0
Sunday 7 Apr 2019 16:47

پاکستان کو مودی سے زیادہ عمران خان کی تنگ نظری سے خطرہ لاحق ہے، سید حسن مرتضیٰ

پاکستان کو مودی سے زیادہ عمران خان کی تنگ نظری سے خطرہ لاحق ہے، سید حسن مرتضیٰ
پاکستان پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات، پنجاب اسمبلی میں پی پی پی کے پارلیمانی لیڈر، سید حسن مرتضیٰ 2018ء میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ ملک میں درپیش سیاسی صورتحال، حکمران جماعت کے اختلافات اور پنجاب حکومت کے متعلق متضاد خبروں سمیت ایم ایشوز پر انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اپوزشن ان کیلئے سیاسی چیلنج نہیں، لیکن وزیر خارجہ نے جہانگیر ترین کے وفاقی کابینہ کو بریف دینے پہ اسطرح اعتراض کیوں کیا ہے کہ اس سے نون لیگ کو تنقید کا موقع ملتا ہے۔؟
سید حسن مرتضٰی:
ہماری پوزیشن تو واضح ہے، پی ٹی آئی کے نااہل شدہ رہنماء کیلئے سب کچھ جائز ہے، لیکن اپوزیشن رہنماؤں کے لیے پابندیاں ہیں، ایک لحاظ سے یہ معاملہ عدلیہ کو دیکھنا چاہیئے۔ جہانگیر ترین پر ایسے الزامات ہیں، جن پہ پچاس پچاس سال سزا ہوئی ہے لوگوں کو۔ پھر انہیں سزا تو ہوئی ہے، انہوں نے جرمانہ دیا ہے کروڑوں کا۔ جس شخص پر انسائیڈ ٹریڈنگ کے ذریعے خوردبرد اور لوگوں کو جھانسہ دیکر پیسے ہڑپ کرنیکے الزامات ہیں، وہ کس طرح وفاقی کابینہ کے فیصلوں میں شامل ہوسکتا ہے، یہ کسی بھی طرح درست نہیں۔ پھر ایسے فیصلے جب ان کی اپنی شوگر ملیں اور ایگرکلچر کا کام ہے، 290 ارب کے فیصلوں پر اثرانداز ہونا، یہ سب باتیں شاہ محمود قریشی صاحب نے تو نہیں کیں، لیکن انہوں اخلاقی بنیادوں پہ پوائینٹ آوٹ کیا ہے، یہ حکومت کے دوغلے پن کا ایک اسکول ہے۔ یہ اعتراض شاہ محمود کو کابینہ کے اجلاس کے موقع پر کرنا چاہیئے تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تعلق صرف کابینہ کے اجلاس میں شرکت سے نہیں، اس کے کوئی اور پہلو بھی ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال میں حکومت کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے۔؟
سید حسن مرتضٰی:
یہ پارٹی ہی ایسی ہے، یہ بھان متی کا کنبہ ہے، کسی کو کہیں سے اٹھا کر لے آئے ہیں اور کسی کو کہیں سے۔ پارٹیوں میں اختلاف رائے ہوتا ہے، لیکن انکے درمیان کوئی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے، لیڈرشپ کا بھی فقدان ہے، اگر پارٹی اندر سے مضبوط ہوتی تو یہ آپس میں ہی بات کر لیتے، جس نے اختلاف ظاہر کیا ہے، وہ بھی میڈیا کے ذریعے بات کر رہا ہے، جس پر اعتراض کیا گیا ہے، وہ بھی ٹی وی پہ آکر جواب دے رہے ہیں، ان کو روکنے والے پارٹی سربراہ اور موجودہ وزیراعظم بھی اعلامیہ کا سہارا لے رہے ہیں، اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ مل کر جب بیھٹتے ہونگے تو کیا کیفیت ہوگی۔ ویسے تو کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ حکومت اپنی مدت پوری نہ کرے، لیکن ایسے کوئی آثار نہیں لگ رہے کہ یہ چند ماہ نکال پائیں گے۔

جو انہیں حکومت میں لائے ہیں، وہ کوشش بھی کریں تو بار بار کا جوڑ توڑ انہیں اس قابل نہیں چھوڑے گا کہ یہ ملک کو آگے بڑھا سکیں۔ ان کے درمیان تو لڑائیاں ہی لڑائیاں ہیں، کل ہی تو نعیم الحق اور فواد چوہدری لڑ رہے تھے، پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے اب بھی کئی امیدوار ہیں، پارٹی ہے ہی نہیں ایک جمگھٹا ہے، کوئی باہر سے کنٹرول کرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتا۔ یہ کسی بھی حالت میں حکومت نہیں چلا سکتے۔ ملتان میں الیکشن ہوا اور جہانگیر ترین نے نون لیگ کے امیدوار کو اسپورٹ کیا، یہ بات ایک حلقے تک محدود نہیں ہے، ملک چلانے کیلئے سب کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے، ایک آدمی جو پارٹی اکٹھی نہیں رکھ پا رہا، وہ ملک کیسے چلا سکتا ہے، ابھی تو انہوں اتحادیوں کو بھی اپنے ساتھ رکھنا ہے، وہ اس سے بھی بڑا چیلنج ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک کو درپیش چیلنجز کو دیکھتے ہوئے بہتر نہیں کہ حکمران جماعت کی اندرونی لڑائی کو نظر انداز کر دیا جائے۔؟
سید حسن مرتضٰی:
اس لڑائی کے دو پہلو ہیں، ایک قانونی اور دوسرا اخلاقی۔ قانونی طور پر اگر جواز ہے بھی سہی تو اخلاقی طور پر پی ٹی آئی کے متعلق کوئی بھی بات نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ تو اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ ان کے پارٹی الیکشن میں بھی جسٹس وجہیہ الدین سمیت تمام الیکشن کمشنرز نے کہا کہ پارٹی الیکشن میں دھنادلی ہوئی ہے، سرمایہ دار اور سرمایہ کار ہی آگے آئے، جس پر پی ٹی آئی کے سینیئر اراکین نے اعتراض کیا، لیکن انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ آج سے تین چار سال پہلے بھی انہیں عمران خان نے یہی کہا کہ پارٹی میں آنے والے سرمایہ دار ایک خزانہ ہیں، جس کے بغیر پارٹی نہیں چل سکتی، اب وہ حکومت میں ہیں، تب بھی ان کی یہی صورتحال ہے، وہ ان لوگوں کے بغیر نہیں چل سکتے۔

لیکن وہ کرپشن کرپشن کی رٹ صرف اپوزیشن کیخلاف لگائے ہوئے ہیں، ہیں وزیراعظم لیکن انداز انکا فلمی ہے، اسکو پکڑ لوں گا، فلاں کو نہیں چھوڑوں گا، لٹکا دوں گا، جیل میں بند کر دوں گا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ آپس میں نہ لڑیں لیکن وہ ہیں ہی ایسے۔ ان لوگوں نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ملکی مفاد میں حکومت کو آگے لیکر چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ ہم اگر نظرانداز کر بھی دیں تو ابھی اور بھی بڑے لوگ ہیں، زلفی بخاری، عون چوہدری، علیم خان یہ سب لوگ عمران خان کا خزانہ ہیں، اس پارٹی میں یہ ہوتا رہنا ہے، جو ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔ بنی گالہ کے دسترخوان سے پارٹی اور اب حکومت اور ریاست کو بھی اسی ڈگر پہ چلانے کی کوشش ملک کو ڈبو سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومتی حلقوں میں اختلافات کسی ملک دشمن قوت کی سازش کا نتیجہ بھی ہوسکتے ہیں۔؟
سید حسن مرتضٰی:
یہ خالی شاہ محمود اور جہناگیر ترین کے درمیان مسئلہ نہیں ہے، پورا پنجاب رکا ہوا ہے، دھڑے بندی کی وجہ سے، کوئی کام نہیں ہو رہا، سب کچھ روک دیا گیا ہے، صرف اسی پسند ناپسند اور ذاتی مفادات کی لڑائی کیوجہ سے۔ اس میں اپوزیشن کیا کردار ادا کرسکتی ہے، اب تو وہ بھی پریشان ہیں جو عمران خان کو لیکر آئے تھے، ان کی مایوسی کا یہ نتیجہ ہے، جس کا اظہار شاہ محمود قریشی نے کیا ہے، اس کا سب سے زیادہ اثر پنجاب پہ ہوگا، یہ حکومت ختم ہو جائیگی یا پھر اسی طرح ہوا میں لٹکی رہیگی۔ عمران خان پنجاب کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر چلانا چاہتا ہے۔

پارٹی میں موجود دوسری قوتیں بھی پنجاب پہ کنٹرول کیلئے لڑ رہی ہیں، جس کے پاس پنجاب ہوتا ہے، اصل حکمرانی اسی کی ہوتی ہے، پھر سب سے کم مارجن ان کے پاس پنجاب میں ہے، جس سے سلیکٹڈ حکومت میں کبھی پائیداری آہی نہیں سکتی۔ اس ساری صورتحال میں نقصان ملک کا ہو رہا ہے، عوام مہنگائی کی چکی میں پش رہے ہیں، ایک رائے یہ بھی ہے کہ اپنی کوتاہیوں اور عوام کیخلاف کیے جانے والے ظالمانہ اقدامات سے توجہ ہٹانے کیلئے بھی ان اندرونی لڑائیوں کو ہوا دی جا رہی ہے، یہ سیاست بدترین آمریت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اسوقت مودی سے زیادہ عمران خان سے پاکستان کو خطرہ ہے، مودی کی تنگ نظری اور کوتاہ بینی کو عمران خان نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے معاشی چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے اپوزیشن کیساتھ ملکر چارٹر آف اکانومی کی پیشکش کی ہے، یہ پہلے سے ہی اپوزیشن کی خواہش تھی، کیا آپ حکومت کا ہاتھ بٹائیں گے۔؟
سید حسن مرتضٰی:
یہی تو اس حکومت کی خصوصیت ہے، یہ کوئی نہ کوئی پیشکش کرتے ہی رہتے ہیں، انہوں نے پہلے سو دنون کیلئے عوام کو سہانے خواب کی پیشکش کی، نوکریوں اور گھروں کی پیش کش کی، اب بھی پیشکش کر رہے ہیں، ان سے کچھ بھی کنٹرول ہونے والا نہیں ہے۔ اب یہ چاہتے ہیں کہ سارا ملبہ اپوزیشن پہ ڈال دیں، جو یہ پہلے بھی کر رہے ہیں۔ یہ کیا کنٹرول کریں گے، تیل، بجلی، سبزی، ہر چیز چاہے وہ ملک میں ہی پیدا ہوتی ہے، اس کی قیمت بڑھ چکی ہے، ادویات لوگوں کی رسائی سے باہر ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے کرایے بہت بڑھ چکے ہیں۔ پتہ نہیں اب یہ کس منہ سے کہتے ہیں کہ اکانومی کو بہتر بنا لیں گے۔ زراعت بیٹھ گئی ہے، انکا دعویٰ تھا ایمرجنسی پلان لیکر آئیں گے، وہ ویسے ہی ایمرجنسی میں چلا گیا ہے۔ بزنس ختم ہوگیا ہے، مزدور، کاشتکار، ملازم پیشہ لوگ اور کاروباری رو رہے ہیں، پتہ نہیں اب یہ کونسا چارٹر لیکر آنا چاہتے ہیں۔ ہم تنخواہوں میں اضافے اور سبسڈی کی بات کرتے ہیں، یہ کچھ بھی دینے کیلئے تیار نہیں ہیں، ان کیساتھ کیسے اتفاق ہوسکتا ہے، مشکل ہے۔
خبر کا کوڈ : 786626
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش