0
Friday 7 Dec 2012 19:51

مسئلہ بلوچستان اور سپریم کورٹ کے احکامات

مسئلہ بلوچستان اور سپریم کورٹ کے احکامات

کوئٹہ چیف آف سراوان وزیراعلٰی بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے ان تمام افراد کو جو بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کو مسلسل ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں چیلنج کیا ہے کہ وہ آئیں اور یہاں کے حالات ٹھیک کریں، وہ اپنی کرسی اور اختیارات انہیں تین ماہ کیلئے دینے اور خود گھر جانے کیلئے تیار ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے منگل کے روز شام کو منعقد ہونے والے اجلاس میں امن و امان کی صورتحال پر پیش کی گئی قرارداد پر جاری بحث کے دوران پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلٰی نے کہا کہ اس وقت پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہے، جبکہ بلوچستان میں دیگر صوبوں کی نسبت امن و امان کی صورتحال بہتر ہے، لیکن بعض عناصر نے بلوچستان کو ہدف تنقید بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں چیلنج کرتا ہوں کوئی آئے اور صوبے کی امن و امان کی صورتحال بہتر بنائے، میں تین ماہ کیلئے انہیں اپنے اختیارات دینے کیلئے تیار ہوں اور خود گھر جانے کیلئے بھی میں تیار ہوں۔

وزیراعلٰی بلوچستان کا یہ بیان کسی مذاق سے کم نہیں کہ بلوچستان میں حالات قدرے بہتر ہیں۔ پچھلے 5 سالوں سے جتنی قتل و غارت گری ان کے دور میں ہوئی شائد ہی کسی حکومتی ادوار میں ہوئی ہو۔ ذہنی و اخلاقی لحاظ سے مفلوج صوبائی حکومت کو کوئٹہ میں جاری شیعہ ہزارہ قوم کی نسل کشی شائد دکھائی نہیں دیتی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے بلوچستان امن و امان کیس میں عبوری حکم میں کہا ہے کہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے دکھ روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ جان و مال کے تحفظ میں ناکامی پر ذمہ دار قانون کی گرفت میں آئیں گے، سپریم کورٹ نے حکم میں کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ناکامی پر وقت لے رہا ہے تو یہ اس کے رسک پر ہو رہا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوگئی ہیں۔
 
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے بلوچستان اسمبلی کو نہیں صوبائی حکومت کو ناکام قرار دیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی سپریم کورٹ کے حکم پر عملدر آمد کرائے۔ دوران سماعت چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ بلوچستان پر جو حکومت کر رہا ہے وہ اپنے رسک پر کر رہا ہے، بلوچستان حکومت آئینی اختیار کھوچکی ہے۔ جب تک حکومت مخلص نہیں ہوگی، حالات اچھے نہیں ہو سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان حکومت کے پاس کوئی آئینی اختیار نہیں ہے۔ وزیراعلٰی بلوچستان اغواء اور ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کریں، صرف پولیس پر ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی۔ اِس پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ عدالت کہتی ہے تو کل استعفٰی دے دیتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں نہیں پتہ کہ آپ نے کیا کرنا ہے، آئین پڑھیں اور فیصلہ پڑھیں۔

بلوچستان حکومت کے وکیل شاہد حامد نے درخواست کی کہ عدالت ڈاکٹروں سے کہے کہ وہ ہڑتال ختم کر دیں، اِس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کیوں حکم دیں، آپ ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کریں۔ پی ایم اے بلوچستان کے صدر کا موقف تھا کہ گورنر سے ملاقات کی تھی، جان کا خطرہ ہے کیسے ڈیوٹی کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبائی حکومت نے عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کی، چیف منسٹر اغواء اور ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کریں، کتنے لوگوں کی زندگیاں چلی گئیں، کون ذمہ دار ہے، اگر کوئی بغیر اتھارٹی کام کر رہا ہے تو اس کو ذمہ داری لینا ہوگی۔ جب لوگوں کا تحفظ نہیں کرسکتے تو حکومت میں کیوں بیٹھے ہیں؟ ڈاکٹر سعید کو کیسے بازیاب کرایا گیا، یہ کھلا راز ہے۔ شیعہ کمیونٹی، پولیس اور ایف سی کا کیا قصور ہے۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ پچھتر سے زائد سماعتیں ہوئیں، کوئی بہتری نہیں آئی۔ کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پتہ نہیں کہ اغواء کار کون ہیں، ملزم نہیں پکڑے جاتے، کیوں کہ وہ بااثر اور طاقتور ہیں، جب تک حکومت مخلص نہ ہو حالات نہیں بدلیں گے۔ بلوچستان حکومت ڈھیٹ بنی ہے۔ آئینی اختیار کھونے کے بعد اگر کوئی کام کر رہا ہے تو اسے ذمہ داری بھی لینا ہوگی۔ حکومت سے زیادہ انسانی جان قیمتی ہوتی ہے۔ کوئی بڑا ہے یا چھوٹا کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے۔ ڈاکٹر جانوں پر کھیل کر ڈیوٹیاں دے رہے ہیں، حکومت کو کچھ پتہ نہیں۔ ڈاکٹروں کے نمائندے کا کہنا تھا کہ گورنر نے کہا تھا کہ اسمبلیوں میں چور بیٹھے ہیں۔ اس بیان پر حکومت بلوچستان کے وکیل شاہد حامد نے کہا یہ الفاظ حذف کیے جائیں۔ گورنر نے ایسی کوئی بات نہیں کہی، میڈیا کو یہ بات کرنے سے روکا جائے۔ عدالت نے بیان حذف کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان حکومت آئینی اختیار کھوچکی ہے۔ بلوچستان میں ڈاکٹر وہ کام کریں، جس کی قانون اجازت دیتا ہے۔ کوئی بڑا ہے یا چھوٹا قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے۔ ڈاکٹروں کے نمائندے نے عدالت میں شکوہ کیا کہ ہمیں جان کا خطرہ ہے، کیسے ڈیوٹی کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں اغوا اور قتل و غارت جاری ہے۔ دوبارہ کوئٹہ جائیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا فرق پڑا ہے۔ حکومت کو پتہ ہی نہیں۔ 26 ڈاکٹر ہلاک ہوئے، کسی ایک کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے۔ کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے نہیں جانتے قاتل کون ہیں؟ آپ ملزم نہیں پکڑتے کیونکہ وہ وزیر ہیں اور بااثر ہیں۔ 75 سے زیادہ سماعتیں کرچکے ہیں، مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ڈاکٹر سعید رہا ہوا، وہ بھی تاوان کی ادائیگی کے بعد۔ کیا اغواء کار اتنے طاقتور ہیں۔؟

ڈاکٹروں کے نمائندے نے کہا کہ اغواء کار واقعی طاقتور ہیں، پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کا احترام ہے مگر لاپتہ افراد کا کیا کریں؟ فیصلے پر نظرثانی درخواست کیلئے مزید وقت دے سکتے ہیں، مگر بلوچستان حکومت کی عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی پر کیا کریں؟ لاپتہ افراد کی زندگی کی خاطر صوبائی حکومت کے خلاف مزید کارروائی نہیں کی۔ چیف سیکرٹری بلوچستان نے کہا کہ خضدار میں حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ ہمارا ملک ہے، اس کی باگ ڈور کریمنلز کے ہاتھ میں نہیں دینی۔ ہم نہیں چاہتے کہ جمہوری عمل ڈی ریل ہو۔ اسمبلی کو سلام کرنے سے مسئلہ حل ہوتا ہے تو دن میں 3 مرتبہ سلام کر دیتے ہیں۔ ارکان اسمبلی کی عزت کرتے ہیں، ان لوگوں کا کیا کریں جن کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، کس کو کہیں، جسے کہنا ہے وہ ڈلیور ہی نہیں کرتے۔ 

3 بار سلام کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ اسمبلی کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ بلوچستان سے متعلق حکومت کی رپورٹ میں کچھ نہیں ہے۔ رپورٹ ایسے ہی ہے کہ صبح گھر سے چلا گیا تھا شام کو واپس آگیا ہوں۔ گزشتہ سماعت میں کہا تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کروائیں۔ حالات پہلے سے بدتر ہوگئے ہیں۔ 13 بچیاں ونی کر دی گئیں، ہوم سیکرٹری سے کہا کہ انہیں لائیں۔ اسلم رئیسانی کا بھتیجا قتل ہوا، اس بارے میں رپورٹ میں ایک لفظ بھی نہیں۔ لوگوں کے حقوق کا تحفظ نہیں ہو رہا، وفاق و صوبائی حکومتیں ذمے دار ہیں۔ سندھ میں کہتے ہیں سب ٹھیک ہے، اگلے روز 10 لاشیں گری ہوتی ہیں۔ معاملات جس حد تک چلے گئے ہیں، بلوچستان مشکل میں پھنس گیا ہے، حکومت نے عدالت کے تحمل کو بہت ٹیسٹ کیا ہے۔ 

جسٹس گلزار نے ریمارکس دئیے کہ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا، رحمان ملک نے بریفنگ دینی تھی۔ ایم پی ایز دور دور سے آئے ہوں گے، وسائل خرچ کیے ہوں گے۔ رحمان ملک لفٹ رائٹ کرگئے اور انعام دینے چترال چلے گئے۔ بلوچستان حکومت کے وکیل نے استدعا کی کہ بلوچستان کیس کی سماعت 4 ہفتے کے لئے ملتوی کی جائے، اس پر چیف جسٹس نے کہا، تاکہ اس دوران لوگ مرتے رہیں۔ دیکھتے نہیں کہ ہمارے حکم کی کس طرح خلاف ورزی کی گئی۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ ڈاکٹر سعید کے اغواء کاروں کا پتہ دینے والوں کے لئے اڑھائی لاکھ رکھے گئے تھے، یہ رقم کس کو دی؟ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ وہ رقم کسی کو نہیں دی گئی۔ ڈاکٹر سعید 45 دن تک اغواء رہے۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان کو اسلحہ سے پاک کرنے کے اقدامات نہیں کئے گئے۔ ایف سی والے اغواء کی وارداتوں میں ملوث رہے۔ کتنے آدمی ایف سی کے قلعے میں موجود ہیں۔ سپریم کورٹ نے بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لئے ملتوی کر دی۔ عدالت نے ایف بی آر کو غیر رجسٹرڈ، نان کسٹمز پیڈ گاڑیاں پکڑنے کے لئے کوششیں تیز کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پورے بلوچستان میں کابلی گاڑیاں دندناتی پھر رہی ہیں۔ وکیل ایف بی آر نے کہا کہ پچھلے چار ماہ میں 626 گاڑیاں، موٹر سائیکلیں قبضے میں لی گئیں۔ بڑے بڑے سرداروں نے ایسی گاڑیاں اپنے گوداموں میں چھپا لیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ کلیکٹر کہیں وہ جا کر ایسی گاڑیاں تلاش کریں، اگر آپ سڑک پر گاڑی نہیں پکڑ سکتے تو سمگلنگ کیسے پکڑیں گے۔ ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ جو گاڑیاں بلوچستان سے دوسرے صوبوں کو بھجوائی گئیں ان کا ریکارڈ بھی لے لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کرپشن ہر جگہ پہنچ گئی ہے، پکڑی ہوئی گاڑیاں پیسے دے کر چھڑا لی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں بدامنی اور جرائم میں کابلی گاڑیوں کا کردار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کا کام صوبے میں امن و امان قائم کرنا اور عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان حکومت اپنے بنیادی کام میں ناکام نظر آ رہی ہے، سپریم کورٹ نے بلوچستان کے بارے میں فیصلہ بھی دے رکھا ہے کہ امن قائم نہیں کرسکتی تو اقتدار سے الگ ہو جائے، لیکن اس فیصلے کے باوجود وزیراعلٰی اور انکی کابینہ اقتدار سے چمٹی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے گزشتہ روز بھی بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا تھا کہ بلوچستان حکومت اپنی آئینی حیثیت کھوچکی ہے، اسکے باوجود وزیراعلٰی بلوچستان ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ اب تو وہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ بلوچستان میں امن قائم کرنا انکے بس میں نہیں، اس لئے اب انکے اقتدار کا کیا جواز باقی رہا ہے۔؟ 

انہوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری وزیراعلٰی رئیسانی کے اس سوال کا جواب دیں کہ امن کیسے قائم ہوسکتا ہے۔ اگر موجودہ حکومت کے پاس اس کا کوئی حل نہیں تو کسی اور کو موقع دینا چاہیے، تاکہ بلوچستان میں امن قائم کیا جا سکے۔ بلوچستان میں ڈاکٹر بھی اپنی جانوں کی امان کیلئے سپریم کورٹ جا پہنچے ہیں۔ ہر کوئی امن کی تلاش میں ہے، لیکن حکمران طبقہ اسکے اسباب تلاش کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بلوچستان میں امن قائم کرنے کے فوری عملی اقدامات کرے یا کسی اور کو موقع دیا جائے، تاکہ وہاں عوام کو جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

خبر کا کوڈ : 218577
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش