0
Thursday 8 Aug 2013 04:06

نواز حکومت کے پہلے 2 ماہ، دہشتگردی کے 55 سے زائد واقعات، حکومتی اقدامات صفر، وزراء کی زبانیں گنگ

نواز حکومت کے پہلے 2 ماہ، دہشتگردی کے 55 سے زائد واقعات، حکومتی اقدامات صفر، وزراء کی زبانیں گنگ
تحریر: این اے بلوچ

نئی حکومت برسراقتدار آئی تو سب نے امیدیں وابستہ کرلیں تھیں کہ عوام کے مسائل حل ہوں گے اور دہشتگردی کے عفریت سے قوم کی جان چھوٹ جائیگی، کیونکہ بجلی جاتی ہے تو واپس آجاتی ہے لیکن جو جان ایک بار چلی جائے وہ موڑ کر نہیں آتی، آسمان سے باتیں کرتیں اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں، بجھتے چولہے، مایوسی کی دلدل میں پھنسے عوام جہاں غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، وہیں اب ان کیلئے جان کی امان پانا ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ کے پہلے دو ماہ نے ثابت کر دیا ہے کہ میاں صاحب گذشتہ پانچ برس میں صرف زرداری حکومت پر تنقید ہی کرتے رہے، اس دوران انہوں نے عوام کے مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی ایسا پلان نہیں بنایا جو ان کی مشکلات میں کمی لاسکے۔ وہ الیکشن سے قبل ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے حوالے پلان بنانے کی باتیں تو بہت کرتے رہے ہیں، لیکن اب عملی میدان میں ان کی کارکردگی کا سارا پول کھل گیا ہے۔

نواز حکومت کے پہلے دو ماہ کے دوران ہونے والے واقعات پر ایک سرسری نظر
6 جون:
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں دو خواتین اور ایک بچے سمیت پانچ افراد سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا گیا۔ اس واقعہ میں پندرہ اہلکار زخمی ہوئے۔
15 جون:
شہر کوئٹہ میں بس دھماکے میں چودہ طالبات شہید ہوئیں جبکہ 10افراد زخمی ہوئے۔
18 جون:
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں نماز جنازہ میں خودکش دھماکہ ہوا، جس میں ایک ممبر صوبائی اسمبلی سمیت 28 بےگناہ لوگوں کی جان چلی گئی، اس واقعہ میں 61 افراد زخمی ہوئے۔
21 جون:
صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں جی ٹی روڈ پر واقع جامعہ شہید عارف الحسینی کی مسجد میں ایک خودکش دھماکہ ہوا جس میں چودہ افراد نے جام شہادت نوش کیا جبکہ انتیس زخمی ہوگئے۔
 23 جون:
نانگا پربت بیس کیمپ کے ایک ہوٹل میں دہشتگردوں نے نو غیر ملکی کوہ پیماوں سمیت دس افراد کو ہلاک کر دیا۔ دسویں شخص کے جاں بحق ہونے کی وجہ اسکا شیعہ ہونا بنی۔
26 جون:
پاکستان کے چار شہروں بنوں، پشاور، آواران اور کراچی میں شدت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں دس سکیورٹی اہلکاروں سمیت چودہ افراد شہید ہوئے، جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے ایک سینیئر جج جسٹس مقبول باقر سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ ان حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی۔
30 جون:
ایک بار پھر کوئٹہ اور پشاور دھماکوں سے گونج اٹھے، کم از کم 56 بیگناہ انسانوں کو خون میں غلطاں کر دیا گیا۔ کوئٹہ میں ہزارہ ٹاون کے قریب امام بارگاہ کے قریب خودکش دھماکے میں خواتین و بچوں سمیت 28 افراد شہید ہوئے۔
5 جولائی:
اس بار ٹارگٹ بنا پنجاب کا دارالحکومت لاہور، پرانی انار کلی کی فوڈ اسٹریٹ میں بم دھماکہ ہوا، جس سے تین افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس واقعہ میں درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
8 جولائی:
ایک بار پھر خیبر پختونخوا میں دو مختلف مقامات پر بم دھماکے ہوئے جن میں دو پولیس اہلکاروں سمیت چھ افراد جان گئے۔
10 جولائی:
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں صدر مملکت آصف علی زرداری کے چیف سکیورٹی آفیسر بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے۔
16 جولائی:
ایک بار پھر کوئٹہ میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے شیعہ ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے چار افراد سمیت چھ افراد کو شہید کر دیا گیا۔
22 جولائی:
کراچی کے علاقے لانڈھی میں عوامی نیشنل پارٹی کے دفتر کے قریب دستی بم حملے میں دو افراد جاں بحق اور چھ زخمی ہوئے۔
24 جولائی:
سندھ کے شہر سکھر میں آئی ایس آئی کے دفتر کو بم دھماکے سے اُڑا دیا گیا۔
27 جولائی:
پاراچنار میں دو خودکش بم دھماکوں میں 85 سے زائد روزہ دار شہید ہوگئے، جبکہ دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
28 جولائی:
گوادر میں چیک پوسٹ پر حملہ ہوا، جس میں سات سکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے۔
30 جولائی:
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سینٹرل جیل پر حملہ ہوا، طالبان حملہ کرکے 243 قیدی چھوڑوا کر چلے گئے، نہ کوئی زخم آیا، نہ چوٹ کھائی، چار گھنٹے تک جیل میں بیٹھے رہے اور روح افزاء بھی پیا، اس واقعہ میں چھ اہلکاروں سمیت چھ شیعہ قیدیوں کو شہید کر دیا گیا۔ لیکن فوج اور سکیورٹی فورسز کی بندوقوں کی نالوں سے ایک گولی تک نہ چل سکی۔
5 اگست:
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قریب لاہور سے کراچی جانیوالی شالیمار ایکسپریس میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم چودہ افراد زخمی ہوئے۔ وزیر ریلوے سعد رفیق نے امکان ظاہر کیا کہ یہ واقعہ بھتہ خوری کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
6 اگست:
بلوچستان کے علاقے بولان میں کوئٹہ سے پنجاب جانے والے 13مسافروں کو اغوا کرکے قتل کر دیا گیا۔ اس واقعہ کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ مرنے والوں کا تعلق رحیم یار خان، بہاولپور اور ملتان سے بتایا گیا۔
چھ اگست کی رات کو ہی گلگت بلتستان میں ضلع چلاس میں دہشتگردوں کے حملے میں ضلع دیامر کے ایس ایس پی محمد ہلال، پاکستان فوج کے ایک کرنل اور ایک کیپٹن شہید ہوگئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلی۔

مذکورہ واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ ایک طرف دہشتگرد تسلسل کیساتھ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب حکومت کی جانب ان کیخلاف کوئی موثر کارروائی نظر نہیں آتی۔ دوسری جانب ملک کی تمام جیلوں، ائیر پورٹس، ائیر فورس کی عمارتوں سمیت اہم جگہوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی نفری بڑھا دی گئی ہے۔ بجائے اس کے کہ دہشتگردوں کے خلاف حکومت اور ریاستی ادارے ملکر آہنی ہاتھ سے نمٹتے، الٹا دفاعی پالیسی اپنانے پر آگئے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے، اس صورتحال کے باعث عوام میں تیزی سے خوف کی فضاء پروان چڑھ رہی ہے۔ ڈی آئی خان جیل پر حملہ نے تو پوری دنیا میں پاکستانی فوج اور سکیورٹی فورسز سمیت پولیس کی کارکردگی کو بےنقاب کر دیا ہے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے انہیں سانپ سونگ گیا ہو۔ ڈی آئی خان جیل پر حملے کو ایک ہفتے سے زائد کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن موصوف نے تاحال اس حوالے سے کوئی بیان تک نہیں دیا۔ دوسری طرف چوہدری نثار کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات سے لگتا ہے کہ انہوں نے وزارت داخلہ کے بجائے وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھال رکھا ہے، مصر کی صورتحال ہو یا موجود پاک بھارت ٹنشن، وزیر داخلہ نے کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا اور بیان داغ دیئے، لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ وہ پاکستان کے داخلی حالات پر گذشتہ ڈیڑھ ہفتے سے زبان کیوں نہیں کھول رہے۔؟ وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں ملک کی تمام صورتحال سے آگاہ کرتے رہیں گے۔ سکیورٹی کے امور پر ان سمیت دیگر نون لیگ حکومت کے تمام وزراء کی زبانیں گنگ ہوگئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان لوگوں سے صلاحتیں سلب کرلی ہیں، ایک خاموشی سی چھائی ہوئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 290760
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش