0
Tuesday 30 Apr 2019 19:37
وزیراعظم کا دورہ ایران موجودہ صورتحال میں بہت اہمیت کا حامل ہے

کابینہ میں تبدیلی کارکردگی کی بنیاد پر ہوتی تو پہلے پرویز خٹک کو عہدے سے ہٹایا جاتا، سردار حسین بابک

اپوزیشن جماعتیں کے پی اسمبلی کو نہیں چلنے دینگی، اب یہاں حقوق کی جنگ لڑی جائیگی
کابینہ میں تبدیلی کارکردگی کی بنیاد پر ہوتی تو پہلے پرویز خٹک کو عہدے سے ہٹایا جاتا، سردار حسین بابک
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک کا تعلق بونیر کے ایک سیاسی خاندان سے ہے اور سیاسی بصارت انہیں وراثت میں ملی ہے۔ انہوں نے بی ایس سی پشاور کے اسلامیہ کالج سے کی اور اس کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جرنل ازم کی ڈگری حاصل کی۔ سردار حسین بابک معروف انگریزی اخبار دی نیشن اور بین الاقوامی اداروں میں بھی صحافت کر چکے ہیں جس کی وجہ سے انہیں صحافتی تجربہ بھی حاصل ہے۔ 2008ء سے 2013ء تک خیبر پختونخوا اسمبلی میں وزیر تعلیم بھی رہ چکے ہیں۔ 2013ء سے 2018ء کے انتخابات میں بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور 2018ء کے گذشتہ انتخابات میں بھی بونیر کے حلقے پی کے 22 سے کامیاب قرار پائے۔ بابک کا شمار خیبر پختونخوا کی منجھی ہوئی سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے سے ان سے خصوصی گفتگو کی جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا کی اپوزیشن جماعتوں نے تمام قائمہ کمیٹیوں کی ممبر شپ سے استعفٰی دیا اسکی وجوہات کیا تھیں؟
سردار حسین بابک:
تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی روئے سے تنگ آکر اتفاق اور رائے سے استعفے حکومت کو پیش کئے ہیں۔ تمام قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ اور ممبر شپ سمیت ضلعی ترقیاتی مشاورتی کمیٹیوں (ڈیڈک) سے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ہمیں عوامی مینڈیٹ حاصل ہے، حکومت کی جانب سے اپوزیشن ارکان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ترقیاتی فنڈز نہ دینے اور نظرانداز کرنے پر ہم نے تمام کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ہم نے حکومت پر واضح کردیا ہے کہ اب اپوزیشن جماعتیں اسمبلی کو نہیں چلنے دیں گی۔ اسمبلی کے اندر حقوق کی جنگ لڑی جائے گی۔ خیبر پختونخوا کی قائمہ کمیٹیوں اور ضلعی ترقیاتی مشاورتی کمیٹی سے اپوزیشن کے مستعفی ہونے سے کمیٹیوں کی اہمیت ختم ہو کر رہ گئی ہے، ہم نے بڑا اور بروقت اقدام اٹھایا ہے۔ وزیراعلٰی نے اسمبلی فلور پر ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ حکومتی ارکان اسمبلی کو جو ترقیاتی فنڈز ملیں گے وہی فنڈز اپوزیشن ارکان کو بھی ملیں گے، تاہم وزیراعلٰی نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد کم ہے تاہم اس میں سینئر اور تجربہ کار ارکان کی تعداد زیادہ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں ایسے ارکان موجود ہیں جو سابقہ ادوار میں وزراء اور ارکان اسمبلی رہ چکے ہیں لہٰذا ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش انہیں مہنگی پڑے گی۔

اسلام ٹائمز: حکومت کا کہنا ہے کہ معیشت بہتر ہورہی ہے آپ کی اس حوالے سے کیا رائے ہے؟
سردار حسین بابک:
آپ میری رائے چھوڑیں اسٹیٹ بینک کی رپورٹ دیکھ لیں جس کے مطابق مارچ 2019ء کے دوران پاکستان کی آمدن و اخراجات کے خسارے میں ماہ فروری کے مقابلے 196 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مارچ کے دوران ملکی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ فروری کے 27 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے مقابلے 82 کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہا۔ درآمدات کو محدود کرنے کے باعث معمولی طور پر رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران کرنٹ اکاونٹ خسارے میں 29 فیصد کمی آئی ہے۔ تحریک انصاف دور حکومت میں اقتصادی فیصلہ سازوں کی توجہ 3 امور پرمرکوز دکھائی دیتی ہے، ٹیکس وصولی میں اضافہ اور جاری اخراجات و درآمدات میں کمی لائی جائے اور یہ تینوں اہداف خاطر خواہ حاصل نہیں کئے جاسکے۔ عالمی سطح پر اقتصادی کامیابی حاصل کرنے کیلئے قومی آمدنی بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں اس کے برعکس کوشش کی گئی اور ابھی کچھ حاصل بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک نازک مرحلے پر اقتصادی ٹیم میں تبدیلی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ میں ردوبدل کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جارہا تھا لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ اقدام سالانہ بجٹ سے صرف ایک ماہ قبل اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مذاکرات کے بیچوں بیچ کردیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: اسد عمر کی تبدیلی جماعت کے اندر کھیچا تانی کا نتیجہ ہے یا صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا؟
سردار حسین بابک:
اگر یہ فیصلہ کارکردگی کی بنیاد پر ہوتا تو سب سے پہلے ہمارے صوبے کے سابق وزیراعلٰی (وزیر دفاع پرویز خٹک) کو عہدے سے ہٹایا جاتا۔ اسد عمر اپنے کام میں اس قدر مگن تھے کہ انہیں عمران خان کی جی حضوری اور قربت کا خیال ہی نہیں رہا اور یہی ان سے ذمہ داریاں واپس لینے کی وجہ بنی ہے۔ تنظیمی لحاظ سے تحریک انصاف کے مختلف دھڑوں میں جاری کشمکش کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، جہاں تک اسد عمر کی کارکردگی کا تعلق ہے تو سب کو علم تھا کہ تحریک کی حکومت کو جو معیشت ورثے میں ملی اس کو 9 ماہ کے قلیل عرصے میں بحران سے نکالنا ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ کابینہ میں پہلا اور غیر متوقع رد و بدل ضرورت سے زیادہ سیاسی مصلحت کا نتیجہ دکھائی دے رہا ہے۔ تبدیلی کا یہ سلسلہ آنے والے دنوں میں پنجاب اور خیبر پختونخوا تک وسیع ہوسکتا ہے۔ وزیراعلٰی عثمان بزدار کی اہلیت صلاحیت اور کارکردگی پر خود تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کے تحفظات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اسد عمر کی اب تک کی کارکردگی میں کوئی بنیادی خرابی دکھائی نہیں دیتی۔ اقتصادی حقائق نہ تو راتوں رات تبدیل ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی وجہ سے راتوں رات بہتری آسکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں جہانگیر ترین کے بعد اسد عمر کا وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونا تحریک انصاف کے کارکنوں کیلئے بھی نفسیاتی دھجکا ہے، جن کیلئے تحریک ایک ٹیم کا نام ہے اور ٹیم کے بنیادی کھلاڑیوں میں اسد عمر کا شمار کیا جاتا رہا ہے۔ عمران خان نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایک غیر روایتی سیاستدان ہیں اور کٹھن فیصلے کرنے سے نہیں گھبراتے۔ کیا کسی ٹیم کا کپتان صرف کامیابی کی صورت میں مبارکبادیں وصول کرتا ہے یا اسے خراب کارکردگی کیلئے بھی ذمہ دار ٹہرایا جانا چاہیئے؟ مشکل فیصلہ لے کر عمران نے اپنی قائدانہ صلاحیت تو ثابت کردی لیکن اصل چیلنج آنے والے دنوں میں معیشت کو بہتر کرنے کا ہے جس سے توجہ ہٹائی جارہی ہے۔ اسد عمر کو تبدیل کرکے عمران خان مشکل سے نکلے نہیں بلکہ انہوں نے خود کیلئے زیادہ بڑی مشکل اور امتحان کا انتخاب کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کی مشکلات اپنی جگہ ہیں، لیکن ان تبدیلیوں سے عوام کو کیا ریلیف ملے گا؟
سردار حسین بابک:
دیکھیں عوام کو ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا، کیونکہ حکومت اسوقت ایسی پوزیشن میں کھڑی ہے کہ اپنے آپ کو بھی نہیں سمبھال پا رہی۔ جب کوئی نااہل لوگوں کی جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو لوگوں کے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے ہیں۔ تحریک انصاف کیلئے اگست 2018ء سے اپریل 2019ء کے عرصے میں کامیابیوں کا شمار اور ناکامیوں کا اعتراف دونوں اموری امتحان در امتحان اور آزمائش در آزمائش ہیں۔ عمران خان نے سوچا تھا کہ اسد عمر آئے گا اور سارے مسائل حل ہوجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت عوام سے کئے گئے وعدے نبھانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ چیزیں سستی کرنے کے بجائے یہ قیمتیں یہیں روک کر دکھا دیں تو ہم سمجھیں گے تبدیلی آگئی ہے۔ پھر بات وہیں چل پڑتی ہے کہ عوامی مسائل کا حل جمہوریت میں ہے اور ملک پر مسلط غیر منتخب حکومت سہاروں کی بنیاد پر جمہوریت سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ عوامی مسئلوں کا حل جمہوریت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، عوام جمہوری اداروں کی مضبوطی اور جمہوری نظام پر یقین رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے گذشتہ انتخابات میں عوام کی حقیقی نمائندگی پر ڈاکہ ڈال کر غیر منتخب افراد کو اقتدار پر لایا گیا جنہوں نے اپنی غیر سنجیدگی کے باعث عوام کے مسائل میں کمی کی بجائے بے پناہ اضافہ کردیا۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ٹیکسوں کی بھر مار اور بے روزگاری نے عوام کو خودکشی پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسے افراد حکومتی امور چلانے کے اہل نہیں۔ تبدیلی کے نام پر بننے والی حکومت سے عوام متنفر ہوچکی ہے۔

وزیراعظم کے دورہ ایران کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
سردار حسین بابک:
دیکھیں سب سے پہلی بات تو میں یہ کہوں گا کہ پڑوسی ملک کا دورہ کرنے میں دیر کی گئی، وزیراعظم کو چاہیئے تھا بہت پہلے ہی ایران کا دورہ کرتے تاکہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط ہوتے۔ کوئی بھی ملک ہو وہ ہمیشہ پہلے اپنے ہمسایہ ممالک کے دورے کرتا ہے تاکہ ان سے معاملات اچھے رہیں۔ لیکن یہاں ہمارے ملک کا نظام ہی اُلٹا ہے۔ وزیراعظم کا دورہ ایران موجودہ صورتحال میں بہت اہمیت کا حامل ہے، اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پاکستان سب کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے اور برادر اسلامی ممالک کے ساتھ کسی قسم کا فرق نہیں رکھتا۔ ایران کا دورہ دیر سے کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ عمران خان کو اقتدار میں لائے انہوں نے سوچا کہ لاڈلے کو پہلے ترقی یافتہ ممالک کا دورہ کرایا جائے تاکہ ڈالروں کی برسات ہو لیکن ہم نے دیکھا کہ وہ رسپانس نہیں مل سکا جس کی توقع کی جارہی تھی، پھر حکومت آئی ایم ایف کی طرح جانے کیلئے راضی ہوئی۔ پاک ایران تعلقات سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان جو غلط فہمیاں تھی وہ بھی ختم ہوگئی ہیں، دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ اس سے خطے کے اندر بدامنی کی پھیلتی ہوئی فضاء کو قابو کیا جاسکے گا۔
خبر کا کوڈ : 790042
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش