0
Wednesday 7 Nov 2012 23:00

شیعہ ہزارہ کا بہتا لہو!!!

شیعہ ہزارہ کا بہتا لہو!!!

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک بار پھر شیعہ ہزارہ محب وطن کو دہشتگردوں نے نشانہ بنایا۔ کالعدم ملک دشمن جماعت لشکر جھنگوی کے مُسلح دہشتگردوں کی جانب سے اسپنی روڈ پر 5 اہل تشیع کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 3 افراد موقع پر شہید جبکہ 2 زخمی ہوگئے۔ دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والے افراد کو فوری طور پر بولان میڈیکل اسپتال منتقل کیا گیا۔ ہزارہ قبیلہ کے افراد ٹیکسی کار نمبر PG-8762 میں سوار تھے۔ شہید ہونے والوں کی شناخت محمد زمان ولد مراد علی، محمد عیسٰی ولد شیخ نبی، اور رحمان عرف لالا کے نام سے ہوئی ہے، جبکہ زخمیوں کی شناخت حسین علی اور محمد علی کے نام سے ہوئی ہے۔

واقعے کے بعد شہداء کے لواحقین اسپتال پہنچے اور بروری روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کر دیا۔ اس موقع پر مشتعل افراد نے شدید نعرے بازی اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔ واقعے میں شہید ہونے والے افراد کا تعلق ہزارہ ٹاون اور علمدار روڈ سے بتایا جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب اس سے قبل دہشتگردوں نے پاکستان کے شہر کراچی میں بھی علامہ آفتاب جعفری اور شاہد علی مرزا کو نشانہ بنایا تھا۔ اور بعد ازاں شہداء کی نماز جنازہ پر سکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔ جسکے نتیجے میں مزید 3 اہل تشیع شہید ہوگئے۔ پاکستان کا ہر شہر شیعہ شہریوں کی قتل گاہ بن چکا ہے۔ دہشتگرد جب چاہیں اور جہاں چاہیں نہایت آسانی سے بے گناہ افراد کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہماری نام نہاد عدلیہ اور نام نہاد ریاستی ادارے ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف عمل ہیں۔

بلوچستان میں ایسے المناک سانحات کا رونماء ہونا ایک معمول کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور کوئی دن خالی نہیں جاتا جب صوبے کے کسی نہ کسی علاقے میں کوئی ایسا المیہ رونماء نہ ہوتا ہو، جس کی وجہ سے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور وہ بری طرح جان و مال کے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس صورتحال کے پس منظر میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان میں حکومت کی ناکامی کے بارے میں اپنا عبوری حکم واپس لینے کی درخواست مسترد کر دی، اور اس فیصلے کے یہ الفاظ بھی حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں کہ حکومت نے ابھی تک عدلیہ کے فیصلے کے حوالے سے یہ جواب نہیں دیا کہ بلوچستان کی حکومت کس اتھارٹی کے تحت کام کر رہی ہے۔

بلوچستان میں بغاوت نہیں بلکہ اچھی حکمرانی کا فقدان ہے۔ اس لئے عدلیہ اپنا عبوری حکم واپس نہیں لے سکتی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اہم حکومتی شخصیات بھی بلوچستان میں‌ ٹارگٹ کلنگ اور چوری ڈکیتی کے واقعات کی پشت پناہی کر رہی ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان واقعات پر قابو پانے اور کامیاب حکمرانی کے تاثر کو تقویت دینے، حکومت پر عوام کا اعتماد بحال کرنے، ان میں جان و مال کے تحفظ کا احساس پیدا کرنے کیلئے حکمرانوں نے سوائے ایف سی بھجوانے کے اور کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جو حالات و واقعات کے حوالے سے نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا۔

اس پس منظر میں چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ کہنا بھی حکومت کیلئے ایک رہنماء اصول کا درجہ رکھتا ہے۔ کہ وفاق کو صوبے میں خلفشار کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوگے۔ دریں اثناء وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے 12 اکتوبر کے فیصلے کے بعد بلوچستان پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے مختلف اقدامات پر غور کر رہی ہے۔ لیکن یہ امر باعث تشویش اور مایوسی کو تقویت دیتا ہے کہ وفاقی حکومت ابھی تک صوبے کے حالات کو درست کرنے اور اسے ایک سنگین بحران سے نکالنے کیلئے موثر اقدامات نہیں کر پائی۔

محض زبانی کلامی دعوؤں اور یقین دہانیوں سے اصلاح احوال ممکن نہیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک بھی المناک سانحات رونماء ہونے پر صرف متاثرین سے اظہار ہمدردی کے سواء کوئی نتیجہ خیز اقدام نہیں کر پائے۔ انتہاء یہ ہے کہ بلوچستان کی صورتحال پر بحث کے دوران سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کو رحمان ملک صاحب کہتے ہیں کہ بلوچستان کی صورتحال بہتر ہے، اگر آپ کہیں تو میں آپ کو اپنے ساتھ گاڑی پر بلوچستان کی سیر کرا سکتا ہوں۔ بلوچستان میں شہید ہونے والے شیعہ ہزارہ کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ صوبائی وزیراعلٰی اسلم رئیسانی کا یہ کہنا ایک سنگین مذاق ہی ہے کہ بلوچستان میں‌ باقی صوبوں کی نسبت حالات بہتر ہیں اور سارے اتحادی ہمارے ساتھ ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر محمد اسلم بھوتانی نے اسمبلی کے بلائے گئے اجلاس کی صدارت کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے عدالتی حکم کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

یہ صورتحال بلوچستان میں آئینی بحران کی شدت میں ہونے والے اضافے کی واضح نشاندہی کرتی ہے اور حکومت کی ناقص کارکردگی کا مظہر ہے۔ اسپیکر اسمبلی کے مطابق بھی صوبے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی حقائق پر مبنی ہے۔ اس کے نزدیک مسائل کا پائیدار اور واحد حل یہ ہے کہ بلوچستان حکومت اور اسمبلی کو ختم کرکے فوری طور پر غیر جانبدارانہ، صاف اور شفاف انتخابات کرائے جائیں اور اس طرح بلوچ قوم پوری آزادی کیساتھ اور کسی سیاسی دباؤ کے بغیر اپنے جو نمائندے منتخب کرے، ان نمائندوں کو اختیار سونپ دیا جائے۔ 

امر واقع یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے بعد اب بلوچستان کی موجودہ حکومت کی حکمرانی کا کوئی جواز نہیں رہا اور سپریم کورٹ کی طرف سے 12 اکتوبر کے فیصلے کے بعد اب تک اس پر علمدرآمد نہ ہونا خود حکومت کیلئے دعوت فکر و عمل ہے۔ صوبہ پہلے ہی دہشتگردی، لاقانونیت اور بے گناہ افراد کی ہلاکت کی آگ میں جل رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان میں آئینی بحران لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے تو خدشہ یہ ہے کہ کہیں پورے نظام کی بساط نہ لپٹ جائے اور خواب غفلت سے بیدار ہوتے بہت دیر نہ ہو جائے۔

خبر کا کوڈ : 209977
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش