0
Saturday 18 Aug 2012 23:08

سانحہ بابوسر کیخلاف کوئٹہ میں احتجاجی ریلی

سانحہ بابوسر کیخلاف کوئٹہ میں احتجاجی ریلی

پاکستان میں موجودہ حکومت اور عدلیہ پہلے دن سے صرف ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں ہی مصروف عمل ہیں۔ لیکن انہیں پاکستان کے مظلوم شیعہ عوام پر جاری مظالم نظر ہی نہیں آتے۔ بجائے اسکے کہ حکومت، عدلیہ اور انتظامیہ سمیت پاکستان کی تمام تر ریاستی قوتیں دہشتگردوں کی کمر توڑنے کیلئے ایک ساتھ بیٹھ کر سوچیں اسکے برعکس سب اپنے اقتدار کی فکر میں ہیں۔
11 اگست 1947ء کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
پاکستان کی ریاست کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کا تعلق کس مذہب اور نسل سے ہے، آپ سب پاکستان کے شہری ہے۔

لیکن معماران پاکستان کی مادر وطن کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو وقت کے ستم ظریفوں اور حکمرانوں کی ذاتی مصلحتوں کی وجہ سے تعبیر نہیں مل سکی۔ یہ وہ خواب ہے جو آج بھی منتظر تعبیر ہے۔ سابق سویت یونین کی افغان جنگ کے دوران ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمارے معاشرے میں اسلحہ کلچر کو پروان چڑھایا گیا۔ یہ وہی دور ہے جب کلاشنکوف متعارف ہوئی۔ کوئی نہیں‌ جانتا تھا کہ بارودی ہتھیاروں تک اتنی رسائی مستقبل میں کتنا خوفناک منظر تشکیل دے گی۔

وقت کے فرعونوں نے شاید یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ کس زہرقاتل کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ جو کہ آگے جاکر ہمارے معاشرے کیلئے ایک ناسور کی شکل اختیار کر جائے گا۔ مذہبی جنونوں کی کم فہمی کی بدولت آج ہمارا ملک تشدد اور عدم برداشت کی اُس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں ہر طرف اسلحے کی گھن گھرج، مظلوموں کی آہ و بکا، مایوسی کے اندھیرے اور لہو کے خوفناک داغ پھیلے ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان میں مقیم غیور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے پاکستانی عوام گزشتہ کچھ عرصے سے دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں۔ بے گناہ مسلمانوں کو شناختی کارڈ چیک کرکے مارنا تو کبھی حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے درندگی کی تمام بلندیوں کو عبور کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ 

لیکن ایک ہی طرح کے واقعات رونماء ہونا اور ایسے واقعات کے بعد حکومت اور انتظامیہ کی خاموشی تمام اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ راولپنڈی سے گلگت جانے والی تین بسوں پر چلاس کے قریب فائرنگ ہوئی، جسکے نتیجے میں 20 سے زائد افراد شہید ہوگئے۔ اطلاع کے مطابق راولپنڈی سے گلگت جانے والی مسافر بسیں جب چلاس کے قریب پہنچیں تو موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے بسوں کو محاصرہ میں لیا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کے نتیجے میں اطلاعات کے مطابق 20 سے زائد مسافروں کی موقع پر شہادت ہوئی، جبکہ کئی مسافر زخمی بھی ہیں۔ 

شہید ہونے والے اکثر افراد کا تعلق استور سے ہے، اس خبر کے ملتے ہی گلگت اور اسکردو سے راولپنڈی جانے والی گاڑیوں کو روک دیا گیا۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی شیعہ مسافروں پر دہشتگردوں نے اس طرح بزدلانہ حملے کئے ہیں۔ کبھی کوئٹہ تو کبھی چلاس نااہل انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ لیکن حکومت، انتظامیہ، اور میڈیا کی اس قدر خاموشی مجرم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ سانحہ چلاس اور کوئٹہ کیخلاف مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ سانحہ چلاس اور کوئٹہ کیخلاف یہ احتجاجی ریلی دفتر مجلس وحدت مسلمین حاجی آباد یونٹ سے ہوتے ہوئے سید آباد علمدار روڈ پر اختتام پذیر ہوئی۔
 
ریلی میں سینکڑوں‌ مظاہرین نے شرکت کی، جسکی قیادت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رکن شوریٰ علامہ سید ہاشم موسوی اور علامہ ولایت حسین جعفری نے کی۔ ریلی کے شرکاء نے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جن پر حکومت وقت کیخلاف نعرے درج تھے۔ ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید ہاشم موسوی نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور انتظامیہ ملک میں جاری دہشتگردی کو روکنے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعہ کا ازخود نوٹس لیکر دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔

انہوں نے حکومت وقت کو ایک مرتبہ پھر متبنہ کیا کہ دہشتگردوں کا جلد از جلد قلع قمع کیا جائے، ورنہ پاکستان کے تمام شیعہ مسلمان اسلام آباد کا رخ کرکے اقتدار پر بیٹھے حکمرانوں‌ کا احتساب کرینگے۔ ریلی کے آخر میں شہیدوں کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعائیں کی گئی۔

خبر کا کوڈ : 188203
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش