1
Saturday 21 Apr 2012 03:43

سرائیکی صوبے کی حدود اور نام کا مسئلہ 1

سرائیکی صوبے کی حدود اور نام کا مسئلہ 1
تحریر: محمد ثقلین

سرائیکی صوبے کی تحریک چلی ہے تو مخالفین کی طرف سے لفظ سرائیکی پر طرح طرح کے اعتراضات ہو رہے ہیں اور پوچھا جارہا ہے کہ یہ نام کیا ہے؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ اور یہ نام کہاں سے آیا؟ ان سوالوں کا جواب تاریخی کتب میں موجود ہے، ہندوستان کی زبانوں کے بارے میں جارج گریسن کی کتاب لینگویج سروے آف انڈیا (مطبوعہ گورنمنٹ پریس کلکتہ 1919) کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کتاب کے آٹھویں والیم حصہ ایک صفحہ نمبر359 پر وہ لکھتے ہیں۔ ترجمہ: اپنی سندھی گرامر کے صفحہ 11 پر ڈاکٹر ٹرمپ لکھتے ہیں کہ سندھی کی شمالی بولی کا نام سرائیکی ہے اور یہ سندھی کی خالص ترین شکل ہے، اس علاقے کے باشندوں کی رائے بھی یہی ہے کیونکہ ان کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ لاڑ یعنی سندھ کا عالم شمالی سندھ میں محض حیوان ہے(لاڑ جوپڑھیو سرے جوڈھگو) 

اسی صفحے پر وہ مزید لکھتے ہیں، ترجمہ: سندھ کے ہر ضلع سے (سوائے تھرو پار کر) ایک ایسی زبان کے نمونے موصول ہوئے ہیں جسے مقامی طور پر سرائیکی کہتے ہیں لیکن معائنہ کرنے پر ہر ایک نمونہ ایک ایسی زبان کا نکلا جو سندھی ہرگز نہیں ہے بلکہ الہندکی ایک صورت سے متشابہ ہے اور ضلع ڈیرہ غازی خان کی ہندکی سے قریبی مناسبت رکھتا ہے۔ انہی کتابوں میں بتایا گیا کہ سرائیکی لفظ سرائی (بمعنی سردار، معزز، صاحب توقیر) کی ترقی یافتہ شکل ہے، سرائیکی وسیب میں بہت سی اقوام سرائی کے لاحقے کے ساتھ موجود ہیں، ویسے بھی زبانوں کے مختلف نام کوئی نئی بات نہیں۔
 
اردو نام کی کچھ عرصہ پہلے کوئی زبان نہ تھی البتہ دکنی، دہلوی کے نام آتے تھے، پنجابی کو لاہوری، دو آبی یا ماجھے دی بولی کہا جاتا تھا۔ فارسی کو پہلوی بھی کہا گیا، میرے خیال میں اتنے حوالہ جات کے بعد یہ اعتراض اور بحث ختم ہونی چاہئے کہ سرائیکی کیا ہے، ویسے بھی جن لوگوں کی زبان ہے اسے وہ جو نام دیں، ان کا حق ہے، پنجاب سے کوئی چوہدری سرائیکی کیلئے چا چا خوامخواہ بننے کی کوشش نہ کرے۔ 

تاریخ سے نا بلد پنجاب کے بال ٹھاکرے رانا ثنا اللہ جیسے لیڈر کہہ رہے ہیں کہ پنجاب اور پنجابی کی تاریخی حیثیت ہے، سرائیکی کی کوئی حیثیت نہیں حالانکہ صورت حال اس کے برعکس ہے، ابوالفضل کی کتاب آئین اکبری میں ہندوستان کی معروف اور مستند زبانوں کے جو نام گنوائے گئے ہیں اس کی تفصیل یہ ہے، دہلوی، بنگالی، ملتانی، مارواڑی، گجراتی، تلنگی، کرنا ٹکی، سندھی، افغانی، شال، بلوچستانی اور کشمیری ہیں، اس تفصیل میں پنجابی یا لاہوری زبان کا کوئی ذکر نہیں البتہ ملتانی موجود ہے۔ 

لاہور سے بھی آگے تک علاقہ ملتانی تہذیب (جسے آج سرائیکی کہا جاتا ہے) کا حصہ تھا اور اس سارے علاقے میں سرائیکی بولی جاتی تھی۔ تاریخی طور پر لاہوری زبان و تہذیب سرائیکی کا حصہ رہی ہے تاریخ کی مشہور کتاب سیر المتاخرین (مطبع نامی گرامی نول کشور 1871، ترجمہ گوگل پرشاد صفحہ 60 تا63 ) میں صوبہ لاہور، صوبہ ٹھٹھہ، صوبہ ملتان کا ذکر اس طرح ہے، ملتان اول دوم و سوم اقلیم سے فراخ بلکہ زیادہ ہے کیونکہ ٹھٹھہ کا علاقہ اس صوبہ پر زائد ہوا ہے، فیروز پور سے سیوستان تک چار سو تیس کوس لمبا، اور چتوڑ سے جیسلمیر تک ایک سو آٹھ کوس چوڑا ہے۔

دوسری طرف سے کیچ اور مکران تک چھ سو ساٹھ کوس ہے، اس کے خاور رویہ سرکار سرہند سے ملا ہوا ہے اور شمالی دریائے شور اور جنوبی صوبہ اجمیر میں اور باختر کیچ اور مکران ہے۔ اب اعتراض کرنیوالے دوستوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ سرائیکی صوبہ جو ہم مانگ رہے ہیں وہ بہت محدود ہے، اس کیلئے ان کو سرائیکی قوم کا شکر گذار ہونا چاہئے کہ سرائیکی وسیب کے لوگ آئین اکبری کے نقشے والا نہیں بلکہ آج کا وہ صوبہ مانگ رہے ہیں جو حملہ آوری کی چیر پھاڑ کے بعد باقی بچا ہے۔
 
اب یہ اعتراض کہ یہ صوبہ بہت بڑا ہو گا، یہ مجبوری ہے اب سائز برابر کرنے کیلئے نسل کشی تو نہیں کی جا سکتی، پنجاب صوبے کے بڑے ہونے پر اعتراض اس کے مصنوعی پن کی وجہ سے ہے، باقی جن قوموں کا جتنا جغرافیہ اور جتنی آبادی ہے اتنا ان کا حق ہے۔ سرائیکی وسیب کو دارا اول سکندر اعظم اور رنجیت سنگھ تک اسی زرخیزی کی سزا ملتی آرہی ہے۔ حملہ آور جب درندگی پر آتے ہیں تو دھرتی زادوں کے ساتھ اس کی تہذیبی شناخت کو قتل کرکے اس کے خود مالک بن بیٹھتے ہیں، یہی کچھ سرائیکی کے ساتھ ہوا ہے ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ وادی سندھ جو کہ آج کے پورے پاکستان پر مشتمل ہے کی اصل زبان سرائیکی ہے۔
 
پاکستان کی ماسوا پشتو اور بلوچی کہ یہ فارسی خاندان کی زبانیں ہیں اور باہر سے آئی ہیں باقی تمام کی اصل سرائیکی ہے۔ بعض لوگ سرائیکی اور سندھی کو سسٹر لینگویج کہتے ہیں۔ مگر ہندوستان کے معروف نقاد ڈاکٹر گوپی چند اس کی تردید کرتے ہیں۔ وہ سرائیکی انٹرنیشنل دہلی میں شائع شدہ اپنے مقالے میں سرائیکی کو مادر لینگویج کہہ کر اسے اردو پنجابی سندھی تو کیا سنسکرت کی بھی ماں قرار دیتے ہیں، سندھ کے حوالے سے ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ سندھ کا مطلب دریا اور پانی ہے، وادی سندھ کا مطلب دریاں کی سرزمین ہے جس کا مرکز سرائیکی خطہ ہے، اس لحاظ سے سرائیکی قوم سات سندھ ز کی مالک رہی ہے۔ 

یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ دریائے سندھ کو صرف سرائیکی علاقے میں سندھ کہا جاتا ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں اسے دریائے اٹک و اباسین اور صوبہ سندھ میں اسے مہران کہتے ہیں۔ تو محض صوبے کے نام سے صرف سندھی قوم دریائے سندھ کی اکیلی مالک نہیں بلکہ دریا کے آغاز سے اختتام تک اس کے دونوں کناروں پر رہنے والی تمام قومیں اور تمام لوگ اس کے برابر کے حصے دار ہیں۔ 

میں نے بہت عرصہ پہلے لکھا تھا کہ سرائیکی وسیب پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے دوسری رکاوٹوں کے علاوہ سرائیکی صوبے کے نام پر بھی رکاوٹیں پیدا کی جائیں گی اور اس پر سرائیکی صوبے اور سرائیکی وسیب کے مخالف سیاست کریں گے آج وہی ہو رہا ہے حالانکہ دنیا کے اکثر ممالک کے نام ان کی لسانی و ثقافتی شناخت کے مطابق ہیں یہ آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ بتاتے ہیں کہ جب سے کائنات وجود میں آئی ہر قوم اور ہر قبیلے کی شناخت بھی وجود میں آئی، قرآن مجید میں بھی یہی حکم ہے کہ قومیں اور قبیلے شناخت کیلئے بنائے گئے۔
 
سرائیکی صوبے کے نام پر اعتراض کرنے والے کیا اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ چین جاپان امریکا فرانس جرمن یونان اور اس طرح کے سینکڑوں ممالک ان کی لسانی ثقافتی اور تہذیبی شناختی کے مطابق ہیں۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو جناب غیر اسلامی ممالک ہیں آپ اسلامی ملکوں کی مثال دیں تو کیا وہ اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ اسلامی ملکوں میں سعودی عرب عربی قوم، ملائشیا ملائی قوم، ایران آریہ قوم، افغانستان افغان قوم، بنگلہ دیش بنگالی قوم، تاجکستان تاجک قوم، ترکمانستان ترکمانی قوم ، ازبکستان ازبک قوم اور بہت سے دوسرے اسلامی ممالک کی تہذیبی و ثقافتی شناخت کا کون انکار کر سکتا ہے ؟ 

لیکن تخت لاہور کے آلہ کار اپنی خود ساختہ توضیحات کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اس بارے میں سرائیکی مخالفین رانا ثنا اللہ، محمد علی درانی یا کوئی بھی ہو، کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ سرائیکی صوبے کے نام پر مجھ سے کھلا مباحثہ کرلیں، اگر وہ ثابت کر دیں کہ یہ نام غیر اسلامی ہے اور ٹھیک نہیں ہے تو میں توبہ کرکے ان کے پیچھے چلوں گا اور میں ثابت کروں گا کہ یہ نام تاریخی جغرافیائی اور ثقافتی طور پر درست ہے تو کم از کم وہ جھوٹے پروپیگنڈے سے توبہ کر لیں۔
خبر کا کوڈ : 155000
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش