0
Tuesday 12 Jan 2010 12:22

خوش قسمتی سے جمہوریت پسند آرمی چیف ملا،صدر زرداری پر اعتماد نہیں،جمہوری استحکام کیلئے ہمیں اپنا کردار ایمانداری سے ادا کرنا ہو گا،شہباز شری

خوش قسمتی سے جمہوریت پسند آرمی چیف ملا،صدر زرداری پر اعتماد نہیں،جمہوری استحکام کیلئے ہمیں اپنا کردار ایمانداری سے ادا کرنا ہو گا،شہباز شری
کراچی:پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سترہویں ترمیم کے خاتمے کے حوالے سے کہا ہے کہ ہمیں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی بات قبول ہے لیکن صدر زرداری پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ جو شخص قرآن پر حلف لے اور پھر مکر جائے تو اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا،زرداری سے ہونے والی ملاقاتوں کو قوم مذاق سمجھتی ہے،صدر کے کہنے پر ڈوگر نے ہم پر خنجر گھونپے،قرضے معاف کرانے والے جرمانے سمیت واپس کریں۔اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے خصوصی گفتگو میں کیا۔اُنہوں نے مزید کہا کہ این آر او لانے والوں اور اُس کابینہ کو سزا دینی چاہئے جنہوں نے اس کی توثیق کی۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم افراد کی نہیں نظام کی حمایت کیلئے تیار ہیں لیکن اگر ہماری اسمبلی میں جمہوریت کے استحکام اور کرپشن کے خاتمے کے لئے قرار داد آئے گی تو ہم ضرور حمایت کریں گے لیکن کسی فرد کے لئے قرار داد کی حمایت مناسب نہیں ہے۔اُنہوں نے کہا کہ نہ تو میں نیب زدہ ہوں اور نہ ہی ہم نے قرضے معاف کرائے ہیں،ہم کٹہرے میں کھڑے ہونے کیلئے تیار ہیں،آصف زرداری سپریم کورٹ کے ججوں کا بنچ بھی بنا لے،ہمیں عدلیہ پر اعتماد ہے لیکن جنہوں نے سیاسی طور پر قرضے معاف کرائے ہیں وہ جرمانے کے ساتھ واپس ہونے چاہئیں۔اُنہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں طالبانائزیشن کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہاں کوئی ٹریننگ کیمپ نہیں ہے اور تمام مدرسوں پر ہماری نظر ہے۔روٹی اور فوڈ اسٹیمپ اسکیم کے منصوبے کے حوالے سے اُنہوں نے بتایا کہ میں نے ”روٹی کپڑا اور مکان“ کا نعرہ نہیں لگایا یہ نعرہ تو کسی اور نے لگایا تھا اور دو روپے کی روٹی کا منصوبہ آج بھی جاری ہے۔50 ارب کا اوور ڈرافٹ لینے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ اسکا جواب تو میں اعداد و شمار کے ساتھ بعد میں دوں گا لیکن میں نے پیسے شاہ خرچیوں پر نہیں اڑائے،نہ ہی میں نے بلٹ پروف گاڑیاں منگوائیں۔اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ پرویز الٰہی جب وزیر اعلیٰ تھے تو اُنہوں نے 30کروڑ کا سیکرٹ فنڈ لیا جس کا کوئی حساب نہیں دیا گیا۔صدر زرداری کے ساتھ اپنے معاملات کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ مری،اسلام آباد،پنجاب ہاؤس اور صدر ہاؤس میں بھی ملاقاتیں ہوئیں،اب قوم ان ملاقاتوں کو مذاق سمجھتی ہے۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ اعتراف کیا کہ میثاق جمہوریت پر عمل نہ کرنا غلطی ہے جس کیلئے نوازشریف نے کوشش کی۔لیکن ڈوگر نے زرداری کے کہنے پر ہم پر خنجر بھی گھونپے لیکن نوازشریف نے صبر کا مظاہرہ کیا۔اُنہوں نے کہا کہ حکومت میثاق جمہوریت پر عمل،کرپشن کا خاتمہ اور عدلیہ کا احترام کرے اور آئین و قانون کی حکمرانی ہو تو ہم ان کا ساتھ دینگے۔ان باتوں پر عمل درآمد کے بغیر ملاقات کا فائدہ نہیں۔صدر زرداری کے استعفیٰ کے متعلق اُنہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ کوئی کسی کو نکال نہیں سکتا البتہ ہم اپنے دشمن خود ہیں۔ آرمی چیف سے ملاقات پر اُن کا کہنا تھا کہ کیا آرمی چیف سے رات کو ملنا شجر ممنوعہ ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات وزیر اعلیٰ بننے کے بعد پہلی بار ہوئی،یہ ملک کی خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اشفاق پرویز جیسا جمہوریت پسند آرمی چیف ملا اور یہ جنرل کرامت کے بعد ایسے پہلے آرمی چیف ہیں۔اُنہوں نے کہا میری آرمی چیف سے میٹنگ سیکیورٹی امور پر تھی کیونکہ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے باعث اس ملاقات کی ضرورت تھی،آرمی چیف سے میں نے کیری لوگر بل پر بات کی اور بتایا کہ ہماری پارٹی اسے ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ اس بل سے ملنے والی امداد سے ملک کو ٹھیس پہنچے گی۔
 علاوہ ازیں وزیر اعلیٰ شہباز شریف ترکی کے 6 روزہ دورہ پر انقرہ پہنچ گئے،ترکی کے نائب وزیراعظم بلند آرنچ نے شہباز شریف سے ملاقات کے دوران کہا کہ ترکی کے عوام اور حکومت پاکستانی بھائیوں کو زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اور ہر شعبے میں ان سے تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں،ترکی کے وزیر خارجہ احمد داود اولو نے بھی وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات کی۔ شہباز شریف ترکی صدر عبداللہ گل سے بھی ملاقات کریں گے۔
علاوہ ازیں انقرہ میں شہباز شریف نے ترکی کے نائب وزیراعظم بلند آرنچ سے ملاقات کی،ترک نائب وزیراعظم نے کہا کہ پنجاب میں برسراقتدار سیاسی جماعت مسلم لیگ کا پاک ترک تعلقات میں تاریخی کردار ہے۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ پاک ترک دوستی دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں کی آواز ہے اور یہ دوستی تاقیامت قائم رہے گی۔ترک رہنماوں کی طرح پاکستان میں جمہوریت پسند قیادت بھی اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ترک وزیر خارجہ احمد داود اولو کے ساتھ اپنی ملاقات میں شہباز شریف نے کہا کہ ترکی اور پاکستان کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات دونوں ملکوں کے درمیان موجود روحانی اور برادرانہ تعلقات کی عکاسی نہیں کرتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ترکی اور پاکستان کے درمیان شاندار روایتی تعلقات کو ٹھوس اقتصادی اور معاشی معاہدوں کی شکل دی جائے۔پیشتر ازیں،شہباز شریف نے ترک وزیر توانائی سے گفتگو کرتے ہوئے انہیں پنجاب میں کوئلے اور دوسری معدنیات کے سروے کے لیے مشترکہ منصوبہ تیار کرنے کی دعوت دی۔بعدازاں وزیر اعلیٰ نے اپنے اعزاز میں یونین آف چیمبرز اینڈ کموڈیٹی ایکسچینج میں منعقد ہونے والی دعوت میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں درست ترجیحات کا تعین نہ کر سکا۔ورنہ آج ترکی اور پاکستان میں مثالی تجارتی تعلقات ہوتے۔


خبر کا کوڈ : 18414
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش