0
Sunday 20 Jun 2010 08:04

کراچی سٹی کورٹ میں دستی بموں سے حملہ اور فائرنگ،حملہ آور 4 خطرناک دہشت گرد چھڑا کر لے گئے

کراچی سٹی کورٹ میں دستی بموں سے حملہ اور فائرنگ،حملہ آور 4 خطرناک دہشت گرد چھڑا کر لے گئے
کراچی:اسلام ٹائمز-جنگ نیوز کے مطابق سٹی کورٹ میں دستی بموں سے حملے اور فائرنگ کے بعد حملہ آور،کالعدم تنظیم کے دہشت گردوں کو چھڑا کر لے گئے،دستی بموں کے دھماکوں اور شدید فائرنگ سے سٹی کورٹ میں بھگدڑ مچ گئی،فائرنگ سے دہشت گردوں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار جاں بحق ہو گیا اور فرار ہونے والا ایک ملزم دستی بم پھٹنے سے ہلاک ہو گیا۔فرار ہونے والے دو ملزمان زخمی حالت میں فرار ہوئے ہیں،دستی بم کے دھماکوں سے سٹی کورٹ آئے ہوئے 3 افراد بھی زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق سٹی کورٹ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سینٹرل کی عدالت میں پیشی پر لائے جانے والے کالعدم جند الله کے دہشت گردوں شاہ مراد،وزیر،شکیب فاروقی اور مرتضیٰ کو پیشی کے بعد عدالت کے باہر مسجد بلال کے سامنے بٹھایا گیا تھا کہ اس دوران مسجد کے راستے سے حملہ آور سٹی کورٹ میں داخل ہوئے اور 3دستی بموں سے پولیس پر حملہ کر دیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس اہلکاروں نے ملزمان پر جوابی فائرنگ کی،تاہم ملزمان فائرنگ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر جوڑیا بازار کی جانب فرار ہو گئے، ملزمان کی فائرنگ سے کورٹ پولیس کا اہلکار محمد شہباز ولد غلام رسول جاں بحق ہو گیا جبکہ سٹی کورٹ آئے ہوئے 3 افراد سرفراز حسین،عثمان اور عبدالکلام زخمی ہو گئے۔فائرنگ اور دھماکوں سے مسجد بلال کے شیشے ٹوٹ گئے اور دیوار کا پلاسٹر اکھڑ گیا۔سٹی کورٹ کے اندر کھڑی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور گولیاں لگنے سے بھی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ملزمان کے فرار ہونے کے بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے سٹی کورٹ کے اطراف سیکیورٹی اقدامات سخت کر دییے اور جوڑیا بازار جانے والے راستے کا محاصرہ کر لیا۔
پولیس کے مطابق پولیس کانسٹیبل عمران ناظر اور کانسٹیبل شہباز کالعدم جند الله کے ملزمان کو پیشی کے لیے سٹی کورٹ کے ساوٴتھ بلاک میں عدالت نمبر 5 لے کر آئے،جہاں سے پیشی کے بعد ملزمان کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سینٹرل کی عدالت میں پیشی کے لیے پہنچے اور پیشی کے بعد عدالت کے باہر بٹھایا ہوا تھا کہ ملزمان کے ساتھیوں نے دستی بموں سے حملہ کر دیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس نے بتایا کہ دہشت گرد اپنے ساتھیوں کو پولیس کی حراست سے چھڑا کر جوڑیا بازار اور ایم اے جناح روڈ کی جانب فرار ہو گئے۔ پولیس نے ملزمان کا تعاقب شروع کر دیا اس دوران رسالہ تھانے کی حدود محمدی مسجد نواب بیکری کے قریب فرار ہونے والے ملزمان اور پولیس کے درمیان ایک مرتبہ پھر فائرنگ کا تبادلہ ہو گیا۔اس دوران عدالت سے فرار ہونے والے ایک ملزم شاہ مراد نے پولیس پر دستی بم سے حملہ کرنے کی کوشش کی،تاہم بم اس کے ہاتھوں میں ہی پھٹ گیا،جس کے نتیجے میں ملزم شاہ مراد موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دو ملزمان زخمی حالت میں فرار ہوئے ہیں،جن کی تلاش کے لیے شہر بھر کے اسپتالوں میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ہلاک ہونے والے دہشت گرد کے قبضے سے ایک دستی بم بھی ملا ہے،جو پھٹ نہیں سکا،جسے پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
پولیس کے مطابق سٹی کورٹ سے پولیس کو ملزمان کا ایک نائن ایم ایم پستول اور ایک موبائل فون بھی ملا ہے،جسے پولیس نے تحویل میں لے کر اس پر کی جانے والی کالز کی تفصیلات جمع کرنا شروع کر دی ہیں،اس سلسلے میں ڈی آئی جی ساوٴتھ اقبال محمود نے صحافیوں کو بتایا کہ کالعدم جندا لله کے دہشت گردوں کی عدالت میں پیشی سے متعلق جیل انتظامیہ نے پہلے سے آگاہ نہیں کیا تھا،جس کی وجہ سے سٹی کورٹ میں سیکیورٹی کے انتظامات نہیں کیے جا سکے۔انھوں نے بتایا کہ اس بات کی بھی تحقیقات کی جائے گی کہ جیل انتظامیہ نے اتنے خطرناک ملزمان کے بارے میں اطلاع کیوں نہیں دی۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان سٹی کورٹ کے ساوٴتھ اور سینٹرل بلاک کے دروازوں سے داخل ہوئے تھے جبکہ ان کے چند ساتھی پہلے سے ہی سٹی کورٹ کے اندر موجود تھے۔پولیس کا خیال ہے کہ ملزمان کی تعداد 5تھی،ہلاک ہونے والے دہشت گرد اور زخمیوں کو سول اسپتال پہنچائے جانے کے بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے سول اسپتال میں سیکیورٹی کے اقدامات سخت کر دییے،سول اسپتال کے تمام گیٹ بند کر دیئے گئے اور اسپتال کی ایمرجنسی سے تمام افراد کو باہر نکال دیا گیا۔پولیس کے مطابق دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والا پولیس اہلکار محمد شہباز کورٹ پولیس میں تعینات تھا اور اس کا آبائی تعلق بہاولپور سے تھا۔سٹی کورٹ دھماکے میں زخمی ہونے والے سرفراز کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ 
دریں اثناء وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے سٹی کورٹ کے واقعے کاسخت نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او کراچی وسیم احمد سے فوری رپورٹ طلب کی ہے۔انہوں نے واقعے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قیدیوں کی عدالتوں میں پیشی کے سلسلے میں فول پروف سکیورٹی انتظامات یقینی بنانے ہدایت کی ہے۔وزیراعلیٰ نے غفلت کامظاہرہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم بھی دیا۔
اسلام آباد سے نمائندہ جنگ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے سٹی کورٹ واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔رحمن ملک نے ڈی جی رینجرز سندھ اور سی سی پی او کراچی سے رابطہ کیا اور سٹی کورٹ کا علاقہ سیل کرنے اور علاقے کی فضائی نگرانی کا حکم دیا۔
کراچی،سٹی کورٹ پر راکٹوں،بموں سے حملہ،جنداللہ کے تین ملزم رہا کرا لئے،ایک مارا گیا،پولیس اہلکار جاں بحق 
وقت نیوز کے مطابق سٹی کورٹ کراچی کے لاک اپ پر مسلح افراد دستی بموں،راکٹ لانچروں سے حملہ کر کے کالعدم تنظیم جنداللہ کے 3 گرفتار ساتھیوں کو چھڑانے میں کامیاب رہے جبکہ چوتھا فرار ہوتے ہوئے پولیس فائرنگ سے مارا گیا،حملہ آوروں کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار جاں بحق، 3 زخمی ہو گئے۔وفاقی و صوبائی وزرائے داخلہ نے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ سندھ حکومت نے ملزموں کی گرفتاری کے لئے 10، 10 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔ وکلا نے ملزموں کی گرفتاریوں تک ہڑتال کا اعلان اور وزیر داخلہ سندھ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
 اے این این کے مطابق ہفتے کی سہ پہر چار حملہ آوروں نے پولیس لاک اپ پر اس وقت حملہ کیا،جب کالعدم تنظیم جنداللہ کے چار زیر حراست ملزمان مراد شاہ،محمد وزیر،مرتضی عنایت اور شکیب فاروقی کو سیشن جج کی عدالت میں پیشی کے بعد لاک اپ لایا گیا تھا۔گرفتار ملزمان کی سکیورٹی پر مامور دونوں پولیس اہلکاروں نے چاروں ملزمان کو ایک ہی زنجیر میں جکڑ رکھا تھا۔دہشت گردوں نے پہلے لاک اپ کے قریب تین دستی بم پھینکے،جس کے بعد اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی،جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار محمد شہباز جاں بحق ہو گیا جبکہ ایک اہلکار سرفراز زخمی ہو گیا، ملزمان فرار ہو کر قریبی جوڑیا بازار میں گھس گئے،جہاں ایک اور پولیس پارٹی نے انہیں روکا دوطرفہ فائرنگ کے تبادلے میں دو پولیس اہلکار عثمان اور ابوالکلام زخمی ہو گئے،جبکہ ایک ملزم پولیس کی فائرنگ سے ہلاک دو ملزمان زخمی ہوئے،جو ایک موٹر سائیکل چھین کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔مارے جانے والے دہشت گرد کی سول ہسپتال میں شناخت پہلے سے گرفتار ملزم مراد شاہ کے نام سے ہوئی۔
پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور تمام داخلی و خارجی راستوں کی ناکہ بندی کر کے ملزمان کی تلاش شروع کر دی۔علاقے کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی،تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔واقعہ کے بعد تمام بازار بند ہو گئے۔سول ہسپتال میں سرفراز اور عثمان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔فائرنگ کے دوران لوگوں نے دکانوں کے شٹر بند کر کے اور سٹی کورٹس کی عمارت میں چھپ کر جانیں بچائیں۔
ڈی آئی جی ساﺅتھ اقبال محمود نے جائے وقوعہ کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گرفتار ملزمان کا تعلق جنداللہ تنظیم سے تھا اور مارے جانے والے مبینہ دہشت گرد کی شناخت کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا حملہ آور تین سے چار تھے۔ سی سی پی او کراچی وسیم احمد نے کہا پہلے سے گرفتار ملزمان کا تعلق جنداللہ سے ہے جو یوم عاشورہ کے موقع پر بم دھماکے کے الزام میں گرفتار کئے گئے تھے۔انہوں نے کہا وزیر داخلہ نے ملزمان کی گرفتاری کیلئے 10،10 لاکھ روپے انعام مقرر کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام زخمی ملزمان پر نظر رکھیں اور اگر وہ کسی ہسپتال میں علاج کرانے جائیں تو پولیس کو اطلاع دی جائے ہم ملزمان کو جلد گرفتار کر لیں گے۔
 انہوں نے کہا کہ نئی عدالتی پالیسی کے تحت سپریم کورٹ نے حکم دے رکھا ہے کہ مقدمات کی سماعت کے دوران 100 فیصد ملزمان کو ٹرائل کورٹس میں پیش کیا جائے۔جبکہ عدالتوں میں 25 فیصد ملزمان کا معائنہ ہوتا ہے،جبکہ 75 فیصد ایسے ہی واپس چلے جاتے ہیں ہمارے پاس پولیس کی اتنی نفری نہیں کہ ہر ملزم کے ساتھ ایک اہلکار کو تعینات کیا جائے،پولیس نے ملزمان کو ڈبل ہتھکڑیاں لگا رکھی تھیں۔انہوں نے کہا وکلا کو ہڑتال کی کال نہیں دینی چاہئے،اس سے پولیس کیلئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور دہشت گردوں کو تقویت ملتی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے واقعے کے بعد صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا اور ڈی جی رینجرز سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور واقعے کی تفصیلات سے آگاہی حاصل کرنے کے علاوہ ان سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے سی سی پی او کراچی وسیم احمد کو بھی فوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

خبر کا کوڈ : 28762
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش