0
Tuesday 1 Nov 2011 01:12

پارلیمان ڈائری، سینیٹ کے اجلاس کی جھلکیاں

پارلیمان ڈائری، سینیٹ کے اجلاس کی جھلکیاں
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سینیٹ میر جان محمد خان جمالی کی صدارت میں شام پانچ بجے شروع ہوا۔ آج کے اجلاس میں مفت تعلیم اور صحافیوں کی فلاح کے بل پیش کئے گئے۔ جو بحث کے بعد متعلقہ کمیٹی کو بھیج دئیے گئے۔ نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے فاٹا سے ممبر سینیٹ حافظ رشید احمد کا کہنا تھا کہ مشرف دور کی پالیسیاں اب بھی کام کر رہی ہیں۔ ہم پر پہلے سے زیادہ ڈرون حملے کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمران امریکیوں کے پٹھو بنے ہوئے ہیں۔ جب بھی کوئی امریکی آتا ہے یہ ان کے استقبال کیلئے جاتے ہیں۔ کیا ہم پاکستان کا حصہ نہیں ہیں کہ ہم پر حملہ کیا جاتا ہے اور ہماری حکومت اس پر احتجاج نہیں کرتی بلکہ ان کا استقبال کرتی ہے۔ ظلم پر ظلم یہ کہ ہمارے پندرہ ارب کے ترقیاتی فنڈ میں سے صرف 66 کروڑ ہمیں ادا کئے گئے۔
سینیٹر عبدالرحیم مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کی تیاری کے لئے جلسے ضرور کئے جائیں، لیکن دشمنانہ انداز کو ترک کیا جائے اور اکھاڑہ نہ لگایا جائے۔ سیاسی پارٹیوں کو عوام کی طرف سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں اور ملک کو تباہی کہ طرف نہ لے جائیں۔
سینیٹر صلاح الدین ڈوگر نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ صد ر پاکستان ایک آئینی سربراہ ہیں، ان کے خلاف جو بھی الفاظ بولے جاتے ہیں وہ پاکستان کے آئین کے خلاف ہیں اور جو بھی آدمی پاکستان کے آئین کے خلاف بولتا ہے اس کے خلاف کاروائی کی جائے۔
پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے سینیٹر نیلوفر بختیار نے کہا کہ ملک میں خواتین کے لئے جو کرائسس سنٹر بنائے گئے تھے وہ آج بہت ہی خستہ حالت میں ہیں۔ وزیراعظم کا آسٹریلیا میں یہ بیان دینا کہ آج خواتین پاکستان میں آسودہ ہیں، خواتین کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ خواتین کے کھولے گئے بتیس کرائسس سنٹرز صوبوں کو پھینک دئیے گئے۔ اس میں سے بارہ سنٹرز ہیں جن کو پنجاب نے لینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس میں بھی ایک راز کی بات ہے جس کی وجہ سے پنجاب نے ان کرائسس سنٹرز کو لینے سے انکار کیا۔
 اس حکومت نے ان کرائسس سنٹرز کو بے نظیر بھٹو شہید کے نام سے موسوم کر دیا تھا اس لئے پنجاب کی بیوروکریسی نے ان کو لینے سے انکار کیا، لیکن اس کا نقصان عورت کو ہوا۔ میری پنجاب حکومت سے گزارش ہے کہ ان سنٹرز کو اپنائیں اور ان میں مقیم افراد کو ان کا جائز حق دیا جائے۔ ان سینٹرز کو ہیومن رائٹس کی منسٹری کو دیا گیا لیکن چار ماہ سے ملازمین کو تنخواہیں تک نہیں دی گئیں، وہاں کی بجلی کٹ چکی ہے۔ ان سینٹرز میں ایسی خواتین قیام پذیر ہوتی ہیں جو پہلے ہی مسائل کا شکار ہوتی ہیں، اگر ان خواتین پر رات کو اگر کوئی آفت آ جاتی ہے تو اس کا کون ذمہ دار ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ میں حکومت وقت سے اپیل کرتی ہوں کہ خواتین کے نام پر صرف تقریر نہ کریں عملی طور پر کچھ کر کے دکھائیں اور سب سے پہلے ان سینٹرز کے مسئلے کو حل کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 110803
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش