0
Thursday 28 Feb 2019 20:48
جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں

بھارت و پاکستان کے سربراہان ایک دوسرے کیخلاف تلخ بیان بازی سے گریز کریں، ڈاکٹر فاروق عبداللہ

مذاکرات سے ہی مسائل کا کوئی حل نکل سکتا ہے
بھارت و پاکستان کے سربراہان ایک دوسرے کیخلاف تلخ بیان بازی سے گریز کریں، ڈاکٹر فاروق عبداللہ
ڈاکٹر فاروق عبداللہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مشہور و معروف سیاستداں ہیں، کشمیر کیساتھ ساتھ بھارت میں بھی وہ اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ فاروق عبداللہ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ کے فرزند ہیں، 1981ء میں وہ نیشنل کانفرنس کے چیئرمین چنے گئے۔ این سی کی بنیاد 1937ء میں پڑی تھی، جسکے فاروق عبداللہ سربراہ ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کشمیر اسمبلی میں اہم منسٹری پر فائز رہے ہیں۔ وہ 1982ء سے کئی بار جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی منتخب ہوئے۔ 2002ء میں وہ پہلی بار بھارتی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے، ڈاکٹر فاروق عبداللہ بھارتی پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کیساتھ خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

ا
سلام ٹائمز: بھارت اور پاکستان کے درمیان پائی جانیوالی موجودہ تشویشناک صورتحال کے پیش نظر دونوں ملکوں کی قیادت کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے۔؟
ڈ
اکٹر فاروق عبداللہ: دیکھیئے دونوں ممالک سے ہماری اپیل ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف تلخ بیان بازی سے گریز کریں۔ دونوں ممالک کے سربراہوں کو سرحدوں پر جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھانے چاہیئں۔ جس طرح سے گذشتہ کچھ عرضے سے دونوں ممالک کے لیڈر ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات جاری کر رہے ہیں، وہ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے لیڈروں کو بالغ النظری سے کام لیکر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ لینا چاہیئے۔ اس تضاد و منافرت سے دونوں ممالک کو زبردست مالی اور جانی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس پار بھی فوجی مارے جا رہے ہیں اور اس پار بھی فوجی مر رہے ہیں۔ دونوں طرف عام شہری ہی گولہ باری کا شکار ہو رہے اور زبردست عتاب میں مبتلا ہیں۔ جنگ سے کسی کی جیت نہیں ہو رہی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تلخیوں اور رنجشوں کا خمیازہ ہمیشہ کشمیری قوم کو ہی بھگتنا پڑا اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کچھ لوگ جنگ کے قائل ہیں اور بعض کا ماننا ہے کہ مذاکرات میں ہی تمام مسائل کا حل مضمر ہے، آپ اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر فاروق عبداللہ: ہمارا ماننا ہے کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی سرزمین سے دہشتگردی کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا چاہیئے، اگر پاکستان نے ایسا نہیں کیا تو یہ دنیا میں ایک دہشتگرد ملک کہلائے گا اور اس ملک کے عوام پر مصیبتیں آئیں گی۔ افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ بڑی خوشی سے جنگ کی باتیں کر رہے ہیں۔ ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ ہم سب کو جنگ سے بچائے۔ آج تک چار جنگیں ہوئیں، اُن جنگوں میں ہم ہی لوگ مارے گئے، مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ یہ بات طے ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان مسائل کا کوئی حل نکالنا ہے تو وہ بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے مذاکرات کے حوالے سے پیشکش کی ہے۔ ہمارا مذہب اسلام ہمیں نفرتیں نہیں بلکہ بھائی چارہ سکھاتا ہے، ایک دوسرے کی مدد کرنا سکھاتا ہے۔ کچھ لوگ جنگ کی باتیں کر رہے ہیں، تاہم ماضی کی جنگیں گواہ ہیں کہ ان میں سب سے زیادہ نقصان جموں کشمیر کے لوگوں کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔

اسلام ٹائمز: بھاجپا سے وابستہ افراد وادی کشمیر کو تقسیم کرنیکے درپے ہیں، انکی ایک کوشش یہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ دفعہ 35 اے کو ہٹایا جائے، اس حوالے سے آپکی تشویش جاننا چاہیں گے۔؟
ڈاکٹر فاروق عبداللہ:
تقسیم کی بات صرف وادی کشمیر میں ہی کیوں۔ جموں اور  لداخ میں کوئی تیسرا فرنٹ کیوں نہیں بنایا جاتا، وہاں کیوں ووٹوں کی کوئی تقسیم نہیں ہوتی، لیکن جب پیسے دیکر کوئی تیسرا فرنٹ قائم کیا جاتا ہے تو وہ وادی کشمیر میں کیا جاتا ہے۔ یہ سب ہماری آواز کو کمزور کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ بھارت کی کوشش رہے گی کہ کشمیر میں گلی گلی لیڈر کھڑا ہو، تاکہ یہاں ایک آواز میں کوئی بات نہ کرسکے۔ بھارت کی کوشش رہے گی کہ ہمیں اس طرح کمزور کیا جائے، ہماری آواز کو دبایا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری آواز بکھر جائے، تاکہ پھر وہ ہمارے ساتھ سازشیں کریں، چاہیئے وہ 35 اے کی سازش ہو یا پھر 370 کی سازش ہو۔ آج اگر بی جے پی اور آر ایس ایس والے ہمارے سر پر سوار ہیں، وہ اس لئے کہ ہم نے اُن کو اپنے ووٹوں کی تقسیم سے یہاں پہنچایا ہے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے بھاجپا اور دیگر ہندو انتہا پسند عناصر کی شدت پسندی کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔ آخر کشمیریوں کا قصور کیا ہے۔؟
ڈاکٹر فاروق عبداللہ:
میں پہلے بھی بھارتی حکومت کو مخاطب کرکے کہہ چکا ہوں کہ گالی یا گولی نہیں بلکہ کشمیریوں کو گلے لگا کر نزدیک لایا جائے۔ آج ہم سن رہے ہیں کہ جو کشمیری لوگ بھارت کام کاج یا تحصیل علم کے سلسلے میں گئے تھے، وہ حالات کی وجہ سے مجبور ہو کر گھر لوٹ رہے ہیں۔ انہیں ٹرینوں میں پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارت میں کشمیریوں کو پکڑ کر اُن سے کہا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائیں، تب اُن کو چھوڑا جائے گا۔ کشمیریوں کا قصور فقط یہ ہے کہ ہم جنگ کی بات نہیں کرتے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے مسئلے کا حل اگر ہوگا تو وہ بات چیت و مذاکرات کے ذریعے ہوگا۔ جنگ ہو یا پھر بندوق، اُس کی تباہی ہم نے دیکھی ہے، جنگوں سے تباہی کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں ملا ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارتیہ جنتا پارٹی کیجانب سے مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ دفعہ 35 اے کی منسوخی کی باتیں ہو رہی ہیں، اس پر آپکا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
ڈاکٹر فاروق عبداللہ:
بھارت اور کشمیر کے الحاق کی تاریخ اور اسباب کو نہ جاننے والے ہی اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ کشمیری عوام کو دفعہ 35 اے اور دفعہ 370 کے تحت آئینی اور جمہوری مراعات و حقوق دیئے گئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے وہ حقوق وقت وقت پر ہم سے چھینے گئے ہیں۔ کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی حفاظت کرنا جموں و کشمیر کے تینوں خطوں کے ہر ایک پشتینی باشندے کا فرض بنتا ہے۔ جموں و کشمیر کو خصوصی پوزیشن دفعہ 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس دفعہ سے ہی ہمارے کشمیر کی پہچان، تہذیب و تمدن اور کشمیریت قائم و دائم ہے۔ بس ہمیں سازشی عناصر کے خلاف متحد ہوکر اور ایک ہی موقف اختیار کرکے لڑنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کشمیری عوام کیخلاف بھارتی افواج اور ایجنسیوں نے محاذ کھول رکھا ہے، جسکے تحت یہاں کی مذہبی جماعتوں کیساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے، آپ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
ڈاکٹر فاروق عبداللہ:
دیکھیئے جموں و کشمیر جماعت اسلامی، جموں و کشمیر جمعیت اہلحدیث، جموں و کشمیر حریت کانفرنس اور مزاحمتی جماعتوں کے سینکڑوں کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن سے یہاں تناؤ پیدا ہوا ہے۔ ان گرفتاریوں کا ہرگز کوئی جواز نہیں ہے اور ان گرفتاریوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ گرفتاریاں دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کے لئے عمل میں لائی گئی ہوں، لیکن ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ اس خصوصی درجے کی حفاظت کرنا کشمیر کے ہر ایک فرد کا فرض ہے۔ کشمیر دشمن عناصر روز اول سے ہی بھارتی آئین میں ہمیں حاصل خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کے لئے سرگرم رہے ہیں، لیکن جیسا میں کہہ چکا ہوں کشمیری عوام متحد ہوکر ایسے عناصر کے خلاف قیام کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 780114
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش