0
Sunday 9 Dec 2012 11:29

کراچی، کالعدم فرقہ وارانہ گروپس

کراچی، کالعدم فرقہ وارانہ گروپس
رپورٹ: ایس این حسینی

گذشتہ کچھ عرصہ سے کراچی میں جاری قتل و غارتگری میں ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار مرتب کرنے والے پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے افسر ترنم خان نے کہا تھا کہ 2012ء کے ابتدائی 10 ماہ میں شہر قائد میں کم از کم 54 افراد کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کیا گیا۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ جاں بحق ہونے والے افراد میں دیوبندی اور شیعہ فرقوں کے اراکین شامل تھے۔ ذرائع ابلاغ کی خبروں میں افسر خان کے حوالے سے یہ بات بھی بتائی گئی کہ نومبر میں بھی فرقہ وارانہ تشدد بھڑک اٹھا اور کراچی میں نومبر کے پہلے دو ہفتوں میں کم از کم 40 افراد کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ اس سلسلے میں اسی شعبہ سے تعلق رکھنے والے مختلف ماہرین کے بیانات کی روشنی میں یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔
 
مذہبی عسکریت پسندی پر نگاہ رکھنے والے سلامتی کے امور کے ایک تجزیہ کار محمد رئیس کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کی انتقامی کارروائیوں کی حالیہ لہر میں دینی مدارس کے طلبہ و اساتذہ، مذہبی فرقوں کے سرگرم کارکنوں اور ہمدردوں اور پیشہ وارانہ افراد کو ہدف بنایا گیا۔ نشانہ بننے والوں کا زیادہ تعلق اہل تشیع کے مختلف طبقات اور دیوبندی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ سے ہے۔

کراچی پولیس کے جرائم کی تحقیقات کے محکمے کے عہدیدار چوہدری اسلم کا کہنا ہے کہ لشکر جھنگوی، جنداللہ سمیت دیگر کالعدم فرقہ وارانہ گروہ ایک بار پھر شہر میں سرگرم ہوگئے ہیں اور وہ کراچی میں فرقہ وارانہ تشدد کے شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ لشکر جھنگوی اور جنداللہ کے القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ روابط ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ سپاہ محمد پاکستان بھی عسکریت پسندوں کی ایک کالعدم تنظیم ہے، جو کراچی کی ہلاکتوں میں سرگرم ہے۔ 

چوہدری اسلم کا کہنا تھا کہ یہ گروپس موجودہ نسلی اور سیاسی تشدد سے فائدہ اٹھا کر ایک دوسرے کے کارکنوں اور ہمدردوں کو قتل کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لشکر جھنگوی کی باضابطہ بنیاد 1996ء میں سپاہ صحابہ پاکستان کے تین کٹر حامیوں ملک اسحاق، ریاض بسرا اور اکرم لاہوری نے رکھی تھی۔ ان تینوں کے سپاہ صحابہ پاکستان سے گروپ کے مشن پر اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ یوں انہوں نے مبینہ طور پر سپاہ صحابہ سے علیحدگی اختیار کرکے لشکر جھنگوی کے نام سے اپنی ایک علیحدہ تنظیم بنائی تھی۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس نے 13 نومبر کو لشکر جھنگوی سے تعلق کے الزام میں چار افراد کو گرفتار کر لیا تھا، جن پر شبہ ہے کہ وہ محرم سے پہلے شہر میں فرقہ وارانہ حملوں کی ایک لہر شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار ہونے والوں کے نام آصف حسین عرف ہکلا، یاسین عرف یاور، حافظ محمد مبارک عرف عمر اور حضرت علی عرف مرتضٰی ہیں۔ ان افراد نے قصبہ کالونی، اورنگی ٹاؤن، منگھو پیر، اولڈ گولیمار، تیموریہ اور شہر کے دیگر حصوں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر 15 افراد کو ہدف بنایا تھا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ وہ شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگیاں پیدا کرنے کے لیے محرم سے قبل ایک بم حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لشکر جھنگوی کے کراچی شہر میں مبینہ طور پر دو دھڑے فعال ہیں۔ ان دھڑوں کے کمانڈر آصف چھوٹو اور نعیم بخاری ہیں۔ چوہدری اسلم کا کہنا تھا کہ سی آئی ڈی نے 5 اکتوبر کو چھوٹو دھڑے کی کراچی کارروائیوں کے سربراہ محمد بابر عرف دوڑکی شاہ کو گرفتار کر لیا تھا جبکہ بخاری دھڑے کی سندھ کارروائیوں کا سربراہ حافظ قاسم رشید عرف گنجا 17 اکتوبر کو پکڑا گیا تھا۔ 

کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں جس طرح دہشتگرد تیزی سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں وہاں پولیس انکو پکڑنے میں بھی کافی سرگرم ہے۔ اس سلسلے میں پولیس کو کافی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ تاہم جسطرح تیزی سے پولیس ان افراد کو پکڑنے میں کامیابیاں حاصل کر رہی ہے، اتنی ہی تیزی سے دہشتگردی کی پشت پناہی کرنے والے اپنے ساتھیوں کو جیل سے چھڑانے میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہیں مقامی سیاسی افراد اور عدالتوں کا کافی حد تک تعاؤن حاصل ہوتا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 219425
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش