0
Thursday 20 Dec 2012 23:24

صوبہ بلوچستان، آئینی بحران میں شدت

صوبہ بلوچستان، آئینی بحران میں شدت

بلوچستان اسمبلی کے 22 ارکان نے صوبائی اسمبلی کے اسپیکر اور مسلم لیگ ق کے رہنماء اسلم بھوتانی کی برطرفی کیلئے قرارداد بدھ کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کر دی۔ قرارداد جمعیت علماء اسلام کے صوبائی پارلیمانی لیڈر اور سینئر صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع کی جانب سے جمعیت علماء اسلام کے صوبائی وزیر صحت مولانا عین اللہ شمس نے ایوان میں پیش کی۔ جس پر چھبیس ستمبر کو رائے شماری کی جائیگی، تفصیلات کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بدھ کو چار بجے کی بجائے شام ساڑھے چھ بجے ڈپٹی اسپیکر سید مطیع اللہ آغا کی صدارت میں شرو ع ہوا تو تحریری طور پر بائیس ارکان نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی جن کا تعلق مسلم لیگ ق سے ہے کی برطرفی کیلئے ایوان میں قرار داد پیش کی۔

قرارداد جو صوبائی وزیر صحت عین اللہ شمس نے ایوان میں پڑھ کر سنائی اس کا متن مندرجہ ذیل ہے کہ ’’ہم زیر دستخطی اراکین بلوچستان صوبائی اسمبلی آئین پاکستان کے آرٹیکل 53 کی ضمن 7کی پیراگراف (ج) جسے آئین کے آرٹیکل 127 کے ساتھ پڑھا جائے کے تحت محمد اسلم بھوتانی اسپیکر بلوچستان اسمبلی کو ان کے عہدہ اسپیکر شپ سے ان کے عہدہ کے حلف کے تقاضوں کے برخلاف رویہ اور ماورائے ضوابط کے ارتکاب پر عہدہ اسپیکر شپ سے برطرفی کی قرار داد پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں‘‘ جن ارکان نے برطرفی کی قرار داد پر دستخط کئے۔ ان میں بلوچستان مسلم لیگ ق کے پارلیمانی لیڈر صوبائی وزیر خزانہ میر عاصم کرد گیلو، بی این پی عوامی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر صوبائی وزیر صنعت سید احسان شاہ، بی این پی عوامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل صوبائی وزیر زراعت اسد اللہ بلوچ، آزاد رکن اسمبلی صوبائی وزیر معدنیات میر عبدالرحمان مینگل شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر ریونیو انجینئر زمرک خان اچکزئی، پیپلز پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر مواصلات علی مدد جتک، آزاد رکن اسمبلی صوبائی وزیر کھیل میر شاہنواز مری، جمعیت علماء اسلام کے صوبائی وزیر حاجی محمد نواز، پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر کوالٹی ایجوکیشن جعفر جارج، صوبائی وزیر تعمیرات آغا عرفان کریم، صوبائی وزیر صحت عین اللہ شمس، صوبائی وزیر لیبر مولوی محمد سرور، صوبائی وزیر جنگلات عبدالصمد اخوندزادہ، صوبائی وزیر خوراک اسفند یار کاکڑ، مسلم لیگ ق کے صوبائی وزیر سردار مسعود لونی، وزیر اعلیٰ کی مشیر زرینہ زہری، وزیراعلیٰ بلوچستان کی مشیر ڈاکٹر فوزیہ مری، صوبائی وزیر بابو رحیم مینگل، وزیر اعلیٰ کی مشیر حسن بانو، صوبائی وزیر غزالہ گولہ، رکن صوبائی اسمبلی غلام جان بلوچ اور صوبائی وزیر ملک محمد سلطان ترین کے نام بھی قرار دادا پیش کرنے والوں میں شامل ہیں۔ 

اسپیکر کیخلاف برطرفی کی قرار داد پیش ہونے کے بعد صوبائی وزراء سردار اسلم بزنجو اور ظہور بلیدی اجلاس میں کچھ بولنا چاہتے تھے مگر ڈپٹی اسپیکر نے انہیں بولنے کی اجازت نہیں دی۔ اس موقع پر قائم مقام اسپیکر نے رولنگ دی کہ تحریک موصول ہوچکی ہے اس پر مزید کارروائی 26 دسمبر کو ہوگی۔ عدم اعتماد کی تحریک لائے جانے کیخلاف اسلم بزنجو اور ظہور بلیدی نے ایوان سے واک آﺅٹ کیا۔ واضح رہے کہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی اس وقت بیرون ملک ہیں، انہوں نے اسمبلی اجلاس کی صدارت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسمبلی کا اجلاس اور اس کی صدارت آئین اور قانون کے خلاف ہو گی۔ صوبائی وزیر صحت بلوچستان کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے لئے ہمیں مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے بتایا کہ آزاد ارکان نے کہا ہے کہ وہ اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ تاہم آزاد ارکان اسمبلی میں نئے اسپیکر کے انتخاب کیلئے ووٹ ضرور ڈالیں گے۔
 
نجی ٹی وی کے مطابق اسپیکر بلوچستان اسلم بھوتانی کا کہنا تھا کہ اسپیکر شپ بچانے کے لئے عدلیہ کے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ اپنا دفاع کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ موقف سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ آئین کی پاسداری اور عدالتی فیصلوں کا احترام کرتا رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنے والوں کا شکرگزار ہوں میں نے ہمیشہ ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دئیے۔
نجی ٹی وی کے مطابق جے یو آئی کے مطیع اللہ آغا کا نام اسپیکر کے لئے زیرغور ہے۔ 

ادھر سیکرٹری بلوچستان اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کے طریقہ کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کسی نے میری نہیں سنی جبکہ جمعیت علماء اسلام کے پارلیمانی لیڈر و سینئر صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ آئین کے مطابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا رہے ہیں اگر وہ عدالت جانا چاہیں بھی تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انجینئر زمرک خان اچکزئی نے اسپیکر کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو ارکان کا آئینی حق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلم بھوتانی کسی اور کے کہنے پر حکومت کیخلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر میر علی مدد جتک نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت کے خلاف سازشوں کی پاداش میں اسپیکر کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکرٹری اسمبلی سرکاری ملازم ہونے کی حیثیت سے پریس کانفرنس نہیں کر سکتا، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ صوبائی اسمبلی کا اجلاس (کل) جمعہ کو دن گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

خبر کا کوڈ : 223083
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش