3
0
Monday 2 Sep 2013 07:13

گلگت بلتستان دنیا کی عظیم نظریاتی جنگوں کا بلند ترین محاذ بننے جا رہا ہے

گلگت بلتستان دنیا کی عظیم نظریاتی جنگوں کا بلند ترین محاذ  بننے جا رہا ہے
اسلام ٹائمز۔ امریکی سفیر رچرڈ جی اولسن کی دورہ اسکردو کی منسوخی کی بحث زبان زد عام ہو گئی ہے۔ بعض حلقوں میں اسے عوامی دباؤ اور لاء اینڈ آرڈر کے پیش نظر انکو آنے سے روک دیا گیا ہے۔ بعض نے اسے امریکی مخالف مذہبی تنظیموں کی کامیابی قرار دیا ہے جبکہ یہ بحث بھی جاری ہے کہ یو ایس ایڈ سمیت دیگر ان کے آلہ کار تنظیموں کی طرف سے ان کا خاطر خواہ استقبال نہ کرسکنا وجہ قرار دی جا رہی ہے۔ ان تمام معروضات کے علاوہ دفاعی اہمیت کے حامل اس خطہ میں ان دنوں انکی آمد جبکہ اسکردو کے قریب ہی لائن آف کنٹرول پر جاری فائرنگ کا سلسلہ دفاعی اداروں کی طرف سے خطہ میں بےچینی کا سبب قرار دے کر روک دیا گیا ہے۔ معقول وجہ یہی معلوم ہوتی ہے اور ہونی بھی یہی چاہیئے کہ دفاعی ادارے دفاعی اہمیت کے حامل خطہ میں ملک دشمن عناصر کی سرگرمیاں محدود کریں۔ پاکستان آرمی کے حساس اداروں کی اس بات پر کڑی نظر ہونی چاہیئے کہ یو ایس ایڈ اور دیگر امریکی این جی اوز یہاں محض Data جمع کرنے کی غرض سے آئی ہیں۔ بالخصوص ISI اور دیگر اہم اداروں کو اس وقت ہوشیاری کی ضرورت تھی جب BISP کی خیرات کیلئے جس گراس روٹ لیول پر سرو ے کئے گئے اور GPRS تک کی معلومات جمع کی گئیں کہ کس شخصیت کا گھر یا کونسا ادارہ کس طول بلد اور عرض بلد پر واقع ہے جسے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بالخصوص ڈرون حملے سے بہ آسانی ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔ 

وزیرستان اور دیگر سرحدی علاقوں میں آئے روز ڈرون حملوں سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ ڈرون حملے شمال کی جانب بڑھ سکتے ہیں جبکہ وزیرستان اور گلگت بلتستان کا Arial Distance بہت کم ہے جبکہ زمینی فاصلہ تقریبا پانچ  کلومیٹر ہے۔ BISP کے خطرناک سروے کو روکنے کیلئے کسی حساس ادارے نے کوئی اہم رول ادا نہیں کیا اور وہ تمام ڈیٹا امریکہ تک پہنچ گیا۔ بی آئی ایس پی کے سروے ہوں یا یو ایس ایڈ کی جاسوسیاں، قابل غور بات یہ ہے کہ پاکستان آرمی کے حساس ادارے، دیگر سکیورٹی ادارے اس بات کی ضمانت کس طرح دے سکتے ہیں کہ امریکہ اس خطہ سے جو بنیادی ڈیٹا جمع کرتا ہے وہ پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے دشمن بھارت سے تبادلہ نہیں کرے گا اور معلومات شیئر نہیں کرے گا۔؟

دوسری طرف عالمی سطح پر یہ علاقہ اب بھی متنازعہ اور پاکستان میں اس کی جو آئینی حقیقت ہے وہ دنیا جانتی ہے جبکہ اسکردو کے لئے بھارت میں لوگ سبھا میں اب بھی نشستیں خالی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پر قوم پرست تنظیموں کی طرف سے اور دیگر نادیدہ قوتوں کے ذریعے خطہ میں عوامی رائے پاکستان کے حوالے سے بدلنے کی کوشش تیز کردی گئی ہے۔ یہ سلسلہ واضح طور پر گذشتہ ایک سال سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہاں ایک بات نہایت ضروری ہے وہ یہ کہ جہاں اسی علاقہ میں پاکستان کیخلاف رائے عامہ بنایا جا رہی ہے وہاں ایک خاص ٹولہ الگ ریاست کیلئے بھی جدوجہد میں مصروف ہے جسکی ڈوریاں کشمیر سے ہلائی جا رہی ہیں۔ وطن عزیز کے حساس اداروں کو نجی مسائل، ٹرانسفر کے کیسز مٹی تیل کے معاملات اور دیگر ٹوپی ڈراموں کو چھوڑ کر ان باتوں کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مسائل ملکی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں۔

ذرائع کے مطابق بلتستان میں دو ماہ قبل CIA کی ایک ٹیم نے یو ایس ایڈ کی چھتری تلے پورے بلتستان کا دورہ کیا جس میں دو غیر ملکی سمیت تین پاکستانی تھے ان میں سے ایک مقامی بھی بتایا جاتا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس ٹیم نے نہایت مہارت کیساتھ نہ صرف پورے بلتستان کا دورہ کیا ہے بلکہ بلتستان کے حساس علاقے جہاں پر مقامی لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، یہ ٹیم ان سرحدی حساس علاقوں تک گئی ہے جو کہ سیکورٹی اداروں پر سوالیہ نشان ہے۔ واضح رہے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سرحد پر کس قسم کی کشیدگی نہیں تھی۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کیا سرحد کے دوسری طرف مدارس اور کرگل و لداخ وغیرہ میں بھی امریکی تنظیمیں متحرک ہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ جو چیز نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ حال ہی میں کرگل سرحد پر انڈیا اور چائنہ کے درمیان بھی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خطہ محاذ جنگ بننے جا رہا ہے۔ محاذ جنگ یعنی دنیا کی تین عظیم طاقتوں اور چار ایٹمی طاقتوں کا محاذ جنگ۔ اس خطہ میں چین، بھارت اور امریکہ کی مفادات سے انکار ممکن ہی نہیں، یعنی خطہ گلگت بلتستان دنیا کی عظیم نظریاتی جنگوں کا بلند ترین محاذ بننے جا رہا ہے۔ ان باتوں کے علاوہ کچھ ایسے حقائق بھی ہیں جن کو فی الوقت منظرعام پر لانا قبل از وقت ہوگا۔ ذرائع نے CIA کی کچھ اور سرگرمیوں کے بارے میں انکشافات کا دعویٰ بھی کیا ہے جسے الگ عنوان کیساتھ سامنے لایا جائے گا۔ سی آئی اے کی ٹیم نے دورہ اس بنیادوں پر کیا تھا کہ یو ایس ایڈ نے اسکردو میں الگ عمارت، آفس کے لئے لی تھی جو انہیں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر چھوڑنا پڑی، تو آغا خان فاؤنڈیشن کے مقامی دفتر میں یو ایس ایڈ کو جگہ دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں اسکردو کے ایک مقامی عالم سید مظاہر حسین الموسوی نے آغا خان فاؤنڈیشن اسکردو سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ آغا خان فاؤنڈیشن تم نے جس شیطان (یو ایس ایڈ) کو پناہ دی ہے وہ اتنی بڑی غلطی ہے جس کی پاداش میں اس علاقے کو خیر باد کہنا پڑے گا۔ انہوں نے انتظامی اداروں سے کہا کہ یو ایس ایڈ کی سرگرمیوں کو انتظامیہ لگام دے، اگر جوان اس راہ میں نکلیں گے تو یقیناً اسکردو کا نقشہ بدل جائے گا اور انہوں نے مزید کہا کہ نجس امریکہ اور اس کی تنظیمیں برداشت کرنا گویا موت واقع ہونا ہے۔

CIA امریکہ کی مخالفت کرنے والوں کو کس طرح الجھا دے گی اور انکو کن حربوں سے رام کرے گی اس کے بارے میں یقیناً پالیسیز مرتب ہو رہی ہونگی فی الوقت یہ ضروری ہے کہ CIA کی پالیسیز ہماری ایجنسیوں، انتظامی اداروں، سکیورٹی اداروں کے کندھے پر رکھ کر نہ ہو۔ ہمارے حساس اداروں کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ امریکہ اس خطہ میں آگ روشن کر کے بھارت کیلئے ایک اور مقبوضہ کشمیر بنائے گا۔ اس خطہ میں فرائض نبھانے والی ایجنسیاں اور سکیورٹی ادارے اگر یو ایس ایڈ اور دیگر امریکی تنظیموں کو یہاں سے نکالا نہیں جا سکتا تو لاء اینڈ آرڈر کے پیش نظر یہ کام ناگزیر ہے کہ یہاں کے ترقیاتی پروجیکٹس کو گورنمنٹ اپنے ہاتھ میں لیں اور حکومتی ادارے ہی تعمیرات کریں۔ اس سے حکومتی ادارے بھی مستحکم ہونگے اور یہ وطن کی سلامتی اور استحکام کے لئے بھی اہم ہے۔
خبر کا کوڈ : 297546
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Nice Article
Pakistan
no doubt GB will b the battlw war of 3rd world war. govt shld play positive role to protetc dz area.
United Arab Emirates
sahi hai na to pakistan na gilgit baltistan k awam ko diya kiya hai siwaye mehromyin k
ہماری پیشکش