2
0
Friday 17 Jun 2011 20:23

میں گھر سے ہی کلمہ پڑھ کر اس عہد کے ساتھ نکلا تھا کہ مر جاوں گا یا پھر ماونٹ ایورسٹ سر کرکے کامیاب لوٹوں گا، حسن سدپارہ

میں گھر سے ہی کلمہ پڑھ کر اس عہد کے ساتھ نکلا تھا کہ مر جاوں گا یا پھر ماونٹ ایورسٹ سر کرکے کامیاب لوٹوں گا، حسن سدپارہ
فاتح ماونٹ ایورسٹ حسن سدپارہ 1963ء میں سکردو شہر سے 9 کلو میٹر دور واقع خوبصورت گاوں سدپارہ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُنہیں بچپن سے ہی بلندیوں کو سرنگوں کرنے کا شوق تھا اور اسی شوق کی وجہ سے اُنہوں نے گاوں کے نواحی پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرنا شروع کر دیا اور یہی شوق 1994ء میں ہائی پورٹر کے حیثیت سے کوہ پیما ٹیم کے ساتھ نانگا پربت لے گیا اور اسکے بعد اُنہوں نے باقاعدہ کوہ پیمائی کا آغاز کیا۔ 48 سالہ کوہ پیما کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ دُنیا کی بلند ترین چوٹی ماونٹ ایورسٹ کو بغیر آکسیجن سلینڈر کے سر کرنے کے بعد وہ پہلے پاکستانی کوہ پیما ہیں جس نے 8 ہزار میٹر سے بلند 6 چوٹیاں سر کی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اُن کے اس منفرد اعزاز اور گلگت بلتستان میں موجود کوہ پیماوں کو حاصل سہولیات کے حوالے سے انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ
 
اسلام ٹائمز: حسن سدپارہ صاحب سب سے پہلے تو ہم آپکو پوری قوم اور ملت کی جانب سے مبارک باد پیش کرتے ہیں، آپ بتائیے کہ آپ کہاں پیدا ہوئے اور آپکا بچپن کیسا گزرا۔؟
حسن سدپارہ:میں اسلام ٹائمز کا شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور میری حوصلہ افزائی کی۔ میں سکردو کے نواحی گاوں سدپارہ میں پیدا ہوا اور عام بچوں کی طرح گاوں میں پلا بڑھا ہوں۔ گاوں میں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکا اور گاوں کے روایتی انداز میں میرا بچپن گزرا۔
اسلام ٹائمز:آپ کوہ پیمائی کی طرف کیسے راغب ہوئے۔؟
حسن سدپارہ: بچپن سے ہی فطرتاً سخت جان تھا اور مجھے پہاڑوں پر چڑھنے کا بہت شوق تھا اور میرے شوق کو تقویت کچھ اس طرح ملی کہ میرے والد محترم اور چچا دونوں صف اول کے کوہ پیما تھے جن کو 1960ء کی دھائی میں کوہ پمائی کے لئے سکردو آنے والے جرمن اکسپیڈیشن نے مہم جوی کے دوران بہادری دکھانے پر تانبے کا میڈل انعام میں دیا تھا جس پر "بلتی ٹائیگر" کندہ ہے اور میرے گھر میں ہمیشہ پہاڑوں پر مہم جوئی کا ذکر ہوتا رہتا تھا اور اسی ماحول کی وجہ سے میں کوہ پیمائی کی طرف راغب ہو گیا۔
اسلام ٹائمز:کوہ پیمائی نہایت ہی خطرناک فن ہے۔ آپ نے کوہ پیمائی کی باقاعدہ تربیت کہاں سے لی۔؟
حسن سدپارہ: کوہ پیمائی میرے خون میں رچی بسی ہے لیکن گلگت بلتستان اور پورے ملک میں کوئی ایسا باقاعدہ تربیتی ادارہ نہیں جہاں سے تربیت حاصل کی جاسکے، البتہ اپنے والد محترم، چچا اور گاوں کے سینئر کوہ پیماوں سے تربیت لی اور غیرملکی کوہ پیماوں کے ساتھ مہم جوئی کے دوران ہی جدید آلات کے استعمال کا طریقہ سیکھا۔
اسلام ٹائمز:حسن صاحب آپ اپنے ابتدائی کوہ پیمائی کے کچھ تجربات کے بارے میں بتائیے گا۔؟
حسن سدپارہ:میں نے ویسے تو 7 ہزار میٹر سے کم بلند چوٹیاں 20 سال کی عمر ہی میں سر کر لی تھی، لیکن 2 جولائی 1999ء میں پہلی بار نانگا پربت سر کیا جو کہ سب سے مشکل اور خطرناک مہم تھی۔ اس پہاڑ پر سب سے زیادہ کوہ پیما ہلاک ہوئے ہیں اس لئے اسے قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد 27 جولائی 2004ء میں دُنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی "کے ٹو" سر کی، پھر 22 جولائی 2006 کو 8035 میٹر بلند "رگشہ بروم 2،" اور اُسی ہفتے 29 جولائی 2006ء کو 8068 میٹر بلند "رگشہ بروم" سر کر لی۔ اس کے بعد میں نے 2007ء میں 8047 میٹر بلند چوٹی "براٹ پیک" سر کر لی، اللہ تعالی کے فضل و کرم اور پنجتن پاک علیہ السلام کے نام سے تمام پہاڑ بغیر آکسیجن کے کم سے کم وقت میں سر کئے ہیں۔
اسلام ٹائمز:کوہ پیمائی کے دوران آپکو کیسے خطرات سے واسطہ پڑتا ہے۔؟ 
حسن سدپارہ:اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دُنیا کا خطرناک ترین شوق ہے اور دُنیا کے تمام مقابلوں کی نسبت سب سے زیادہ کوہ پیما ہی ہلاک ہوئے ہیں کیونکہ اس مقابلے میں آپکا حریف بہت خطرناک ہے جو آپکی چھوٹی سی غلطی کو بھی معاف نہیں کرتا ہے، ہمارے مقابل سنگلاخ پہاڑ ہیں، بلندی ہے، برف ہے، تیز و تن برفانی ہوائیں، کم آکسیجن، برفانی تودے اور گلیشائی شگاف ہیں، یہ وہ قدرتی حریف ہے جو ہر لمحے آپکی غلطی کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور اس کھیل کا اختتام جیت اور ہار پر نہیں بلکہ زندگی اور موت پر ہوتا ہے جو جیت جاتا ہے وہ زندہ واپس لوٹنے میں کامیاب ہوتا ہے اور جو ہار جاتا ہے وہ پہاڑوں ہی میں دفن ہو جاتا ہے۔
اسلام ٹائمز:جب آپ دُنیا کی بلند ترین چوٹی ماونٹ ایورسٹ سر کر رہے تھے تو کیسے موسمی حالات تھے اور کیا محسوس کر رہے تھے۔؟
حسن سدپارہ: ماونٹ ایورسٹ سر کرنے کی مہم کے دوران جب ہم کیمپ 3 پہنچے تو اچانک موسم خراب ہو گیا، میرے ساتھی کیمپ 3 میں رہے اور میں کیمپ 4 اس اُمید کے ساتھ چلا گیا کہ موسم صاف ہو جائے گا لیکن 7300میٹر بلند کیمپ 4 پہنچا تو موسم اور بھی زیادہ خراب ہو گیا، اس دوران ایک جاپانی کوہ پیما وہی پر جان سے ہاتھ دو بیٹھا، اس لئے مجھے واپس کیمپ 3 آنا پڑا اور وہاں میرے ساتھیوں نے مجھے اپنی مہم منسوخ کرنے کو کہا، لیکن میرے لئے یہ آخری موقع تھا اور میں اپنی قوم کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا اور میں گھر سے ہی کلمہ پڑھ کر اس عہد کے ساتھ نکلا تھا کہ یا میں مر جاوں گا یا پھر کامیاب لوٹوں گا۔ اگلے روز موسم صاف ہونے کا انتظار کئے بغیر مہم جوئی شروع کی اور اس دوران تیز ہواوں نے مجھے کئی دفعہ اپنی جگہ سے اُٹھا کر دور پھینکا لیکن رسی کی مدد سے خود کو سنبھالتا رہا اور نعرہ حیدری کے ساتھ ایک نئے جذبے اور جنون کے ساتھ آگے بڑھتا رہا پھر 12 مئی کی صبح تقریباً اذان کے وقت دُنیا کی بلند ترین چوٹی کو سرنگوں کرنے میں کامیاب ہو گیا اور میں نے دنیا کی بلند ترین مقام پر نعرہ حیدری کے فلگ شگاف نعرے لگائے اور سجدے میں گر گیا، دو رکعت شکرانے کی نماز ادا کرنے کے بعد میں نے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم برف کے سینے میں گاڑ دیا۔
اسلام ٹائمز:آپ کی اس مہم کے اخراجات کس نے برداشت کئے۔؟
حسن سدپارہ: کے ٹو سر کرنے کے بعد میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ میں نے ماونٹ ایورسٹ کو کسی صورت سر کرنا ہے لیکن میرے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ میں اس مہم جوئی کے اخراجات برداشت کرتا، تاہم 2009ء میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی حاصل کرنے کے دوران صدر مملکت آصف علی زرداری سے میری ملاقات ہوئی تھی اور میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری شدید خواہش ہے کہ دُنیا کے بلند ترین پہاڑ پر قومی پرچم نصب کروں، جس پر صدر مملکت نے اس مہم کے تمام تر اخراجات برداشت کر کے میری دلی تمنا پوری کی۔ جس پر میں اُن کا خصوصی طور پر مشکور ہوں اور ساتھ ہی میں پوری قوم کا بھی مشکور ہوں کہ جنہوں نے میری کامیابی کے لئے دُعائیں کیں۔
حسن سدپارہ:مستقبل میں آپکے کیا ارادے ہیں اور نئی نسل کے لئے آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔؟
حسن سدپارہ:ماونٹ ایورسٹ سر کرنے کے بعد میری خواہش ہے کہ دُنیا میں 8 ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیاں ہیں جن میں سے 6 چوٹیاں میں سر کر چکا ہوں تاہم 8 چوٹیاں باقی ہیں، جنہیں سر کرنے کا خواہش مند ہوں، اگر حکومت میری مدد کرتی ہے تو میں 3 سال کے مختصر عرصے میں دیگر 8 چوٹیوں کو سر کر کے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر سکتا ہوں۔ نوجوانوں کو میرا پیغام یہ ہے کہ کوہ پیمائی کے حوالے سے پوری دُنیا میں گلگت بلتستان کی ایک منفرد پہچان ہے اور اس شعبے میں ہمارے پاس نام کمانے کے ساتھ ساتھ روزگار کے بہت ذرائع موجود ہیں۔ نوجوان نسل کو چاہیئے کہ وہ تن آسانی کی بجائے کوہ پیمائی کی طرف توجہ دیں، تاکہ جسمانی طور پر آپ صحت مند اور مضبوط ہوں اور علاقے کی ترقی کے ساتھ باعزت زندگی بھی گزار سکیں۔
خبر کا کوڈ : 79449
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
es main hasan sadpara ka wo karna bi logon ko batayeen jis main unhon ne ALAM E GHAZI ABBASS a.s ko wahan par lagaya th
mashallah hassan bhai muala panjetan pak a.s ap ko aur tarakki dey aur baltistan k reporter ap ki bari mehrbani jo ap ney in ka interview lia islam time doing great job
ہماری پیشکش