی کا کردار ادا کریں۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے، اقوام متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کے اداروں کی آنکھیں کھلنی چاہییں، اُنہیں صرف بیانات اور کاغذی کارروائیوں سے ہٹ کر عملی طور پر بحرینی عوام کو ریلیف دینا چاہیئے، آل خلیفہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مصالحت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہیئے، بحرینی حکومت کی جانب سے ظالمانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، کبھی بحرینی عوام کے روحانی پیشوا شیخ عیسیٰ قاسم کو نظربند کر دیا جاتا ہے، اُن کا محاصرہ کر لیا جاتا ہے، اُنہیں علاج کے لیے بھی باہر نہیں جانے دیا جاتا، دوسری جانب شیخ علی سلمان کے خلاف خود ساختہ عدالتوں میں ٹرائل کرکے سزا سنا دی جاتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ بحرینی حکومت کے اس طرح کے ہتھکنڈے عوام کے جذبات کو کم نہیں کرسکتے، بحرینی کی دو تہائی عوام اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے اور ان کا مستقبل تابناک ہے۔

اسلام ٹائمز: اسرائیل کیجانب سے مسلسل حزب اللہ کی سرنگوں کو تباہ کرنیکے بیانات اور حالیہ قائد مقاومت سید حسن نصراللہ کا انٹرویو فلسطینیوں کی تحریک میں کس حد تک معاون ثابت ہو رہا ہے۔؟  
صابر ابو مریم:
مسئلہ فلسطین گذشتہ سو سالوں میں اِس وقت سخت ترین دور سے گزر رہا ہے، کیونکہ ایک طرف امریکہ نے پلان دیا ہے، جسے ڈیل آف سنچری کا نام دیا گیا ہے، جس میں اُنہوں نے عرب ممالک کو بھی اسرائیل کا دوست بنانا شروع کر دیا ہے، افریقی ممالک کو بھی اسرائیل کی دوستی کی جانب لا رہے ہیں، تاکہ اسرائیل کے ساتھ عرب اور افریقی ممالک کے تعلقات بہتر بنائے جائیں اور یروشلم کو اسرائیل جو کہ جعلی ریاست ہے، اُس کا دارالحکومت تسلیم کرایا جائے، اس کے لیے سرتوڑ کوششیں جاری ہیں، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس حوالے سے عرب ملک مسقط کا دورہ کیا، ابوظہبی، دبئی اور امارات میں مختلف اسرائیلی عہدیداروں کے دورے، سعودی عرب کا اس میں اہم کردار ہے، اسی طرح افریقی ملک چاڈ میں اسرائیلی وزیراعظم نے دورہ کیا، اس سے پہلے اسرائیل کے انگولا کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے۔

ایک طرف یہ فلسطین مخالف ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے تو دوسری طرف یہ فلسطینی ہیں کہ جن کے تمام دھڑوں نے صدی کی اس ڈیل کو ماننے سے انکار کر دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلنا ہے کہ فلسطین کو فلسطینیوں سے چھین لیا جائے گا، لہذا فلسطین کی جتنی بھی سیاسی و مزاحمتی تحریکیں ہیں، سب نے اس امریکی منصوبے کو سختی کے ساتھ مسترد کر دیا ہے اور اس بات کا اعلان کیا ہے کہ فلسطین کی خاطر کوئی بھی قربانی دینا پڑے گی، وہ دیں گے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گذشتہ سال 30 مارچ کو فلسطینیوں کی جانب سے شروع ہونے والا واپسی مارچ آج کے دن تک جاری ہے، ہر جمعہ کو مقبوضہ سرحدوں پر مطاہرے ہوتے ہیں اور فلسطینی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ فلسطین کو غاصب صیہونیوں کے شکنجے میں نہیں جانے دیں گے، بیت المقدس کو صیہونیوں کے دارالحکومت میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے، بیت المقدس کیونکہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کا جو صیہونیت کے مخالف ہیں، اُن سب کا مشترک ہے۔

دوسری جانب اسرائیل نے جو دعویٰ کیا ہے کہ لبنان سے نکل کر مقبوضہ فلسطین تک جانے والی حزب اللہ کی زیرزمین سرنگوں کو پکڑ لیا ہے، اس حوالے سے سید حسن نصراللہ نے خود اپنے انٹرویو میں بہت ساری چیزوں کو آشکار کر دیا ہے، جس میں سے ایک بات اُنہوں نے یہ بھی کہی کہ کیا اسرائیلی عوام اس بات پر یقین کرتی ہے کہ نیتن یاہو اُن سے سچ بول رہے ہیں؟ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل جو دنیا کی اتنی بڑی جدید ٹیکنالوجی، انٹیلیجنس اور معلومات رکھنے والا ملک ہے، کیا اُسے آج پتہ چلا ہے کہ حزب اللہ کی سرنگیں بھی ہیں؟ کہ جن کے بارے میں حزب اللہ خود کہتی ہے کہ ہم نے یہ سرنگیں تیرہ، چودہ سال پہلے بنائی تھیں، سوال یہ نہیں کہ کتنی سرنگیں پکڑی گئیں بلکہ سوال تو یہ ہے کہ آپ کتنی دیر سے وہاں تک پہنچے۔؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا آپ نے اُن تمام سرنگوں کو ختم کر دیا یا ابھی موجود ہیں۔؟

اسرائیل کا اس طرح کا پروپیگنڈہ اسرائیلی عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہے نہ کہ حزب اللہ کے لیے، بلکہ حزب اللہ نے تو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ جو کام اِنہوں نے کیا ہے، خود اسرائیلی عوام کو سوچنا چاہیئے کہ اس کے نتائج کیا برآمد ہوں گے، کیا حزب اللہ کی جانب سے خطرہ ٹل گیا ہے، یہ حزب اللہ جو فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے، کیا اُس نے صرف ان سرنگوں پر انحصار کیا ہوا تھا؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت اسرائیل ایران، عراق اور شام کے چنگل میں بُری طرح پھنس گیا ہے، اسرائیل کو براہ راست اس جنگ میں شکست ہوچکی ہے، امریکہ وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوچکا ہے، یہ ساری صورتحال یہ ثابت کر رہی ہے کہ اسرائیل ایک تو جھوٹ کا سہارا لے رہا ہے اور دوسرا اُس کے پاس ایسا کوئی راستہ موجود نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں کی تحریک کو دبا سکے یا حزب اللہ کے خلاف نفسیاتی جنگ کا آغاز کر سکے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں  حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ کی علالت کی خبریں گردش کرتی رہیں، جسے سید حسن نصراللہ نے مسترد کر دیا، ان خبروں کے پیچھے کیا سازش کارفرما تھی۔؟
صابر ابومریم:
دراصل جو دو ملکوں کی سیاست ہوتی ہے، اس میں نفسیاتی طور پر تمام جنگی حربے استعمال کیے جاتے ہیں، اسرائیل کی جانب سے ایک طرف نادرن شیلڈ آپریشن شروع کیا گیا، جس پر وہ چاہتے تھے کہ اس نادرن شیلڈ آپریشن پر حزب اللہ کا موقف سامنے آئے، حزب اللہ کا موقف یہ تھا کہ ہم کسی کی فرمائش پر یا کسی کے طے کیے ہوئے وقت پر بات نہیں کرتے، بلکہ ہم جو بات کرتے ہیں، اپنا وقت طے کرکے بات کرتے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ اسرائیل جب چاہے گا تو ہم کوئی بیان دیدیں گے، اسرائیل جب ہمیں طیش میں لائے، غصے میں لائے یا ہمارے خلاف کسی کارروائی کا آغاز کرے تو ہم بیان دیں بلکہ ہم جب بیان دیں گے تو اپنے مقرر کردہ وقت پر بیان دیں گے، سید حسن نصراللہ کی بیماری کی خبریں جب گردش کرائی گئیں، اُس وقت اسرائیل یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح سید حسن نصراللہ منظرعام پر آئیں اور آکر اپنی بیماری کے حوالے سے بات کریں اور اس کے پیچھے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دوران وہ کوئی اور منصوبہ سامنے رکھتے ہوں، لیکن سید حسن نصراللہ نے اپنا وقت مقرر کیا تو میڈیا پر آکر اس سارے جھوٹ کے پلندے کو بے نقاب کیا۔

اسلام ٹائمز: فلسطینی عوام تو ہر جمعہ کو مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں پر احتجاج کرتے ہیں، ایسے میں فلسطین کی مزاحمتی تحریکیں بشمول فلسطین اتھارٹی کیا ایک پیج پر ہیں۔؟
صابر ابومریم:
بنیادی طور پر فلسطینیوں کی حق واپسی کی جو تحریک ہے، اس میں تمام فلسطینی دھڑے شامل ہیں، بشمول حماس، اسلامی فرنٹ، پاپولر فرنٹ، جہاد اسلامی، اسلامی جہاد حتی پی ایل او بھی کسی حد تک ان معاملات میں شامل ہے، لیکن کچھ مقامات پر دیکھنے میں آیا ہے کہ آپس میں کچھ چپقلش موجود ہے، لیکن کلی طور پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمام فلسطینی یک زبان ہو کر ایک ہی بات کر رہے ہیں اور اُنہوں نے صدی کی ڈیل کو مسترد کر دیا ہے، وہ چاہے جہاد اسلامی ہو، حماس ہو یا کوئی اور ہو، مزاحمت کی جو تحریکیں ہیں، چاہے وہ سیاسی ہیں یا مزاحمتی، اُن سب نے کہا ہے کہ صدی کی ڈیل کو نہیں مانتے، سب واپسی کے حق کی بات کرتے ہیں، جسے دُنیا مسترد نہیں کرسکتی، یہ بنیادی حقوق میں سے ہے کہ جسے اپنے زمینوں سے نکالا ہے، وہ واپس آنا چاہتے ہیں، اسے دنیا کا کوئی قانون نہیں روک سکتا، دنیا بھر میں موجود فلسطینی واپس آئیں اور وہ اپنا فیصلہ کریں، امریکہ کون ہوتا ہے جو فیصلہ کرے، نہ ماضی میں برطانیہ کو اختیار تھا کہ وہ فیصلہ کرے۔

اسلام ٹائمز: جسطرح اسرائیل کو تسلیم کرانے کیلئے مختلف طاقتیں برسرپیکار ہیں تو کیا دوسری طرف فلسطینی موقف کو مضبوط کرنے کیلئے بھی کوئی لابی کام کر رہی ہے۔؟
صابر ابومریم:
جہاں تک فلسطینیوں کی بات ہے تو وہ اپنا فرض نبھا رہے ہیں، وہ اپنا سینہ تان کر سینے پر گولیاں کھاتے ہوئے جدوجہد کر رہے ہیں، رہی بات کوئی ایسی لابی کی تو یہ عالم اسلام اور اُمت مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ وہ مسلم اُمہ اور مسلمان حکمران جو کل تک فلسطین کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار کھڑے رہتے تھے، آج اُن ممالک کے حکمران اس قدر تبدیل ہوگئے ہیں کہ اس صدی کی ڈیل میں وہ اگلے پچاس پچاس سالوں کی بادشاہت کی گارنٹی مانگ رہے ہیں امریکہ سے، کہ ہم صدی کی ڈیل کی حمایت کریں گے، لیکن ہماری اگلی پچاس سالہ بادشاہت کی یقین دہانی کرائی جائے، جو کہ اس وقت اُمت مسلمہ کے لیے بدترین صورتحال ہے، دنیا بھر کے مسلمان کوئی ایسا اتحاد بنانے میں ناکام ہوچکے ہیں، حالانکہ عرب لیگ موجود ہے، او آئی سی موجود ہے، لیکن ان اتحادوں کے ہونے کے باوجود بھی فلسطین کا مسئلہ پس پشت ڈالتے چلے جا رہے ہیں، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مسئلہ فلسطین پہلی ترجیح ہوتا، مسلم ممالک کی عوام ایک طرف ہے اور حکمران دوسری طرف ہیں، یہ حکمران اپنی عوام کے جذبات کا بھی قتل عام کر رہے ہیں، نہ صرف فلسطین کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں بلکہ عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا یمن میں جاری قضیہ اور جنگ کے خاتمے کے بعد ممکن ہے کہ (نام نہاد) اسلامی ملٹری الائنس مسئلہ فلسطین کیلئے اپنا کردار ادا کریگا یا پھر بھی نہیں۔؟
صابر ابومریم:
یہ ملٹری الائنس بھی ایک متنازعہ ملٹری الائنس ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جو یمن کے خلاف سعودی بادشاہت کو بچانے کے لیے بنایا گیا ہے، یہ الائنس پہلے ہی فیز میں ناکام ہوچکا ہے، یہ یمن میں ہی امن قائم نہیں کرسکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یمن سے زیادہ اہم مسئلہ فلسطین کا ہے، یمن میں گذشتہ چار سالوں سے ایک اسلامی ملک جارحیت کر رہا ہے، جبکہ فلسطین کا مسئلہ گذشتہ 100 سالوں سے چل رہا ہے اور فلسطینیوں پر بدترین مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اسرائیل جو صرف ایک پڑوسی کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا دشمن ہے، جس کے لیے ان کو ایک الائنس بنانا چاہیئے تھا، لیکن بدقسمتی سے ایک الائنس بنایا بھی تو مسلمانوں کے خلاف، میں سمجھتا ہوں کہ اس الائنس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: ترکی میں موجود سعودی سفارتخانے میں قتل ہونیوالے سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں شروع میں ترکی، امریکہ اور اقوام متحدہ کچھ سنجیدہ نطر آئے، لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ سنجیدگی ختم ہوتی گئی، اسوقت جمال خاشقجی قتل کے حوالے سے کیا پیشرفت ہو رہی ہے۔؟  
صابر ابومریم:
سعودی مخالف صحافی کے قتل کی تحقیقات ابھی چل رہی ہیں، ترکی اور امریکہ دونوں لین دین کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے بھی کچھ مفادات ہیں، سیاست کے اندر جو مشترکہ مفادات ہوتے ہیں، وہ بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ترکی امریکہ سے کیا چاہتا ہے اور امریکہ ترکی سے کیا چاہتا ہے، امریکہ سعودی عرب سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے، ان سب چیزوں کو دیکھیں تو ان کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں، کیونکہ شام میں یہ سارے ایک ہی پیج پر تھے، ایک دوسرے کے مفادات کے ٹکرائو کی وجہ سے بھی بہت ساری چیزیں ابھی سامنے نہیں آئیں، یہ بات درست ہے کہ جس طرح سے معاملہ پہلے گرم ہوا تھا، اب وہ کیفیت نہیں رہی ہے، مذاکرات کی میز پر بہت ساری چیزیں طے ہو رہی ہیں اور یہ معاملہ آخر کار سیاست کی نذر ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 777438
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش