1
0
Tuesday 18 Dec 2012 23:30

ایک مرتبہ پھر شیعہ ہزارہ دہشتگردوں کے نشانے پر

ایک مرتبہ پھر شیعہ ہزارہ دہشتگردوں کے نشانے پر

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں کالعدم لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں کی فائرنگ کے دو واقعات میں محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر اور دو پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔ فائرنگ کا پہلا واقعہ سوموار کو ضلع کچہری کے قریب شاہراہِ اقبال پر اس وقت پیش آیا جب موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے ایک گاڑی پر فائرنگ کردی۔ فائرنگ سے گاڑی میں سوار محکمہ تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر ایڈمن خادم حسین نوری موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ خادم حسین نوری کا تعلق شیعہ ہزارہ برادری سے تھا۔ اس کارروائی کے بعد فرار ہونے والے حملہ آوروں کا سامنا جناح روڈ پر پولیس کی گاڑی سے ہوا اور وہاں ان کی فائرنگ سے دو پولیس اہلکار شہید اور ایک زخمی ہوگیا۔

زخمی پولیس اہلکار کو فوری طور پر سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا۔ ان ہلاکتوں کے بعد پولیس اور ایف سی نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تحقیقات شروع کردیں۔ محکمہ تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر ایڈمن خادم حسین نوری کی شہادت کی اطلاع ملتے ہی مشتعل افراد نے جنازوں کو اٹھا کر آئی جی آفس کے سامنے رکھ کر احتجاج شروع کردیا۔ اور جناح روڈ کو احتجاجاً ٹائر جلا کربلاک کردیا۔ مظاہرین نے حکومت کیخلاف شدید نعرہ بازی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ دوسری جانب مستونگ میں مسلح افراد نے این جی او کی گاڑی پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ڈرائیور زخمی ہوگیا۔ جبکہ ایف سی نے چاغی میں خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے بس اڈے سے 17 ازبک باشندوں کو گرفتار کرلیا۔

دوسری جانب بلوچستان شیعہ کانفرنس کے میڈیا سیل سے جاری بیان میں ڈائریکٹر خادم حسین نوری کے قتل کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ خادم حسین معمول کے مطابق اپنے آفس جارہے تھے کہ دہشتگردوں نے ان پر فائرنگ کردی۔ خادم حسین نوری کی شہادت سے جو معاشرے میں خلا پیدا ہوگیا ہے وہ صدیوں تک پر نہیں ہوگا۔ بیان میں کہا گیا کہ ملت تشیع کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعض عناصر نے شہر میں کشت و خون کا بازارگرم کر رکھا ہے۔ حکومت اور ادارے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی بجائے ان کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ جو قابل افسوس ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ دہشتگرد عناصر اپنی مذموم کارروائیوں کے ذریعے معاشرے میں انتشار پھیلانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ جنہیں عوام کو متحد ہوکر ناکام بنانا ہوگا۔ بیان میں وفاقی و صوبائی حکومت اور سیکورٹی اداروں سے مطالبہ کیا گیا کہ ان تنظیموں کیخلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔

محب وطن ملت تشیعُ کی ٹارگٹ کلنگ کیخلاف گزشتہ دونوں کراچی میں بھی دھرنا دیا گیا۔ جس میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اتنے جنازے اٹھانے کے باوجود مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے افراد شہر کے امن و امان کو خراب کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن حکومت سمیت تمام تر ریاستی ادارے کراچی اور کوئٹہ میں شیعہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کو رکوانے میں ناکام ہیں۔ صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران دہشتگردوں کی کارروائیوں میں کافی حد تک تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ کوئٹہ جیسے چھوٹے سے شہر کے مرکزی علاقوں قند ہاری بازار اور کچہری روڈ جہاں قدم قدم پر پولیس اور ایف سی کی سکیورٹی چیک پوسٹ قائم ہیں اور جہاں صوبائی اسمبلی، ہائیکورٹ، کچہری اور گورنر ہاوس جیسے کئی اہم سرکاری دفاتر اور اداروں کی عمارتیں واقع ہیں، وہاں تکفیری دہشت گرد بڑے اطمینان کے ساتھ کارروائی کر کے باآسانی پیدل فرار ہو جاتے ہیں۔ ‎ 

شیعہ ہزارہ کے سرکاری افسر، تاجر، طلباء سمیت ہر طبقے کو ان کے علاقوں تک محدود کردیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ شیعہ ہزارہ کا مقتل بن چکا ہے۔ گذشتہ ساڑھے چار سال میں شیعہ ہزارہ کے پانچ سو سے زائد افراد کو قتل کیا جا چکا ہے اور تین ہزار سے زائد ہزارہ نوجوان بوڑھے اور بچے دہشت گردوں کے حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ہزار سے زائد ایسے نوجوان بھی ہیں جو حالات سے تنگ آ کر یورپ ہجرت کرنے کی کوششوں میں راستے میں جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ہزارہ طلباء سہمے اور خوف زدہ ہیں۔ کشیدہ صورتحال نے بہت سے طالب علموں کو تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور کردیا ہے۔ کوئٹہ کی بڑی جامعات میں جہاں پہلے شیعہ ہزارہ طلبہ کی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی تھی اب وہ خال خال نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو ہزارہ برادری کے خلاف تشدد کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا اور دوسری طرف صوبے میں سرکار کہیں نظر نہیں آتی۔

رونا تو اس بات کا بھی ہے کہ کوئٹہ میں رہنے والے اہل تشیع سرکاری آفسر سمیت دیگر افراد کو خود حکومت کہتی ہے کہ آپ صرف ایک مخصوص راستے سے اپنے دفاتر کو جایا کریں۔ لیکن وہی حکومت اتنا نہیں کرسکتی کہ چند مٹھی بھر دہشتگردوں کیخلاف ٹارگٹڈ آپریشن کرے۔ آئے روز کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ جنازے اٹھا رہے ہیں۔ جس سے نوجوانوں میں کافی حد تک ذہنی انتشار پیدا ہو رہا ہے۔ حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں کو اس بات سے غافل نہیں ہونا چاہیئے کہ اگر یہ سلسلہ ایسا ہی جاری رہا تو کہیں مستقبل قریب میں شیعہ ہزارہ کے نوجوان خود انتقامی کارروائی پر نہ اتر آئیں، اور کوئٹہ میں رہنے والی دیگر اقوام کو بھی دہشتگردی کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر یہ آگ کسی جگہ بھی لگی تو یہ پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

خبر کا کوڈ : 222355
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
salam
plz update the issue of gilgit
ہماری پیشکش