0
Thursday 29 Sep 2011 17:15

مفتی پاپولزئی اور مفت کی میڈیا کوریج

مفتی پاپولزئی اور مفت کی میڈیا کوریج
تحریر: ساجد حسین 
گذشتہ چند برس سے پشاور شہر کی مسجد قاسم علی خان میں قائم متنازعہ رویت ہلال کمیٹی اور اس کے سربراہ مفتی شہاب الدین پاپولزئی نے رمضان المبارک اور شوال المکرم (عید الفطر) کی رویت کے حوالے سے تنازعہ کھڑا کرکے خیبر پختونخوا اور فاٹا کے بعض حصوں کے عوام کو ملک سے الگ تھلگ کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ اور جس طرح آثار قدیمہ و ماہرین ارضیات بعض نوادرات کو کئی ہزار سال پرانے قرار دے کر کئی صدیوں کی ڈنڈی مار سکتے ہیں اسی طرح مفتی پاپولزئی نے بھی اپنے بعض انٹرویو میں مسجد قاسم علی خان کی کمیٹی کو کئی سو سال پہلے کا قرار دیا ہے، حالانکہ پشاور شہر کی تاریخ سے واقف اور قدیم پشاوریوں کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ مسجد قاسم علی خان کو وہابی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے مسلمانوں کے دوسرے فرقے سے بزور غصب کیا، اور یہ سلسلہ صرف مسجد قاسم علی خان تک محدود نہیں بلکہ ملک اور صوبے کے سینکڑوں مساجد کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ رہی بات متنازعہ رویت ہلال کی، تو یہ بات اکثر پاکستانی جانتے ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان میں رمضان اور عید الفظر میں اختلاف اور تنازعہ کا سلسلہ کئی صدیوں یا دہائیوں کی بجائے گزشتہ چند سالوں ہی سے شروع ہو چکا ہے۔
اس تحریر میں ہم اس مسئلے سے متعلق اہم عوامل و حقائق کی طرف عقل و خرد پر مبنی کچھ سوالات اٹھائیں گے، اور پھر فیصلہ قارئین و ارباب اختیار پر چھوڑیں گے کہ کیا کرنا چاہئے۔ تو سب سے پہلا اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی یا قمری سال رمضان و عید الفطر کے ایام کے علاوہ عید الاضحی، عید میلاد اور محرم عاشورا کے علاوہ رمضان شروع ہونے سے پندرہ دن پہلے شب برات جیسے اہم و بابرکت اسلامی ایام پر مشتمل ہیں، لیکن مفتی پاپولزئی کی مسجد کمیٹی صرف اور صرف رمضان اور عید الفطر میں مسلمانان پاکستان کو تقسیم کرنے کے لئے خواہ مخواہ متنازعہ اعلان کروادیتی ہے۔ جبکہ باقی تمام تر اہم اسلامی ایام جس کا ذکر کیا گیا اور جن کا انعقاد بھی رویت ہلال یا چاند کی شہادت پر قمری مہینوں کے ایام پر ہوتاہے ان کے لئے مذکورہ مسجد کی کمیٹی اور مفتی پاپولزئی نہ ہی کوئی اجلاس منعقد کرتے ہیں؟؟۔۔۔ بلکہ یہ تمام باقی ماندہ ایام مفتی پاپولزئی سمیت مذکورہ مسجد کی کمیٹی پورے پاکستان کے ساتھ بغیر کسی اختلاف کے ایک ہی دن مناتی ہے۔۔۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رمضان المبارک سے صرف پندرہ دن پہلے شب برات یا چودہ شعبان کی رات جب مذکورہ مسجد کی کمیٹی اور مفتی پاپولزئی نے پورے پاکستان کے ساتھ ایک ہی دن منایا تو پھر رمضان شروع ہونے کے لئے جو شہادتیں پیش کی گئی وہ تو اٹھایئس شعبان کی رات دی گئی؟؟؟ حالانکہ اسلامی یا قمری مہینہ اٹھائیس دن کا سرے سے ہوتا ہی نہیں۔۔۔ اسلامی یا قمری مہینہ یا تو انتیس دن کا ہوتا ہے یا پھر تیس دن کا۔ نہ جانے خیبر پختونخوا اور فاٹا کے بعض حصوں کے عوام کو کیا ہو گیا ہے جو صرف اور صرف اسلام کا نام اور مفتی کا ٹائیٹل دیکھ کر عقل و شعور اور قرآن و سنت سے خالی احکام پر مر مٹنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ان ہی جیسے مفتیوں کے کہنے پرخیبر پختونخوا اور فاٹا کے بیچارے سادہ لوح عوام کبھی امریکی سی آئی اے کے کہنے پر جہاد اور کبھی طالبان کی حقیقت جانے بغیر اسلام اور نام نہاد طالبان کے نام پر وحشی درندوں کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ شاید استعماری طاقتوں اور اسلام دشمنوں نے انکی یہی کم فہمی اور حماقت دیکھ کر اسلام کے نام پر پاکستان مخالف اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ تاریخ میں اسکی ایک اور بھی مثال موجود ہے کہ جب ایک خاص مقصد سیاسی مقصد کی خاطر نماز جمعہ کو بدھ کے دن منعقد کیا گیا اور جب مسلمانوں کی خاموشی کو مشاہدہ کیا گیا تو اسکے بعد اسلام اور اسلامی نظام کے خلاف بھرپور اقدامات شروع کئے۔
رمضان کے چاند کا متنازعہ فیصلہ کرنے کے بعد یہ توقع تھی کہ شوال یا عید الفطر کی رویت ہلال کا فیصلہ تو اتفاق و اتحاد سے ہو جائے گا اور 31 اگست کو بروز بدھ پورے ملک میں ایک ہی دن عید ہو جائے گی کیونکہ ماہرین فلکیات و موسمایت کے مطابق پیر کے دن ملک بھر میں کہیں بھی چاند دیکھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی بلکہ منگل کی شام بعض علاقوں میں چاند نظر آئے گا، جس کو ٹی وی سکرین کے ذریعے کروڑوں پاکستانیوں نے دیکھا بھی۔
لیکن چند سال سے رمضان اور عید الفطر میں متنازعہ فیصلوں سے شہرت پانے والے اور مفت میڈیا کوریج کی مرض میں مبتلا مفتی پاپولزئی اور اس کے ساتھیوں پر ایک بار پھر بروز پیر چاند کا نزول ہوا۔ لیکن مفتی پاپولزئی ہر سال کی طرح اس سال بھی صرف چند افراد کی زبانی شہادتوں کو جواز بناتے ہوئے خود جاکر یا پھر میڈیا و ٹی وی چینلز کے کیمرہ مینوں کو ہی گواہی دینے والے افراد کی تصدیق اور ٹی وی سکرین پر کروڑوں عوام کو چاند دکھانے کی بجائے مفتی پاپولزئی نے ایک بار پھر عیدالفطر بروز منگل ایک دن پہلے منانے کا اعلان کر دیا۔ بعض محقیقین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق درا صل مفتی پاپولزئی اور پشاور شہر میں قائم مسجد قاسم علی خان کی کمیٹی وہابی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے آل سعود کی پیروی کرتے ہوئے چاند دیکھنے یا شرعی شہادتوں کی بجائے سعودی عرب کے ساتھ ہی رمضان و عید الفطر مناتی ہے۔ لیکن اس بار تو سعودی عرب اور خلیج کے بعض ممالک میں بھی بروز منگل عید الفطر منانے پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے اور وہاں شائع شدہ رپورٹوں کے مطابق بعض علماء و محقیقین اس فیصلے کو غلط قرار دے رہے ہیں کہ دراصل بروز پیر خلیجی ممالک میں بھی چاند نظر نہیں آیا تھا۔ چہ جائیکہ پشاور کی مسجد قاسم علی خان میں ۔۔۔۔ رہی بات وہابی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے آل سعود کی تو ان کا کردار تو اظہر من شمس اور واضح ہے کہ وہ اسلام اور شریعت کے فیصلے خدا کے ڈر سے کرتے ہیں یا پھر امریکہ کے ڈر سے۔۔۔ سعودی مفتیوں اور وہابی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے آل سعود کے فتوؤں کے مطابق عورت کا روزگار کرنا، گاڑی چلانا یا وؤٹ دینا چاہے اسلامی پردے میں ہی کیوں نہ ہوں حرام تصور کیا جاتا تھا۔۔۔ لیکن اب جب امریکہ و یورپ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق، جمہوریت اور شخصی آزادی پر قدغن کے نام پر دباؤ بڑھا کر سعودی عوام کو حقوق دینے کے لئے سعودی حکمرانوں اور مفتیوں پر دباو بڑھایا تو حال ہی میں یہ سب فتوے اور پہلے حرام امور اب حلال میں تبدیل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ چند ہفتے پہلے وہابی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے سعودی حکمرانوں اور مفتیوں نے عورت کے روزگار کو شرعا جائز قرار دے کر باقاعدہ سرکاری طور پر روزگار میں عورتوں کا کوٹہ مقرر کروایا اور یہ خبر پوری دنیا میں سعودی سرکاری ٹی وی کی وساطت سے نشر بھی ہوئی تاکہ امریکہ اور یورپ ناراض نہ ہو جائے۔ اسی طرح حال ہی میں سعودی عرب کے سابق حکمران کی بیٹی شہزادی اسمہ بنت سعود نے انکشاف کیا ہے کہ خانہ کعبہ کی وسعت کے منصوبے میں چار ملین ڈالرز کی کرپشن ہوئی ہے اور کہا ہے کہ سعودی عرب کے مختلف شہروں بشمول مکہ میں لوگ غربت و افلاس سے مر رہے ہیں جبکہ حکمران حج و عمرہ کے لئے آنے والے لاکھوں زائرین سے حاصل ہونی والی کمائی سے شاہ خرچیاں و کرپشن کر رہے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب میں ذی الحجہ کے مہینے میں حج اور رمضان میں عمرہ کی خاطر آنے والے لاکھوں زائرین سے کرروڑوں اربوں ریال کمائے جاتے ہیں اور ان اہم ایام کی حرمت کی بجائے ان ایام کو کمانے اور منافع کے سیزن سے تعبیر کیا جاتاہے۔ جس طرح مری اور سوات و دیگر پرفضا مقامات میں آنے والے سیاحوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر ان علاقوں کے حکومتوں اور عوام کی کمائی کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ بقول ممتاز مذہبی سکالر علامہ قادری اگر سعودی عرب کو حج و عمرہ سیزین سے کمائی نہ ہوتی اور عالم اسلام کے متوقع شدید احتجاج کا ڈر نہ ہوتا تو وہابی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے آل سعود مکہ و مدینہ کے مقامات مقدسہ کو شرک و بدعت قراردے کر پابندی لگا دیتے۔ وہابی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے آل سعود کے متنازعہ فتوؤں اور پھر ان ہی بعض فتوؤں کو امریکی و یورپی دباؤ پر واپس لینے کے حوالے سے اہم ترین معلومات عالمی اہلسنت کے اس ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ جس سے قارئین استفادہ کرکے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہابی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے آل سعود کیا کرتے ہیں۔
www.najd2.wordpress.com
رہی بات مفتی پاپولزئی اور مسجد قاسم علی خان کی متنازعہ کمیٹی کے وہابی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے آل سعود کی پیروی کی تو پھر روزہ کی طرح دیگر ارکان اسلام جیسے نماز میں بھی سعودی عرب کی پیروی کرنی چاہئے، یعنی پنجگانہ نماز بھی اس وقت ادا کرنی چاہیئے جس وقت سعودی عرب میں ادا کی جاتی ہیں، یعنی ہر نماز سعودی عرب کے مقامی وقت کے مطابق ادا کی جائے یعنی تقریبا دو گھنٹے کے فرق سے خیبر پختو نخوا و فاٹا میں ادا ہو۔ سعودی عرب میں جب نماز کی ادائیگی کا اول وقت ہوتاہے تو ہمارے ہاں سعودی عرب کے ساتھ ادا کرنے سے یا تو سرے سے نماز کا وقت ہی نہیں ہوگا یا پھر ہر نماز ادا کی بجائے قضا کے وقت ادا ہوگا۔ اسلئے اگر عقل و شعور سے کام لیا جائے تو جس طرح افق اور وقت کی تبدیلی کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ پاکستان میں ایک وقت پر ہماری نماز نہیں ہوسکتی تو واضح سی بات ہے کہ رویت ہلال اور رمضان و عید میں بھی سعودی عرب سے ہمارا افق اور وقت مختلف ہونے کی وجہ سے ضرور فرق پڑے گا۔ وہابی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے آل سعود اور مفتی شہاب الدین پاپولزئی کے فتوؤں کے مطابلق تصویر کھینچنا یا شائع کرنا حرام و بدعت ہیں لیکن جب پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر وہابی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے آل سعود اور مفتی شہاب الدین پاپولزئی کی اپنی تصویر ہو تو پھر انکے اور ان کے اباو اجداد کے فتوؤں کی حرمت کی کوئی بات نہیں۔ اور اس صورت میں تصویر و ویڈیو تصویر آنے میں کوئی حرج نہیں۔ یعنی مفتی پاپولزئی کے لئے مفت میڈیا کوریج حاصل کرنا عین اسلام ہیں۔ نہ جانے خیبر پختونخواہ اور فاٹا کے بعض حصوں کے عوام مفتی پاپولزئی اورغیر قانونی مسجد کمیٹی کو کب تک مفت میڈیا کوریج فراہم کرتے رہیں گے، اس بات کا فیصلہ آنے والا رمضان اور عید الفطر ہی کرے گا۔
خبر کا کوڈ : 102460
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش