0
Saturday 30 Nov 2019 20:32
بدلتے حالات پاکستان اور ایران پر ایک طرح سے اثرات ڈالتے ہیں

حکومت نے صبر و تحمل سے پاکستان کو عراق بنانے والوں کے عزائم خاک میں ملا دیئے ہیں، ندیم افضل چن

حکومت نے صبر و تحمل سے پاکستان کو عراق بنانے والوں کے عزائم خاک میں ملا دیئے ہیں، ندیم افضل چن
منڈی بہاوالدین سے تعلق رکھنے والے ندیم افضل چن 1975ء میں پیدا ہوئے، پنجاب یونیورسٹی سے قانون میں گریجویٹ ہیں، سابق رکن قومی اسمبلی، وزیراعظم کے ترجمان اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما ہیں۔ سیاسی پس منظر رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2008ء سے 2013ء تک پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین رہے، 2013ء کے قومی انتخابات میں سرگودہا سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 64 سے الیکشن میں حصہ لیا، اگرچہ کامیاب نہیں ہوئے، لیکن اس سے قبل رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں ہمیشہ نمایاں رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء اور وزیراعظم کے ترجمان کیساتھ آرمی چیف کی توسیع سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے، حکومت کے کردار، اپوزیشن کے ردعمل، پارلیمنٹ میں قانون سازی، مشرق وسطیٰ کے مخدوش حالات، امریکہ کی افغان پالیسی اور طلبہ یونین کی بحالی سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ (ن) کی ترجمان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ نیب چیئرمین نے کہا کہ ہواؤں کا رخ بدل چکا ہے، لیکن وہ تو پھر ہماری جانب ہی ہے، کیا احتسابی عمل بلاامتیاز نہیں ہو رہا۔؟
ندیم افضل چن:
یہ سراسر بے سر و پا واویلا ہے، نیب کیا اب تو ہر ادارہ، میڈیا سب ہی حکومت کا احستاب کر رہے ہیں بلکہ حساب لے رہے ہیں، لیکن ہر دفعہ یہ مافیا یہ سمجھتا ہے کہ اب ساری توجہ کہیں اور ہو جائے گی اور یہ اپنی کرپشن اور کرپٹ لیڈروں کو بچانے میں کامیاب ہو جائیںگے، اگر یہ شفافیت پہ مبنی سیاست اور حکمرانی کر رہے ہوتے تو ملک میں رہتے، آئے روز نئے سے نئے بہانے نہ بناتے۔ اگر چھوٹے میاں صاحب نے کوئی کرپشن نہیں کی تو انہیں باہر جانے کی کیا ضرورت تھی، ان کے ہاتھ صاف ہوتے تو پاکستان میں رہتے ہوئے عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرتے، فیصلوں کو دل سے تسلیم کرتے۔ یہ ہمیشہ سے اداروں کو نشانہ بناتے ہیں، یا خرید لیتے ہیں، اب چیئرمین نیب نے جس بھی سیاق و سباق میں بیان دیا ہے، اس کے جواب میں یہ کہنا کہ ہواؤں کا رخ مخصوص پارٹی یا لیڈرشپ کی جانب نہیں ہونا چاہیئے، یہ اداروں کو ڈکٹیٹ کرنیوالی بات ہے۔ ہمیں تو سپریم کورٹ نے تین دن میں جتنی بار غلط کہا، تسلیم کیا اور عدالت کیخلاف کوئی حرف تک کسی کی زبان پہ نہیں آیا۔ ان کے پاس طعنے دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔

اسلام ٹائمز: آرمی چیف کی توسیع کیلئے جاری کی گئی سمریوں میں غلطی تو حکومت نے کی، اسکا اپوزیشن سے کیا تعلق؟، کیا موجودہ حکومت بھی کسی مافیا کے رحم و کرم پہ چل رہی ہے۔؟
ندیم افضل چن:
عدلیہ کو مضبوط کرینگے، اداروں کے درمیان ہم آہنگی اس وجہ سے ہے کہ اس سے پہلے حکومت میں رہتے ہوئے اور حکومت سے باہر رہ کر بھی پاکستان کو مافیا کے انداز میں کنٹرول کرنیکی کوشش کی گئی، جنرل مشرف کو جس انداز میں ہٹایا گیا، جنرل محی الدین کو جس انداز میں چیف بنانے کی کوشش کی گئی، اس کا نتیجہ کیا نکلا، کون کہتا ہے کہ مسلح افواج کیخلاف ایک شب خون نہیں تھا، انہوں نے پاک فوج کو پنجاب پولیس بنانے کی کوشش کی۔ یہی سازشیں بھارت کرتا ہے، پاکستان کے بیرونی دشمن کرتے ہیں کہ پاکستان کے ادارے آپس میں ہم آہنگ نہ ہوں بلکہ کمزور ہوتے جائیں، پھر کسی بھی ملک کی فوج اس کی سالمیت اور بقاء کی ضامن ہوتی ہے۔ اگر کوئی سازش حکومت کر رہی ہوتی تو سپریم کورٹ بھی اس کی نشاندہی کرتی اور مسلح افواج کے چیف کابینہ کیساتھ مشاورت کیلئے آنے کی بجائے 1999ء کی تاریخ دہرا سکتے تھے۔

اس لیے وزیراعظم نے بجا طور پر اندرونی اور بیرونی سازشوں کی ناکامی کا ذکر کیا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ جب تک پورے تین دن یہ سماعت جاری رہی ہے، اپوزیشن کو سکتہ طاری رہا ہے، یہ اس انتظار میں کیوں تھے کہ فوج اور عدلیہ یا عدلیہ اور حکومت کے درمیان چپقلش پیدا ہو، یہ جمہوریت خطرے میں پڑ جائے۔ حکومت عوامی نمائندہ اور جمہوری حکومت ہے، اس کی تائید فوج اور عدلیہ نے بھی کر دی ہے، حکومت میں کسی مافیا کی گنجائش نہیں، عمران خان نے نہ صرف عدلیہ اور فوج سمیت اداروں کو تباہ کرکے حکومتی مشینری کو اپنے مفادات کے تابع بنانے والے مافیا کو شکست دی ہے بلکہ پاکستان کو ان سے نجات دیکر ملک بچایا ہے، اسی لیے یہ سب یا تو جیلوں میں ہیں یا ملک سے باہر بھاگ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آرمی چیف کی ملازمت کی مدت میں توسیع کے متعلق ابہام تو سپریم کورٹ نے دور کر دیا، کیا حکومت اپوزیشن کے بغیر اس حولے سے قانون سازی میں کامیاب ہو جائیگی۔؟
ندیم افضل چن:
ہاں یہ اچھا ہے، کیونکہ اس سے قبل اس پہ کوئی اعتراض نہیں ہوا، سپریم کورٹ کے ججز نے نہایت بردباری اور کمال فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے کہا ہے۔ اگلا مرحلہ بھی آسانی سے طے ہو جائیگا۔ اس سے پہلے بھی حکومت کی کوئی سمری رد نہیں ہوئی، نہ ہی حکومت نے سپریم کورٹ سے کسی قسم کا کوئی تعارض کیا ہے۔ یہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنیکی سازش تھی، جس کا ثبوت بھارت میں اس پر ہونیوالی مخصوص انداز کی بحث تھی، اس پر اپوزیشن نے تو کمنٹس نہیں دیئے، حالانکہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا، لیکن ہمیں امید ہے کہ حکومت اپنا کام کریگی اور باقی سیاسی جماعتیں بھی اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرینگی، یہ ملک اور قومی سلامتی اور استحکام کا معاملہ میں سب کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا پڑیگا۔ فوج ملک کا ادارہ ہے، عدلیہ نے جس کے چیف کیلئے قانون سازی کا حکم دیا ہے۔ چھ ماہ کا وقت کافی ہے، اس میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ عدالت نے پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک جو ایک خلاء تھا، جو پہلے کبھی اس طرح نمایاں نہیں ہوا، نہ زیربحث آیا۔

یہ ٹھیک ہے کہ اس سے پہلے فوجی آمریت مسلط رہی اور اس کے سیاسی اور قومی مضمرات پر بحث اور تنقید بھی ہوتی رہی، ہم بھی اس کے خلاف ہیں، لیکن اب سپریم کورٹ نے ایک قانونی سقم کو ختم کرنے اور خلاء پر کرنیکا موقع دیا ہے، یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے اور تمام سیاسی قوتوں کی ذمہ داری ہے، اس کو خوش اسلوبی سے مکمل کریں۔ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیئے کہ جس پٹیشنر نے جنرل باوجوہ کی توسیع کو چیلنج کیا ہے، اس نے جنرل کیانی کی توسیع کو بھی چیلنج کیا تھا، اس وقت سپریم کورٹ نے کوئی رہنمائی نہیں، اب یہ اچھا ہے کہ پارلیمنٹ کو اس پر قانون سازی کیلئے وقت دیا گیا ہے، ایک بحران کو ختم کرنیکا موقع بھی دیا گیا ہے، اس معاملے میں واضح قانون سازی ملک کے مستقبل کیلئے اور جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے بھی خوش آئند ثابت ہوگی۔ اگر اس میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے تو یہ ثابت ہو جائیگا کہ اپوزیشن ملکی مفاد کیخلاف استعمال ہونے والے حربوں میں مافیا کا ساتھ دے رہی ہے یا ان کا حصہ ہے۔ یہ کوئی سیاسی نہیں قومی اہمیت کا مسئلہ ہے، اس پہ کوئی سیاست نہیں ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ہر غلطی کیطرح یہ غلطی بھی حکومت نے تسلیم نہیں کی بلکہ اسے بھی ایک سازش قرار دیا ہے، ان حالات میں قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کیے بغیر پارلیمنٹ کو چلانا اور قانون سازی کس طرح ممکن ہوگی۔؟
ندیم افضل چن:
میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے سمری رد نہیں کی، ہماری حکومت کی جانب سے یہ پہلی توسیع دی گئی تھی، حسب روایت یہ پراسس مکمل ہوا، عدالت نے اس قانون کو دیکھا ہے، نہ کہ حکومت کی کارروائی کو غلط قرار دیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس عمل کیلئے کوئی باقاعدہ ضابطہ ہی موجود نہیں تھا، جس کی نشاندہی ہوگئی، حکومت کو کس طرح غلط، یا ناکام کہا جا سکتا ہے، اب ان لوگوں کو وہ دن یاد آ رہے ہونگے یا جب نامور قانونی ماہرین ان کے وزیاعظم کو سزا سے نہیں بچا سکے، یہ کوئی ایسا مقدمہ نہیں تھا، جو حکومت کی نااہلی یا نوزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان کو چیلنج  کیا گیا ہو، بلکہ یہ پاکستان کے قانون موجود ایک سقم تھا، جس کی طرف پہلے کوئی حکومت توجہ نہیں سے سکی۔

عمران خان نے تو پہلی دفعہ توسیع دی ہے، پہلی دفعہ یہ معاملہ پیش آیا، حل بھی ہو جائیگا۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے اختیار پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، سوال نہیں کیا، اس کی تصدیق کی ہے، اس طرح یہ توسیع درست قرار پائی ہے، بلکہ قانونی گھتی سلجھانے سے اس پر تصدیق کی مہر ثبت ہو جائیگی۔ معاملہ ایوان میں گیا ہے، جس سے پارلیمنٹ کی خود مختاری ثابت ہوئی ہے۔ عدلیہ پر کوئی دباؤ بھی نہیں ڈالا گیا، سب کچھ سیاسی اور قانونی دائرے کے اندر چل رہا ہے۔ ناکامی ڈھونڈنے والوں کو ناکامی ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس سے پہلے بھی چیف جسٹس کو وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہنا پڑا ہے کہ وہ قانون کی عملداری کے متعلق مغالطے کا شکار ہیں، پھر توسیع کے کیس میں بھی اپوزیشن کیطرف سے کوئی مخالفت نہیں ہوئی۔؟
ندیم افضل چن:
یہ تو ان کا طریقہ کار ہے، جب نواز شریف کو سزا دی گئی تو پورے ملک میں شور مچایا گیا کہ ہمیں کیوں نکالا، ہم ان ججز اور ان فیصلوں کو نہیں مانتے، شاہد خاقان عباسی نے بطور وزیراعظم کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے، ایسی کوئی بات عمران خان نے نہیں کی، بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کا سیاسی بیانیہ یہی ہے کہ کرپشن اور کرپٹ لیڈرز کسی قیمت پر قابل قبول نہیں ہیں۔ اسی طرح فوج اور آرمی چیف کی توسیع کے متعلق سوشل میڈیا پر بے پناہ شور مچایا گیا، صرف اس دفعہ انہیں پاکستان کی سڑکوں پر ریلیاں نکالنے اور شور مچانے کا موقع نہیں ملا۔ آزادی مارچ کے دھرنے میں کس کس طرح سے فوج اور فوج کی قیادت کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ آرمی چیف کی توسیع کے کیس کے دوران بھی اپوزیشن نے حکومت پر اس طرح تنقید کی کہ عدالت اس حکومت کو چلتا کرے، ورنہ فیصلہ درست نہیں ہوگا۔ یہ مولانا کو اربوں روپے خرچ کرکے اسلام آباد لائے تھے، اس کے باوجود اپنی سیاست خراب کر بیٹھے، عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔

جب فوج یہ کہہ رہی ہے کہ وہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کیساتھ ہیں، سپریم کورٹ نے حکومت پر اعتماد کرتے ہوئے قانون سازی کا حکم دیا ہے، اب جو اس کے باوجود حکومت کو گرانے نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ کیا چاہتے ہیں، وہ کس کی مخالفت کر رہے ہیں، کس سے من مانے مطالبات منوانے چاہتے ہیں، کیا پورے آزادی مارچ میں یہ نہیں کہا گیا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے اور وہ اس لیے ٹھیک نہیں ہوئے کہ فوج الیکشن میں موجود رہی، اس کا کیا مطلب ہے؟ اور کس طریقے سے فوج اور عدلیہ پر عدم اطمینان کا اظہار ہوتا ہے، یہ مکمل طور پر ناکام بھی ہوچکے ہیں اور بے نقاب بھی۔ انہوں نے مکمل طور پر عدلیہ اور فوج کیخلاف سیاست کی ہے، ایک واضح پوزیشن لی ہے۔ دراصل انہوں نے پیسہ خرچ کیا اور مولانا اور ان کے حواریوں نے ٹاک شوز میں، جلسوں میں اور تقریروں میں دل کھول کر فوج اور عدلیہ کیخلاف ہرزہ سرائی کی ہے۔ ہم نے اس کی کئی بار نشاندہی کی ہے کہ اپوزیشن درپردہ ریاستی اداروں کیخلاف تحریک چلا رہی ہے، یہ اب دم توڑ گئی ہے، حکومت نے صبر و تحمل سے اس سازش کو ناکام بنایا ہے۔

اسلام ٹائمز: خطے کی صورتحال گھمبیر تر ہو رہی ہے، آرمی چیف نے ایران کا دورہ بھی کیا ہے، آزادی مارچ اور پھر طلبہ یکجہتی مارچ، تیسری دنیا میں ہونیوالے جلاؤ گھیراؤ اور افراتفری کا حصہ ہیں۔؟ کیا حکومت اس طرف متوجہ ہے۔؟
ندیم افضل چن:
اس کے دو حصے ہیں، ایک کا تعلق پاکستان کے اندرونی حالات پر خطے کے حالات و واقعات کے اثرات سے ہے، دوسرا امریکہ اور ایران کیساتھ تعلقات سے۔ مشرق وسطیٰ کو عالمی طاقتوں کی مفاداتی جنگوں نے برباد کر دیا ہے، ان حالات کیوجہ سے ان ممالک کے عوام قحط زدہ علاقوں جیسی صورتحال سے دوچار ہیں، قومیں ان حالات اور مشکلات سے گزرتی رہی ہیں، پاکستان ایک خود مختار ملک ہے، یہاں حالات چاہے جتنے بھی سنگین رہے ہوں، کسی طاقت کو اپنی سازش رچانے میں کامیابی نہیں ملی، آئندہ بھی نہیں ملے گی۔ یہ ایک تاثر ہے کہ پاکستان میں ایسے حالات پیدا کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہاں ادارے مضبوط ہیں، دہشت گردی کیخلاف طویل جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو غیر مستحکم یا کمزور نہیں کیا جا سکا، صبر و تحمل سے حکومت اور ریاستی اداروں نے پاکستان کو عراق بنانے والوں کے عزائم خاک میں ملا دیئے ہیں۔

نہ ہی بلیک میلنگ کے ذریعے کسی دوست کیخلاف استعمال کیا جا سکا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف خود ان چیلنجز کا مقابلہ کیا ہے بلکہ خطے کے تمام ہمسائیوں اور بردار ممالک کی مدد بھی کی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے۔ امریکہ کے موجودہ صدر چاہتے ہیں کہ اگلے امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے وہ الیکشن مہم کے دوران یہ پیش کرنے کے قابل ہو جائیں کہ افغانستان میں موجود امریکی فوج واپس بلانے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ایران ہمارا دوست ہمسایہ ملک ہے، دونوں ممالک کے حالات کا اثر ایک دوسرے پر ہوتا ہے، اس لیے دونوں طرف کی قیادت کا رابطہ اچھی بات ہے، اس میں دفاعی اور اقتصادی تعاون بھی شامل ہے، مشاورت بھی اور عالمی سطح پر آنیوالی تبدیلیوں کے ذریعے ان ممالک پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ اور صلاح مشورہ بھی۔ اس دور میں اس کی ضرورت و اہمیت بہت زیادہ ہے۔

اسلام ٹائمز: سرخ جھنڈے اٹھائے گروپوں کیجانب سے طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک پر کیا کہیں گے۔؟
ندیم افضل چن:
یہ ہونا چاہیئے لیکن اس کے دونوں پہلوؤں کی طرف دیکھنا چاہیئے، یہ بھی ایک مافیا بن جاتے ہیں، پنجاب یونیورسٹی میں کیا ہوا تھا عمران خان کیساتھ۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ مطالبہ کرنیوالے کون ہیں، انہوں نے کس کی تصویریں اٹھا رکھی ہیں، اس کا آغاز ہونا چاہیئے، بہتر ہے پہلے سوسائیٹیز بنائی جائیں، اس کام کو بھی مرحلہ وار کیا جائے۔ یہ درست ہے کہ طلبہ یونین سیاسی قیادت کی تیاری میں اہمیت کی حامل ہے، لیکن اس سے پہلے ان یونیننز کو جمہوری جماعتوں کو دبانے کیلئے ختم کیا گیا ہے، لیکن یہ بھی ہے کہ یہی یونینز تعلیمی اداروں میں قبضوں اور غنڈہ گردی کیلئے بھی استعمال ہوئی ہیں، اگر طلبہ یونین سیاسی قیادت کی نرسری ہے تو پھر پہلے یہ یقینی بنایا جانا چاہیئے کہ یہ کسی سیاسی جماعت کا باقاعدہ ونگ نہ ہوں، کوئی بھی سیاسی گروہ یا جماعت انہیں ناجائز ہڑتالوں، ہوسٹلز پر قبضے، اساتذہ کی تضحیک اور مرضی کے امتحانی نتائج لینے کیلئے استعمال نہ کر سکے۔
خبر کا کوڈ : 829929
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش