0
Monday 12 Nov 2012 10:45
عالمی اتحاد امت کانفرنس

قرآن اور صاحب قرآن (ص) کی توہین متقاضی ہے کہ امت متحد ہو جائے، مقررین

قرآن اور صاحب قرآن (ص) کی توہین متقاضی ہے کہ امت متحد ہو جائے، مقررین
رپورٹ: سید نوید حسین نقوی

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں امت مسلمہ کا بین الاقوامی اجتماع ''عالمی اتحاد امت علماء و مشائخ کانفرنس'' بھرپور انداز میں انعقاد پذیر ہوا۔ ایران، ترکی، افغانستان، ملائشیا اور دیگر برادر اسلامی ممالک سے اسلامی تحریکوں کے نمائندگان نے کانفرنس میں شرکت کی۔ ترکی سے سعادت پارٹی کے اوگزہان اسیل ترک، ایران سے عالمی مجلس تقریب مسالک اسلامی کے سربراہ آیت اللہ محسن اراکی اور افغانستان سے سابق وزیراعظم انجئنیر احمد شاہ احمد زئی نے کانفرنس میں شرکت کی۔ پاکستان کی تمام دینی جماعتوں کے سربراہاں اس غیر معمولی کانفرنس میں شریک ہوئے، جن میں مولانا فضل الرحمان، علامہ ساجد علی نقوی، صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر، سید منور حسن، حافظ محمد سعید، علامہ امین شہیدی، سلطان احمد علی، علامہ ابتسام الہی ظہیر، مفتی منیب الرحمان اور دیگر علماء و مشائخ شامل تھے۔

پہلی نشست سے خطاب کرتے ہوئے شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی نے کہا کہ اختلافات کو ایک طرف رکھ کر پوری امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کے مقدس پیغام کو مدنظر رکھتے ہوئے امت مسلمہ کے علماء مل بیٹھیں تو امت کو درپیش بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل کا قیام اور آج کی یہ کانفرنس ان مسائل کے حل کے لئے ایک اہم پیش رفت ہے۔ آج ابلیسی طاقتیں خطے میں مسلمان ممالک میں انتشار وافتراق پیدا کرکے خون بہا رہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب مل بیٹھیں اور جزوی مسائل کو حل کریں۔ امت کو مشترکات پر اکٹھا کیا جائے، تاکہ استعماری طاقتیں اپنے مقاصد میں ناکام و نامراد رہیں۔

جماعۃ الدعوۃ کے مولانا عبدالسمیع نے کہا کہ ہمیں دشمن نے اس چکر میں ڈال دیا ہے کہ حضور (ص) نور تھے یا بشر تھے۔ ہمیں اپنے اصل سبق یعنی حضرت محمد (ص) اللہ کے رسول (ص) ہیں کو یاد کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلام کے ایجنڈے اور قرآن و سنت کو اس ملک میں رائج کرنے کے لئے تگ و دو کرنا ہوگی۔
افغانستان کے سابق وزیراعظم انجئنیر احمد شاہ احمد زئی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام امت مسلمہ امت واحدہ ہے۔ امریکہ، چائنہ یا دنیا کا کوئی اور ملک سپر طاقت نہیں بلکہ امت مسلمہ سپر پاور ہے۔ افغان رہنما نے کہا کہ روس کے خلاف افغان جہاد میں تمام امت ایک تھی، جس کے نتیجے میں روس پاش پاش ہوا۔ اس کے بعد امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا، اس دفعہ بھی صورتحال وہی رہی، جو روس کے افغان جہاد میں تھی۔ اس جہاد میں بھی امت مسلمہ نے ہمارا ساتھ دیا اور ہم نے سپر طاقتوں کو شکست دی۔ آج نیٹو اور اس کے اتحاد ی شکست کھا چکے ہیں۔ افغان فوجی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔

افغانستان کے سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج مسلم امہ کے درمیاں اتحاد کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے استعماری طاقتیں مسلمانوں کا خون بہا رہی ہیں۔ یہ بات حیران کن ہے کہ مسلمان ممالک کے حکمران جہاد کی حمایت کرنے سے قاصر ہیں اور حملہ آوروں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ عالمی استعماری طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق افغان وزیراعظم نے کہا کہ شاہ فیصل نے صرف تین دن امریکہ کا تیل بند کیا تو مغرب تڑپ اٹھا تھا۔ ہم علماء کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہان کو یاد دلائیں کہ امت مسلمہ اگر یکجا نہ ہوگی تو اسکا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ حکمرانوں کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ پوری دنیا سے تمام ڈکٹیٹرز کا خاتمہ شروع ہو چکا ہے۔ افریقی ممالک آج آمروں کی لعنت سے پاک ہوچکے ہیں۔

ملی یکجہتی کونسل کے صدر قاضی حسین احمد نے کہا کہ آج امت مسلمہ کئی مسائل سے دوچار ہے، کہیں پر فرقہ ورایت کو ہوا دی جا رہی ہے تو کہیں پر علاقائیت کے نام پر لڑایا جارہا ہے، کہیں نسلی بنیادوں پر تو کہیں علوی اور سنیوں کو لڑایا جا رہا ہے، عالم اسلام میں اس وقت جنگ اور فساد برپا ہے، ہمیں یہ چیز ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ نہ سارے شیعہ سنی بن سکتے ہیں اور سنی شیعہ، نہ کوئی شیعہ کو ختم کرسکتا ہے اور نہ سنی شیعہ کو، اس لئے ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ آج پاکستان، ایران، عراق، افغانستان سمیت ہر ملک میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں عالمی اتحاد امت کانفرنس کے خطبہ استقبالیہ کے دوران کیا۔

مفتی رفیع عثمانی کا کہنا تھا کہ کانفرنس کو نتیجہ خیز بنانے کی ضرورت ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے مقاصد کافی حوصلہ افزا ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم دینی قوتوں کے اتحاد کا ذریعہ بنے گا۔ پاکستان میں دینی قوتوں کے اتحاد سے اسلامی انقلاب رونما ہوسکتا ہے۔ دینی طاقتوں کو یکجا ہو کر الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔ ان انتخابات میں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس ملک میں سیکولر طاقتوں کو لانا ہے یا اسلامی نظام کو لانا ہے۔

ترکی کی اسلامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر نجم الدین اربکان کے دست راست اور نائب استاد اوگزہان اسیل ترک نے عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول (ص) کی حدیث ہے کہ تین سفر کرنے والے ہوں تو ایک کو مسؤل ٹھہراؤ، تاکہ تمہارے درمیان فیصلہ کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جو اسلام پر عمل پیرا ہیں، دوسرے وہ جو غرب کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ لیکن دراصل اسلام کے ماننے والے بھی متحد نہیں ہیں، جس کی وجہ سے غرب کے محبین میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کی کوششوں کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قاضی حسین احمد گزشتہ تیس سال سے اتحاد امت کے لئے کوشاں ہیں، جو انشاءاللہ کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔ عالم اسلام میں چلنے والا نظام اسلامی نہیں ہے۔ تمام عالم اسلام کی سربراہی کے لئے ایک امیر المومنین کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ترک رہنماء نے کہا کہ یو این ایک ظالم طاقت ہے جو استعمار کا آلہ کار ہے، غرب اور امریکہ ہمارے اتحاد سے کمزور ہوسکتے ہیں اور ہم دنیا کی سپر طاقت بن سکتے ہیں۔ نیٹو نے عراق، افغانستان اور پوری دنیا میں مسلمانوں کا خون بہایا ہے۔ شام کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں مسلمانوں کو قتل کر رہی ہیں۔ کچھ مسلمان نیٹو کو دعوت دے رہے ہیں۔ ترکی نیٹو کا حصہ ہے، وہ کیسے مسلمانوں کا قتل عام کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ شام کے معاملے میں ہم اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا کہ اتحاد سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ مغرب کی گستاخانہ حرکات کو بے نقاب کرتے ہوئے حافظ سعید نے کہا کہ ٹیری جونز ججوں کا ایک پینل بناتا ہے، اور نعوذبااللہ قرآن کو مجرم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور قرآن کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ ہم ادھر احتجاج کر رہے ہیں، ادھر اعلان کئے جا رہے ہیں کہ پہلے سے بڑھ کر فلمیں بنائی جائیں گی۔ شیعہ سنی کا مسئلہ بڑا پرانا ہے۔ اب ان مناظروں کی گنجائش نہیں۔ اب عالم کفر ہم پر حملہ آور ہے۔ افغانستان، کشمیر، فلسطین، قبائلی علاجات ہر جگہ مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ پوری دنیا میں بہنے والے خون کو روکنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ اللہ کا احسان ہے کہ مسلمان پوری دنیا کے وسط میں آباد ہیں۔ اللہ تعالٰی نے یہ سارا خطہ مسلمانوں کو عنایت فرمایا ہے۔ اس وقت سارا عالم اسلام زخمی ہے۔ ان تمام خطوں پر دشمنوں کا نظام مسلط ہے۔ مسلم حکمران تابع مہمل بن کر دشمن کے سامنے سرنگوں ہیں۔ اصل مسئلہ غلامی ہے، یہ غلامی اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے۔

امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے اپنی تقریر کا آغاز کچھ یوں کیا کہ 
شاعر کو شکایت تھی تو اس نے کہا تھا،
قافلہ حسین میں ایک حسین بھی نہیں
(اقبال کے اس شعر کا اصل مصرع کچھ یوں ہے   قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں)
لیکن یہ جو قافلہ حسین ہے اس میں تو دو حسین ہیں، قاضی حسین اور حافظ حسین۔ صبح سے ہونے والی تقاریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ایک مقرر کے دل میں ایک حسین موجود ہے اور پکار پکار کر قافلہ حسین کو مربوط کرنے اور یکجا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ صبح سے ہونے والی تمام تقاریر میں حسینیت واضح اور دو ٹوک ہے۔

گستاخانہ فلم پر اظہار خیال کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا کہ توہین رسالت (ص) کچھ عرصہ پہلے ایک علمی موضوع تھا۔ دلیل کا جواب دلیل سے دیا جاتا تھا۔ لیکن آج صرف گستاخی اور توہین کو وطیرہ بنا لیا گیا ہے۔ جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہودی اور نصرانی نبی اکرم (ص) کے منتظر تھے، جانتے تھے کہ ایک نبی آنے والا ہے۔ نبی (ص) کی بنی اسماعیل میں بعثت پر انہیں شکوہ تھا، وہ کہتے تھے کہ نبی اسرائیل میں کیوں مبعوث نہیں ہوئے۔ اس وجہ سے چار دانگ عالم میں ان بنی اسرائیل نے توہین رسالت (ص) کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔
 
ایم ایم اے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سید منور حسن کا کہنا تھا کہ راتوں رات بننے والے اتحاد اچھے نہیں ہیں۔ راتوں رات بننے والے اتحاد کے بارے میں سولہ سال بعد پتہ چلتا ہے کہ کس نے بنائے تھے۔ اتحاد ٹوٹنے کے اسباب پتہ ہونے چاہیں۔ جس اتحاد نے کچھ عرصہ عوام کا سامنا کیا ہو، اس اتحاد کا لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ بے حال کیوں ہوا تھا۔ ٹوٹنے والے اتحاد کے حوالے سے چند سوالوں کا جواب دینا چاہیے۔ ملی یکجہتی کونسل کو زیادہ بڑے اتحاد میں تبدیل ہونا چاہیے۔ اس دوران بار ہا شرکاء کی طرف سے یہ نعرہ لگایا جاتا رہا لاشرقیہ لاغربیہ اسلامیہ اسلامیہ۔

علامہ ساجد علی نقوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ امت مسلمہ کے مسائل کا واحد حل وحدت میں پنہاں ہے۔ اتحاد امت کانفرنس کا انعقاد احسن اقدام ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے واضح اور روشن اہداف کی وجہ سے معاشرے پر مثبت اور نمایاں اثر پڑ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اتحاد امت کانفرنس انتہائی احسن اقدام ہے، امت مسلمہ کو عالمی سطح پر اور پاکستانی عوام کو ملکی سطح پر بہت سے چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں یہ کانفرنس نہایت مفید ہے، لیکن ہمیں ان کانفرنسوں سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پوری اسلامی دنیا میں پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جہاں بارہا اتحاد امت کے لئے اقدامات کئے گئے، جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ ہم نے ماضی میں شریعت بل کے نفاذ کے موقع پر اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے موقع پر اتحاد و وحدت کا عملی ثبوت دیا ہے اور ایک موقف اپنا کر امت مسلمہ کے لئے واضح پیغام اور راستہ فراہم کیا۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کے اہداف واضح اور روشن ہیں، جن میں مذہبی رواداری، موقف اور نظریے کو بیان کرنا اور اختلافی باتوں سے گریز کرنا ہے، جس کا معاشرے پر نمایاں اور مثبت اثر بھی ہو رہا ہے اور بھائی چارے کو فروغ مل رہا ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث بعض مسائل نے جنم لیا اس لئے ضروری ہے کہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔ ہمیں متحد ہوکر اور امت کو مجتمع کرکے ایک امت کے تصور کو حقیقت کا روپ دینا ہوگا، ملک میں اس طرح سے خرابیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگوں کو اعتراض تھا کہ ملک میں کسی فقہ کا اسلام نافذ ہوگا، جس کو متحدہ مجلس عمل نے ایک نقطے پر اتفاق کرکے ختم کر دیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے اور اب ان قوتوں کے پاس اعتراض کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ انہوں نے واضح طور ہر کہا کہ ملک میں سنی شیعہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، البتہ مخصوص عناصر کی پشت پناہی کی جا رہی ہے اور مخصوص گروہ فعال ہیں اور وہی کشت و خون کر رہے ہیں۔ درحقیقت یہ تمام سازشیں ملک میں اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کے خلاف اور دینی جماعتوں کو متحد نہ ہونے دینے کی مذموم کوشش ہیں۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ ہمیں دینی قوتوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے اور اگر کہیں کوئی خامی ہے تو اس کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جائے اور کوئی ایسا اقدام نہ اٹھایا جائے، جس سے کسی فقہ کی توہین ہو، البتہ علم اور تہذیب کے دائرے میں بات کرنا سب کا حق ہے، کیونکہ امت مسلمہ میں فروعی اختلافات ہیں، مگر اصولی اختلافات نہیں ہیں۔ لہذا ہمیں جزوی اور فروعی نوعیت کے معمولی اختلافات کی بجائے سینکڑوں مشترکات کو فروغ دینا ہوگا اور اس سلسلے میں ملی یکجہتی کونسل میں ایک فورم تشکیل دیا جائے، تاکہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جاسکے۔

سربراہ شیعہ علماء کونسل نے یہ بات زور دے کر کہی کہ فرقہ واریت ایسا زہر ہے جس سے توانائیاں، جدوجہد اور عمل متاثر ہوتا ہے۔ اگر غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ داروں کا راستہ روکا جائے تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ فی الحال ملک میں قانون و آئین کی عملداری نہیں، قرآن پاک کے قانون کی طرف کسی کا دھیان تک نہیں۔ کسی کو بھی ملک میں انصاف میسر نہیں، معیشت تباہ ہے، خط افلاس کا تناسب بیان نہیں کیا جاسکتا۔ وقت آگیا ہے کہ دینی جماعتوں کو بھی اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ کانفرنسیں اور مذاکرے ضرور کئے جائیں مگر اس ملک کی بگڑی ہوئی صورتحال سنوارنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کام کو آگے بڑھایا جائے اور اس پر توجہ دی جائے، یہ بنیاد اور اساس ہے، صرف نام کی یکجہتی نہیں ہونی چاہیے بلکہ عملاً بھی اس کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ حکمرانوں کے پاس پائیدار امن و امان کے لئے کوئی حل نہیں، کیونکہ ملک کے آئین و قانون کو نظر انداز کر دیا گیا۔ امت کے مسائل کا واحد وحدت و اتحاد میں مضمر و پنہاں ہے۔

حمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج پورے پاکستان کو خون میں نہلا دیا گیا ہے۔ پشاور اور کراچی میں موت کا رقص جاری ہے۔ ایک ملالہ کو رونے والے جواب دیں کہ ڈرون حملوں سے روزانہ مرنے والی ملالائوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے۔ آج نوجوانوں کو انقلاب کی راہیں دکھلائی جا رہی ہیں اور انہیں بے راہ روی کا شکار کیا جا رہا ہے۔ سید منور حسن کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئیں مل بیٹھیں اور تمام مسائل کے لئے راہ حل تلاش کریں۔ جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ ایم ایم اے کو بدحال کرنے کی اسباب آج پوچھے جا رہے ہیں۔ لیکن ملی یکجہتی کونسل کی بدحالی پر سوال اٹھائے بغیر اسے بحال کیا گیا ہے۔ آخر میں قاضی حسین احمد نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن سے اتحاد و وحدت کے لئے درخواست کی۔
خبر کا کوڈ : 211057
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش