0
Thursday 11 Apr 2019 19:12
بے روزگاری کیوجہ پیدا ہونیوالی بے چینی مایوسی بڑھا رہی ہے

پاکستانی عوام کو اینگرو کا بوائلر سمجھنے والی حکمران اشرافیہ کیخلاف لاوہ پک چکا ہے، چوہدری منظور احمد

پاکستانی عوام کو اینگرو کا بوائلر سمجھنے والی حکمران اشرافیہ کیخلاف لاوہ پک چکا ہے، چوہدری منظور احمد
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری چوہدری منظور احمد سیاسی و قومی امور پر پارٹی کے مضبوط وکیل اور ابلاغ عامہ کے ماہر لیڈر ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال، مسلسل بنتی بدلتی حکومتی پالیسیوں، زوال پذیر معیشت اور اپوزیشن کے ممکنہ اتحاد سمیت ایم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا مختصر انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومت معاشی زبوں حالی کے ہوتے ہوئے کس طرح خوشحالی اور نوجوانوں کو روزگار کی نوید دے رہی ہے، اس میں کہاں تک صداقت ہے۔؟
چوہدری منظور احمد:
آپ کا تعلق اگر اپوزیشن سے ہے تو آپ کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ معیشت یا معاشی صورتحال کو زیربحث لائیں، ورنہ نیب اٹھا لے گی اور آپ کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ صرف علیم خان کی مثال دیکر ہر ایک کو دھمکایا جا رہا ہے، معیشت کا تو پہیہ ہی رکا ہوا ہے، پتہ نہیں یہ شیخ چیلی کے خواب کب دیکھنا اور دکھانا بند کرینگے، پہلے کی طرح الٹی سیدھی امیدیں دلا کر لوگوں کو مزید مایوس کرینگے۔ یہ ایک مضحکہ خیز بات کی گئی ہے، جس میں سوائے مزاح کے کوئی پہلو نہیں نکالا جا سکتا۔ یہ پہلی دفعہ کسی وزیر نے اکیلے بات نہیں کی، عمران خان نے بھی کہا تھا کہ ہم ایک کروڑ نوکریاں دینگے، پانچ سال انہوں نے حکومت کرنی ہے، ایک سال ہونے والا ہے، کسی کو نوکری ملی تو نہیں، لیکن ہزاروں کی نوکریاں چلی گئی ہیں، لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔

صرف میڈیا کی انڈسٹری کو لے لیں، کتنے لوگ تنگ ہیں، چھوٹے چھوٹے اداروں میں سینکڑوں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں، پتہ نہیں روزگار کا سونامی کہاں سے آئیگا، بے یقینی حد کو پہنچ چکی ہے۔ یہ دیوانے کے خواب سے بیدار ہی نہیں ہو رہے، اللہ ملک پر رحم کرے، ان سے لوگوں کی جان چھوٹے، اب تو ہر شخص یہی دعا کر رہا ہے، تبھی کوئی راستہ نکلے گا، روزگار کا بھی اور معاشی خوشحالی کا بھی۔ ملکی معیشت کی حالت کسی ماہر سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، کسی عام آدمی سے پوچھیں، مہنگائی کی کیا شرح ہے، حکومتی دعوے کہاں ہیں اور معیشت کا گراف کتنی تیزی سے گر رہا ہے۔ جی ڈی پی کی گروتھ ہی تو بتاتی ہے کہ نوکریوں کی حالت کیا ہوسکتی ہے، وہ تو مسلسل گر رہی ہے، مستقبل میں مزید گرنی ہے تو یہ دعوے کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہ پاگل پن ہے، جو قوم کو لے ڈوبے گا۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے اسلام آباد میں ملازمین کیلئے 25 ہزار اور بلوچستان میں لاکھ گھروں کی تعمیر کا اعلان کیا ہے، باقاعدہ وفاقی کابینہ نے منظوری دی ہے، یہ سب کچھ بغیر کسی بنیاد کے کیسے ممکن ہے۔؟
چوہدری منظور احمد:
گھر بنانے کیلئے کوئی بنیاد ہوتی ہے، جگہوں کی زوننگ ہوتی ہے، ایلوکیشن ہوتی ہے، کوئی نقشے، ڈیزائن ہوتے ہیں، فقط ہوا میں تو فیصلے نہیں ہوتے، یہ سب پہلے کی طرح ایک فراڈ سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب سے پاکستان بنا ہے، اسوقت سے اب تک پچاس لاکھ گھر بنے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ اب یہ سارا کام چار سال میں کر لیں، وہ بھی اگر ان کو نصیب ہوتے ہیں تو۔ اگر صرف بیانات سے ہی یہ کام ہونا ہے پھر تو ممکن ہے، لیکن جس رفتار سے اس کام کی تکمیل کیلئے کام کرنا پڑتا ہے، وہ ممکن نہیں۔ متانت جو پہلی شرط ہے، وہی نہیں ہے، ایک وزیر کہہ رہا ہے کہ ہم لاکھوں گھر بنا رہے ہیں، دوسرا کہتا ہے نوکریوں کا سیلاب آرہا ہے، ایک وزیر فرما رہے ہیں کہ بیس تاریخ تک پاکستان پر حملہ ہونیوالا ہے۔ نوجوان تو کنفیوز ہیں، وہ ملک کے دفاع کیلئے ہتھیار اٹھائیں، یا نوکریوں کیلئے اپنی سی وی بنائیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا۔

اسلام ٹائمز: قوموں کی زندگیوں میں صدیوں اور دہائیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، کیا ہمیں دو چار ہفتے کی جو بات حکومت نے کی ہے، مایوس ہونیکی بجائے اسکا انتظار نہیں کرنا چاہیئے۔؟
چوہدری منظور احمد:
یہی تو بات ہے، امید اپنی جگہ، لیکن وزراء کے بیانات میں تضاد ہی تو اس کی نفی کرتا ہے، یہ تو سامنے کی بات ہے، اگر ایک وزیر نے کہا ہے کہ تین چار ہفتے میں تبدیلی آ ہی جائے گی تو دوسرا بھی تو وزیر ہی ہے، جو کہہ رہا ہے کہ دیکھتے ہیں، ہوسکتا ہے پاکستان میں تیل کے ذخائر نکلتے ہیں یا نہیں نکلتے، پھر آپ کیسے یقین کرسکتے ہیں، امید دلانا تو دور کی بات ہے، یہ تو ایک دن بھی نہیں کہہ سکتے کہ کل کا سورج مہنگائی اور معاشی زبوں حالی میں اضافہ ساتھ نہیں لائے گا۔ یہ وزیر ہی ہیں، جو کہہ رہے ہیں کہ دو تین سال لگیں گے، کل ہی تو اسد عمر نے یہ کہا ہے کہ ابھی پاکستان آئی سی یو سے وارڈ میں آیا ہے، سال دو سال میں چلنے پھرنے کے قابل ہوگا۔

اب بندہ بات سنے اور بات مانے تو کس کی مانے۔ یہ تو خود اپنے ساتھ زیادتی اور ظلم ہے کہ جو چیز صاف نظر آرہی ہے، اسے نظرانداز کریں اور بغیر کسی وجہ کے امید لگا کے بیٹھ جائیں۔ وزیراعظم کو دیکھ لیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ مرغی اور انڈے سے معیشت بہتر ہو جائیگی، یہیں سے دیکھ لیں کتنا بڑا خلا اور تضاد موجود ہے، وزیراعظم اور انکے وزیروں کی سوچ اور بیانات میں، کچھ بھی نہیں ہونا۔ انہوں نے بس یہی کرنا ہے کہ کچھ لوگ جھوٹی خوشخبریاں سنائیں گے، کچھ مخالفین کو گالیں دینگے۔ اسٹیٹ بینک اور ورلڈ بینک کی رپورٹس کو سامنے رکھیں یا وزیرں کے بیانات کو دیکھیں، قوم کیلئے تو یہی درد سر کافی ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کی ناقص کارکردگی اگر جاری رہتی اور اپوزیشن بھی صرف تنقید کا سہارا لیتی ہے تو عام آدمی کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئیگی، پارلیمنٹ کے ذریعے ان مشکلات کا حل کیوں نہیں نکالا جا سکتا۔؟
چوہدری منظور احمد:
یہ عام روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ انسانی جان کو بچانے والی ادویات اور اشیاء کی قیمتیں بھی دوگنی کر دی گئی ہیں۔ حقیقت میں تو حکومت کو تمام پالیسیوں پہ نظرثانی کرنا پڑیگی، کچھ لوگ تو ایسے ہیں، جو بالکل ہی غریب ہیں، جو لوگ چالیس ہزار تک بھی آمدنی رکھتے ہیں، انکے تو بجلی کے بل ہی دس ہزار تک آئیں گے، دو تین ہزار گیس کا بل دیگا، مکان کا کرایہ، بچوں کے اخراجات، اس کے پاس کھانے اور علاج کو کچھ نہیں بچے گا، یہ پالیسیاں ناقص ہیں، تیل جب 76 کا بیرل تھا تو پیٹرول 66 روپے تھا، جب 66 کا بیرل ہوا ہے تو پیٹرول 100 روپے کا کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ کرنسی کی ویلیو کم ہونے کی وجہ سے ہے تو وہ پہلے والی حکومتیں بھی کرتی رہی ہیں، لیکن ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ لوگوں کا جینا ہی مشکل بنا دیا جائے۔

یہ ضرورت سے زیادہ بوجھ لوگوں پہ ڈال رہے ہیں، اس کو چاہیں تو کم کرسکتے ہیں، لیکن حکومت کسی کی سننے کیلئے تیار نہیں۔ اگر کوئی مشورہ دینا بھی چاہے تو یہ قبول کرنے کو آمادہ نہیں ہیں۔ ہم یہ کام پارلیمان میں مل کر کرنے کو تیار ہیں، حکومت تیار نہیں، نہ پالیسی بہتر بنانے کو تیار ہیں۔ ہم اب بھی عوام کی بہتری کیلئے تجاویز کی تائید کرتے ہیں، ہر بات پہ سیاست نہیں کی جاسکتی۔ حکومت کو قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دو بڑے مخالفین بلاول بھٹو اور شہباز شریف تو کہہ چکے ہیں کہ ہم حکومت کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں۔ یہ وزیراعظم ہیں، جو ہاتھ بڑھانے والوں کی طرف دیکھنے کی بجائے ڈرے جا رہے ہیں اور مرے جا رہے ہیں، پتہ نہیں یہ پارلیمنٹ سے ہی بھاگے جا رہے ہیں، یہ گالم گلوچ اور طعن تشنیع کی سیاست کر رہے ہیں اور سنجیدہ نہیں ہیں، ہم تو تیار ہیں ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے۔ یہ تو آتے ہی جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت کا اصرار ہے کہ انہوں نے پہلی حکومتوں کی نسبت ٹیکس کی شرح کم رکھی ہے، تاکہ عام آدمی کی زندگی زیادہ مشکل نہ ہو اور معیشت استحکام کیطرف جائیگی، اپوزیشن کی تنقید بلاجواز ہے، کوئی حل ہوتا سامنے لایا جاتا۔؟
چوہدری منظور احمد:
یہ کوئی پہلی دفعہ تو پاکستان میں کسی حکومت نے اپنا دورانیہ مکمل نہیں کیا اور نئی حکومت نہیں آئی، یہ دن تو ہر آنے والی حکومت کو دیکھنا ہوتے ہیں، اگر یہ حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اقدامات نے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر نہیں کیا تو جا کر لوگوں سے خود پوچھ لیں، یہ صرف اندرونی اور بیرونی عوامل کو میڈیا پہ زیربحث لانے کا معاملہ نہیں ہے، حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ عام آدمی کو ریلیف دیں، پالیسی ہی ایسی بنائیں، اس سے پہلے آنے والی حکومتیں ناکام تھیں یا کامیاب۔ لیکن اتنا بوجھ براہ راست لوگوں پر کبھی نہیں ڈالا گیا۔ حکومت کے سارے دعوے بے بنیاد ہیں، ہم ہر سال 20 فیصد آمدن بڑھا رہے تھے، اب اس میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا، رکا ہوا ہے۔ انہوں نے تو ترقیاتی منصوبے ہی کاٹ دیئے ہیں، صوبوں کا حصہ نہیں دیا جا رہا، جن سے صحت اور تعلیم کا کام آگے بڑھنا ہوتا ہے، انہوں نے گیارہ بلین ڈالر کی بات کی کہ ہمیں سعودیہ اور دوسرے ممالک سے ملے ہیں، یہ گیارہ ارب ڈالر لوگوں پر خرچ ہونے کی بجائے کہاں چلے گئے ہیں، حکومت کو اسکا جواب دینا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان اور دو بڑی جماعتوں کے لیڈر اگر اکٹھے ہو جاتے ہیں تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ معاشی دباو میں کمی آئیگی یا صرف سیاست کا نیا دروازہ کھلے گا۔؟
چوہدری منظور احمد:
ان جماعتوں کا اکٹھے ہو کر احتجاج کرنا تو دور کی بات ہے، یہ حکومت تو صرف آدھے گھنٹے کا احتجاج برداشت نہیں کرسکی اور مولانا کے ملین مارچ کو تو بلیک آوٹ کیا ہوا ہے۔ یہ آمرانہ ذہنیت کی عکاسی ہے، احتجاج کرنیوالوں کے احتجاج سے یہ پالیسیاں بہتر نہیں کرینگے۔ ملک میں قیامت کا منظر ہے، یہ این جی او ٹائپ حکومت کہہ رہی ہے کہ بس میٹھی باتیں کرو اور سکون سے رہو، جو حال انہوں نے لوگوں کا کر دیا ہے، اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، ہر آدمی احتجاج کر رہا ہے، لیکن اسکی آواز کوئی سننے والا نہیں ہے۔ اس میں تو کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ لوگ اب ان سے مکمل طور پر تنگ ہیں۔ یہ بڑی سادہ سی بات ہے، معاشی تجزیئے اور تبصرے اپنی جگہ، لیکن ہر سیاسی کارکن جانتا ہے کہ ملک میں اگر سیاسی استحکام نہیں تو معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے سیاسی بحران میں ملک کو مبتلا کیا ہوا ہے، حکومتی ترجمان اور وزیر آئے دن اپنی گفتگو سے آگ لگا رہے ہیں، لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں، انکا مطمع نظر شاید یہی ہے کہ لوگ چیختے رہیں اور یہ حکومت کرتے رہیں، لیکن یہ زیادہ چلنے والا نہیں ہے۔ اندر ہی اندر لوگوں میں نفرت کا لاوہ پک رہا ہے، جو اس حکمران اشرافیہ کو لے ڈوبے گا۔ عنقریب لوگ ان سے حساب لیں گے کہ پاکستان کے شہری اینگرو کے بوائلر نہیں بلکہ انسان ہیں، یہ غیر سیاسی اور ٹیکنوکریٹ اشرافیہ مسلط ہوگئی ہے، جو ملک کو کمپنی اور شہریوں کو عام ملازم سمجھ کر غیر متوازن فیصلے کر رہی ہے۔ لوگ تو انکے خلاف زبردست احتجاج کر رہے ہیں، عمران خان کہتا تھا کہ لوگوں کو حکومت پر اعتماد نہیں، اس لیے ٹیکس نہیں دیتے، اب تو بالکل ٹیکس نہیں دے رہے، یہی ایک بالواسطہ احتجاج ہے۔ اسی لیے انہوں ایمنسٹی اسکیم کو چوروں کی اسکیم کہا، اب اسکا بھی اعلان کیا ہے، لیکن ٹیکس دینے نہیں دے رہے، یہ سب سے بڑا عدم اعتماد ہے، ہم بھی لوگوں کو آواز میں آواز ملا رہے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 787829
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش