0
Wednesday 14 Aug 2013 11:03
طالبان کیساتھ مذاکرات پر جماعت اسلامی تنہا ہوگئی

نواز حکومت نے شدت پسندی کا راستہ روکنے کیلئے کمر کس لی

نواز حکومت نے شدت پسندی کا راستہ روکنے کیلئے کمر کس لی
تجزیاتی رپورٹ: این اے بلوچ

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، پانچ ہفتوں سے میڈیا سے غائب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بلآخر کوئٹہ دورے کے بعد سے اب قوم کے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور انہوں نے کافی کچھ عوام کے سامنے رکھ دیا ہے، تاہم بہت کچھ ابھی باقی ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی ایک خوبی ہے کہ وہ لگی لپٹی سے کام نہیں لیتے، جب ان سے کوئٹہ میں وزیراعلٰی بلوچستان کے ہمراہ ہونے والی پریس کانفرنس میں سوال کیا گیا کہ جناب عالی گذشتہ پانچ ہفتوں سے آپ غائب ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان پر طالبان نے دھاوا بول دیا اور اپنے 243 دہشتگرد ساتھی چھوڑا کر لے گئے تو آپ نے لب کشائی نہیں کی، کوئٹہ میں اس سے پہلے واقعات ہوئے تو آپ نہیں بولے، کراچی کے حالات انتہائی خراب ہیں تو آپ چپ، نانگا پربت کا واقعہ اور اس کے بعد بھی چلاس کے مقام پر سکیورٹی فورسز کے افراد کو چن چن کے قتل کیا گیا تو آپ خاموش، پاراچنار میں ایک ساتھ 60 سے زائد روزہ داروں کو خون میں نہلا دیا گیا تو آپ خاموش، آخر اس خاموشی کے پیچھے کیا راز چھپا ہے کہ وزیر داخلہ ہوتے ہوئے آپ باکل ساکت ہیں۔ صحافی کے اس سوال پر وزیر داخلہ نے جھوٹ بولنے کے بجائے سچ کا سہارا لیا اور کہہ گئے جو شائد رحمان ملک جیسے وزیر داخلہ ہوتے تو کبھی نہ کہتے، چوہدری نثار نے کہا کہ میں میڈیا کے سامنے آکر قوم کو پیغام دیتا بھی تو کیا؟ کیونکہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا، سچ تو یہ ہے کہ مجھے سجائی ہی کچھ نہیں دے رہا تھا کہ میں آکر قوم کے سامنے کیا کہوں، ایک چیز کو ٹھیک کرنے کا سوچتا ہوں تو دوسری چیز اس سے بھی ابتر نظر آتی ہے۔ اس صورتحال نے مجھے میڈیا کے سامنے آنے سے روکا ہے۔

وزیر داخلہ نے تسلیم کیا کہ تیرہ سال قبل دہشتگردی کی جنگ ہم پر مسلط کی گئی، جو اب ہماری جنگ بن چکی ہے۔ اب ہمیں یہ جنگ لڑنا ہوگی، کیونکہ دہشتگردی کی لہر ہمارے گھروں اور گلی کوچوں تک آن پہنچی ہے۔ دہشتگردوں کا صفایا کرنا ناگزیر ہوچکا ہے، ہماری فورسز، عوام اور حکومت کے حوصلے بلند ہیں۔ اس جنگ میں ہماری سکیورٹی فورسز اگلی صفوں میں لڑیں گی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ دہشتگردی، صرف حکومت یا سیاسی جماعتوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے، جس کیلئے یکساں سوچ کے ساتھ سب کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہوگا۔ چوہدری نثار علی خان کی پانچ ہفتوں کے بعد میڈیا سے ہونے والی اس گفتگو کا بغور جائزہ لیں تو حکومتی سوچ میں چند پہلو آشکار ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، ایک تو یہ کہ حکومت نے اسے واضح طو پر پاکستان کی جنگ قرار دیدیا ہے، دوسرا چوہدری نثار علی خان کی گفتگو میں اس ارادے کی جھلک نظر نہیں آئی کہ پاکستانی طالبان یا کسی دوسرے گروہ کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، تیسرا پہلو یہ کہ حکومت نے سکیورٹی فورسز اور مسلح افواج کے ساتھ بہتر شراکت کار کی راہیں ہموار کرلی ہیں۔

گذشتہ شب نجی ٹی وی کے پروگرام میں مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے روحیل اصغر نے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن پر تابڑ توڑ حملے کئے اور طالبان سے متعلق ان کے موقف پر تنقید کی اور کھل کر سوال اٹھائے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ نون لیگ کی سوچ میں کافی تبدیلی آئی ہے اور اب وہ مذاکرات کی بجائے حکومت رٹ قائم کرنے پر توجہ دے رہی ہے، اس ٹاک شو میں مکالمہ بڑا دلچسپ تھا جب اینکر پرسن وسیم بادامی نے منور حسن سے سوال کیا کہ آپ کا گذشتہ روز کا بیان پڑھا، جس میں آپ نے کہا کہ اگر بھارت سے مذاکرات ہوسکتے ہیں اور تو اپنے بچوں سے مذاکرات کیوں نہیں ہوسکتے، کیا آپ نے یہ بیان دیا ہے، تو منور حسن نے کہا کہ جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں بلآخر ان کا نتیجہ مذاکرات کی میز ہی ٹھہرا ہے۔ ہمیں ان سے مذاکرات کرنے میں کیا حرج ہے۔ اس پر وسیم بادمی نے بڑا برجستہ سوال اٹھایا کہ جناب عالی آپ کا سابقہ موقف تھا کہ پاکستان میں طالبان نامی کوئی چیز نہیں، آپ نے یہاں تک کہا کہ میں نہیں جانتا کہ احسان اللہ احسان کون ہے تو اب آپ یہ تسلیم کر رہے ہیں پاکستان میں طالبان نامی کوئی بلا ہے، جن سے اب مذاکرات کرنے چاہیں، حالانکہ مرحوم قاضی حسین پر حملے کی ذمہ داری بھی طالبان نے ہی قبول کی تھی، اس پر منور حسن نے کہا کہ مجھ سے جیسا سوال کیا جاتا ہے، میں اس کا اسی ٹون میں جواب دیتا ہوں۔

یہاں دفاعی تجزیہ نگار زاہد حامد نے احادیث کی روشنی میں طالبان کو دور حاضر کا خوارج ثابت کیا اور متعلقہ احادیث پر استفسار کیا کہ منور حسن صاحب کیا یہ احادیث درست ہیں یا نہیں، اس پر امیر جماعت نے جواب دینے کے بجائے ان کی ذاتیات پر چلے گئے۔ منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس وقت تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ایک طرف ہیں تو جماعت اسلامی دوسری طرف کھڑی ہے۔ سید منور حسن کا یہ جواب دینا کہ جس طرح کا سوال اور جس ٹون میں جو کیا جاتا ہے تو میں اس کا ویسے ہی جواب دیتا ہوں، ایک مذہبی جماعت کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا۔ لیڈرشپ ہمیشہ قوم کو راہیں دکھاتی ہے، انہیں خطرات اور ان کا راہ حل بتاتی ہے۔ جو حقائق ہوتے ہیں ان پر دو ٹوک انداز میں اپنا موقف بیان کرتی ہے۔ ان کی باتوں میں ابہام نہیں ہوتا۔

خود راقم کیساتھ یہ واقعہ پیش آچکا ہے، میں نے بی بی سی کے پروگرام ٹاکنگ پوائنٹ میں ان سے سوال پوچھا کہ محترم امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب، عرض ادب کے ساتھ آپ سے سوال ہے کہ اگر برما میں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے تو آپ پاکستان میں ریلیاں منعقد کراتے ہیں، کشمیر میں کچھ ہوتا ہے تو یہاں پورا پاکستان جام کر دیتے ہیں، مصر میں کوئی واقعہ پیش آئے تو آپ یہاں پر بڑے بڑے مظاہرے کرواتے ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان میں کوئٹہ میں ایک نہیں سینکڑوں شیعیان علی کا قتل عام کر دیا گیا، آئے روز ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے تو آپ سوائے دو سطری مذمتی بیان کے کیوں بڑی سطح پر احتجاج  نہیں کرتے۔؟ اس سوال پر وہ کافی برہم ہوئے اور اس سوال کا واضح جواب دینے کے بجائے اسے میرا تجزیہ قرار دیکر آگے بڑھ گئے۔ وسیم بادامی کے پروگرام میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر آپ ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہیں تو آپ کا ان حملوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو طالبان معصوم پاکستانیوں پر کر رہے ہیں۔ اس سوال کا بھی انہوں نے جواب نہیں دیا اور امریکی پالیسی پر تنقید کرتے رہے۔

تحریک انصاف طالبان سے مذاکرات کی حامی تھی اور ان سے بات چیت کرنا چاہتی تھی لیکن ڈی آئی خان جیل پر حملے نے پی ٹی آئی کو سکتے میں ڈال دیا ہے اور اس وقت انکی جماعت کے اندر بہت دباؤ ہے کہ وطن دشمنوں سے کسی صورت مذاکرات نہ کئے جائیں۔ اس کا اظہار بھی مختلف بیانات میں مل رہا ہے۔ دوسری جانب جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مذاکرات کی کامیابی کی ضمانت دینے سے صاف انکار کر دیا ہے، یعنی جے یو آئی بھی پر آشکار ہوگیا ہے کہ طالبان جس ریموٹ کنٹرول پر چلتے ہیں جو کسی اور کے ہاتھ ہے۔ اب جماعت اسلامی کو بھی واضح موقف اختیار کرنا ہوگا، ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ طالبان کی حمایت بھی کریں، مذاکرات کے بھی خواہاں نظر آئیں اور قوم کو یہ نہ بتا سکیں کہ طالبان آخر چاہتے کیا ہیں۔؟ ان کی ڈیمانڈز کیا ہیں اور کیا وہ ڈیمانڈز پوری کی بھی جاسکتی ہیں یا نہیں۔؟

13 اگست کو اسلام آباد میں چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس سے واضح ہوچکا ہے کہ نون لیگ شدت پسندی کو کچلنے کیلئے ذہن بنا چکی ہے۔ اب ان کے پاس اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں رہا، مرنا ہوگا یا پھر مارنا ہوگا۔ گذشتہ دو روز کے ٹاک شوز میں مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کے موقف میں واضح تبدیلی نظر آئی ہے۔ دوسری جانب اب قوم پر واضح ہوتا جا رہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈھول گلے میں ڈالنے والی واحد جماعت اسلامی رہ گئی ہے، جو اس معاملے پر تنہائی کا شکار ہے۔ امید ہے کہ وہ بھی اپنے موقف پر نظرثانی کرے گی۔

آخر میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی خدمت میں عرض ہے کہ جناب آپ ہمت کریں قوم آپکے ساتھ ہے، پاک فوج آپ کے ساتھ ہے۔ ایک آدھ جماعت کی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پیپلزپارٹی پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ وہ دہشتگردی کے معاملے پر نون لیگ سے مکمل تعاون کریگی اور اس معاملے پر پوائنٹ سکورنگ نہیں کریگی۔ ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، بی این پی، قاف لیگ اور دیگر جماعتیں پہلے ہی ایک پیج پر ہیں اور وہ دہشتگردی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اب ضرورت فقط پولیٹکل ول اور فیصلہ کرنے کی ہے۔ اگر اب دہشتگردی کیخلاف اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پھر مجلس وحدت مسلمین کے رکن صوبائی اسمبلی سید محمد رضا کی بات کہ اگر ریاست نے اپنا کام نہ کیا تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ نون لیگ کو بھارہ کہو واقعہ سے پتہ لگ جانا چاہیے کہ اب طالبان نے پنجاب کو بھی نہیں بخشا، گذشتہ روز تحریک طالبان نے ایک خط لکھ کر نون لیگ پر واضح کر دیا ہے اگر ان کے ساتھیوں کو سزائے موت دی گئی تو وہ ان کے ساتھ وہی سلوک کریں جو انہوں نے اے این پی کے ساتھ کیا ہے اور اسے وہ اعلان جنگ تصور کریں گے۔ عصمت اللہ معاویہ کے نام سے بھیجا گیا یہ خط میڈیا پر آچکا ہے، جس کی سب نے تصدیق کی ہے۔ عصمت اللہ معاویہ جو 2006ء تک جہاد کشمیر میں مصروف تھا، آج کل وہ پنجاب میں تحریک طالبان کا ترجمان اور مسئول مقرر ہوگیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 292245
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش