0
Monday 22 Apr 2019 23:30
شاہ محمود قریشی کی ایسے نازک موقع پر پریس کانفرنس غیر ضروری تھی

بعض قوتیں پاک، ایران تعلقات برداشت نہیں کرسکتیں، ہم پڑوسیوں سے لڑتے رہے تو تنہا ہوجائینگے، ناصر حسین

دہشتگردی کے ذریعے دونوں برادر اسلامی ممالک کے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
بعض قوتیں پاک، ایران تعلقات برداشت نہیں کرسکتیں، ہم پڑوسیوں سے لڑتے رہے تو تنہا ہوجائینگے، ناصر حسین
جناب ناصر حسین کا بنیادی تعلق پشاور سے ہے،انکا شمار سینیئر صحافیوں اور تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ متعدد بار پشاور پریس کلب کے صدر اور یونین آف جرنلسٹس کے کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ جناب ناصر حسین ملکی و بین الاقوامی حالات پر کافی گہری اور مستند نظر رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ملنسار طبعیت کے مالک جناب ناصر حسین کیساتھ مختلف ملکی اور بین الاقوامی امور پر ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ
 
اسلام ٹائمز: حکومتی کیمپ میں حالیہ اکھاڑ پچھاڑ کیا حکومتی ناکامی کا اعتراف سمجھا جائے یا نااہلوں کی چھٹی۔؟
ناصر حسین: دیکھیں، اسے میں ذاتی طور پر حکومت کی ناکامی سے زیادہ غلطیوں کا اعتراف سمحجھتا ہوں، عمران خان صاحب پہلی مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے ہیں، ان سمیت انکی ٹیم کے زیادہ تر لوگ بھی نئے ہیں، ہم ہرگز یہ توقع نہیں کرسکتے کہ تھوڑے ہی عرصے میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، ہاں یہ ضرور ہے کہ عمران خان نے قوم کو کچھ زیادہ ہی امیدیں دلا دی تھیں۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ موج ہے دریا میں، بیرون دریا کچھ نہیں۔ اب خان صاحب کو دریا میں کود کر موجوں کا پتہ چلا ہے۔ خان صاحب کے کچھ فیصلے بھی غلط ہوسکتے ہیں لیکن عوام کو توقعات کچھ زیادہ تھیں کہ شائد دو ماہ میں سب کچھ ٹھیک ہو جائیگا، نہ ایسا ہوا اور نہ ہوسکتا ہے، لہذا یہ حالیہ تبدیلیاں غلطیوں کا ازالہ ہوسکتی ہیں۔ یہ بہتر ہے کہ جو پرفارم نہیں کر پا رہا اسے ہٹا دیا جائے یا تبدیل کر دیا جائے۔
 
اسلام ٹائمز: کہیں اپوزیشن احتساب سے توجہ ہٹانے کیلئے تو حکومت پر دباو نہیں بڑھا رہی۔؟
ناصر حسین: ایسا ہو رہا ہے، اپوزیشن کی وہ جماعتیں جن کی قیادت کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے، انہیں تو پریشانی لاحق ہے، انہوں نے تو حکومت کو پریشر میں لیکر آنا ہے، اگر انہوں نے حکومت کو فری ہینڈ دے دیا تو ان کا معاملہ خراب ہو جائے گا۔ اپوزیشن کی سر توڑ کوشش ہے کہ حکومت کو الجھائے رکھا جائے۔
 
اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کی کمر توڑنے کے دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن کوئٹہ میں پے در پے دو بڑے واقعات نے ان دعووں کو تو غلط ثابت کر دیا۔؟
ناصر حسین: اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ تاہم واقعی کوئٹہ میں آگے پیچھے ہونے والے ان دو واقعات نے قوم کو افسردہ کر دیا ہے۔ اس وقت بھارت کی بھرپور کوشش ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کئے رکھے۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کا قتل عام واقعی افسوسناک ہے، دشمن کی کوشش ہے کہ یہاں افراتفری ہو۔
 
اسلام ٹائمز: 14 اہلکاروں کی شہادت کے بعد شاہ محمود قریشی کیجانب سے برادر اسلامی ملک پر الزامات کیا جلد بازی نہیں تھی۔؟
ناصر حسین: شاہ صاحب نے واقعی غیر ضروری طور پر ایسی باتیں کیں، یہ بہت نازک مرحلہ تھا، ہمارے وزیراعظم کا دورہ ایران تیار تھا، ایسے میں ایک ایسے ملک کیخلاف بیان دینا جو دہشتگردی کیخلاف خود لڑ رہا ہو، جس کے بارے میں ہماری فوج کے ترجمان بھی یہ کہہ چکے ہوں کہ ہم ایران کو بھارت یا کسی دوسرے دشمن ملک کیطرح نہیں دیکھتے بلکہ ایران ہمارا برادر ملک ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاہ محمود قریشی جیسے سینیئر سیاستدان اور پارلمنٹیرین سے ہم یہ توقع نہیں کرسکتے تھے۔
 
اسلام ٹائمز: کیا یہ واقعہ باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ تو نہیں تھا کہ عمران خان کے دورہ ایران پر یہ اثرانداز ہو۔؟
ناصر حسین: دیکھیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض قوتیں پاک، ایران تعلقات برداشت نہیں کرسکتیں، انہیں معلوم ہے کہ ایران اور پاکستان امت مسلمہ کے دو اہم ممالک ہیں، لہذا ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ تعلقات کو ڈسٹرب رکھا جائے اور جب کبھی دونوں طرف سے کوئی اہم دورہ ہو تو حالات کو خراب کیا جائے۔
 
اسلام ٹائمز: یہاں تو شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس سے لگ رہا تھا کہ ہم خود حالات خراب کرنا چاہ رہے ہیں۔؟
ناصر حسین: میں نے عرض کیا کہ یہ واقعی غیر ضروری تھا، ہم ایسی غلطیوں کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔ پڑوسیوں سے لڑتے رہے تو تنہا ہو جائینگے، دہشتگردی کے ذریعے دونوں برادر اسلامی ممالک کے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں چیزوں کو بہتر کرنا چاہیئے، نہ کہ خراب۔
 
اسلام ٹائمز: عمران خان کے دورہ ایران کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔؟
ناصر حسین: یہ دورہ بہت اہمیت کا حامل ہے، کچھ ایسے حالات بن گئے تھے کہ اس قسم کا دورہ بہت ضروری تھا، میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب کیساتھ ساتھ ایران کیساتھ بھی ہمارے اچھے اور برادرانہ تعلقات ہونے چاہئیں۔ اسی طرح افغانستان، ترکی اور ملائشیا وغیرہ سے بھی ہمارے اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔ اگر مسلم ممالک میں اچھی کوآرڈینیشن ہوگی تو اغیار ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ عمران خان کے دورہ کے یقیناٌ مثبت اثرات ہوں گے اور ہمیں تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، بارڈر کے معاملات کو بہتر کرنا چاہیئے، تاکہ دہشتگردی جس کا سامنا دونوں ممالک کو ہے، کا سدباب کیا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 790087
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش