1
0
Wednesday 11 Sep 2013 15:09

قائداعظم کے پاکستان میں دہشتگردوں سے مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں، علامہ ناصر عباس جعفری

قائداعظم کے پاکستان میں دہشتگردوں سے مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں، علامہ ناصر عباس جعفری
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات اور روشن اصولوں کو اپنا کر ہی باقی ماندہ پاکستان کی حفاظت کی جاسکتی ہے، قائداعظم کے فرمودات اور نظریات سے روگردانی کی وجہ سے آدھا پاکستان تو ہم گنوا بیٹھے ہیں لیکن اب یہ ملک مزید اس قسم کے نقصانات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ قائداعظم بیسویں صدی کے عوام دوست، اصول پسند، بے لوث، سچے اور عظیم مسلمان رہنما تھے، لہذا ہم ان کے وضع کردہ اصولوں پر عمل کرکے ہی پاکستان کی صحیح معنوں میں خدمت کرسکتے ہیں۔ آج قائداعظم کے پاکستان کو دہشت گردوں نے اپنی بربریت کے ذریعے تاراج کر دیا ہے، ایسے میں دہشت گردوں سے مذاکرات قائداعظم کے اصولوں سے بغاوت کا اعلان ہے، قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان میں دہشت گردوں سے مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

بانی پاکستان کے یوم وفات کے موقع پر اپنے پیغام میں علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ قائد اعظم نے جن اصولوں اور مقاصد کے لیے آزاد مملکت کی جدوجہد کی تھی اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور انہوں نے پاکستان کی شکل میں ایک عظیم کامیابی حاصل کی۔ آج 67 سال بعد ہمیں اس کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہم قائداعظم کے روشن اصولوں پر عمل پیرا ہیں اور جن مقاصد کے لیے عزت و ناموس اور جانوں کے نذرانے دئیے گئے وہ حاصل ہوگئے ہیں؟ قائد اعظم نے جس ملک کی بنیاد ڈالی تھی، اس میں جمہوریت کو اساسی حیثیت حاصل تھی۔ عدل و انصاف، امن و امان سے بھرپور معاشرے کا قیام تھا۔ عوام کو ان کے بنیادی اور شہری حقوق کی پاسداری کا یقین دلایا گیا تھا اور اقتدار میں عوام کو بنیادی حیثیت دی گئی تھی۔

علامہ ناصر عباس نے کہا کہ آج ہم معروضی حالات کا جائزہ لیں تو اس ملک میں امن و امان اور عدل و انصاف نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ جمہوریت کا گلا گھونٹنا ایک معمول بن چکا ہے۔ جمہوریت کی معروف اقدار سے گریز کیا جا رہا ہے۔ بنیادی و شہری آزادیوں کو سلب کرنے کے لیے ہر دور میں نت نئے قوانین بڑی دیدہ دلیری سے بنائے جا رہے ہیں۔ ایک متفقہ آئین 1973ء میں بنا، لیکن اب اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عوام غربت، بے روزگاری، بدامنی، تعصب اور ناانصافی کی چکی میں پس رہے ہیں اور کسی کو اس کا احساس تک نہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ تعصبات اور فرقہ وارانہ دہشت گردی، شدت پسندی اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کوئی ٹھوس اور موثر کام نہیں ہوا۔ روایتی اور معمولی نوعیت کے اقدامات کئے جاتے رہے، جن میں اچھے برے کی تمیز مفقود رہتی ہے، لیکن نہ تو فرقہ پرستوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا نہ ہی قاتل دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا، جس کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور بے چینی پھیل رہی ہے، جو کسی صورت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 300790
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سعودی حمایت یافتہ وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ پاکستان سے زیادہ سعودی عرب اور تکفیری دیوبندی اور وہابی دہشت گردوں کے وفادار ہیں۔ طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے جو دہشتگرد اعلانیہ پاکستان کے عام شہریوں، پولیس والوں اور فوجی جوانوں کو ذبح کرتے ہیں، ہماری مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں اور اسکولوں کو بم دھماکوں میں تباہ کرتے ہیں، معصوم بچوں اور بچیوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، ان کے ساتھ مذاکرات؟ کیا پاکستانی قوم ان قاتلوں کے ساتھ مذاکرات کرسکتی ہے جو ہمارے فوجی جوانوں کو اغوا کرکے ذبح کرتے ہیں، ہماری مساجد میں نماز پڑھنے والے سنی اور شیعہ مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں۔ ہمارے احمدی، مسیحی، ہندو بھائیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں۔ نواز شریف کو جواب دینا چاہیے کہ کس نے انہیں اس بات کا حق دیا کہ ہزاروں سنی، شیعہ، احمدی، مسیحی پاکستانیوں کو شہید کرنے والے درندہ صفت تکفیری دیوبندی درندوں سے مذاکرات کریں؟ طالبان اور سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں سے مذاکرات صرف اس صورت میں ممکن ہیں جب یہ اپنے ہتھیار پھینک دیں، پاکستانی ریاست اور آئین کی برتری کو تسلیم کریں، تمام مجرموں اور دہشت گردوں کو پاکستانی حکومت کے حوالے کریں اور آئندہ کے لئے تشدد سے گریز کرنے کا وعدہ کریں۔ ان شرائط کی عدم موجودگی میں مذاکرات کی پیشکش نہ صرف بے معنی بلکہ اس سے دہشت گردوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی۔ بی بی سی اردو کے مطابق اسلام آباد میں منعقدہ کُل جماعتی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ جتنا مفصل ہے اتنا ہی ہلکا بھی ہے۔ اس میں اچھی میٹھی گاجریں تو بہت ہیں لیکن مذاکرات میں سنجیدگی نہ دکھانے پر کسی ڈنڈے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس بیان سے تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ حکومت معاملات میں حاوی ہے اور وہ ایک مضبوط پوزیشن سے بات کر رہی ہے۔ اگر اور مگر کا اس اعلامیے میں جان بوجھ کر کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اگر طالبان سے بات چیت کامیاب نہ ہوئی تو دوسرا آپشن کیا ہوگا؟ طاقت کے استعمال کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ آٹھ نکاتی فارمولے میں پاکستانی طالبان کا نام نہیں لیا گیا ہے، نہ ہی شدت پسند جیسی اصتلاح یا دہشت گرد جیسے سخت لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ماضی کے اس قسم کے اجلاسوں سے اس میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ ہاں ماضی کا رونا ضرور ہے کہ اس قسم کی کُل جماعتی کانفرنسوں اور پارلیمانی قراردادوں پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ تاہم اس میں کسی کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹہھرایا گیا ہے یا اس کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ اعلامیہ کی ایک اہم بات جو ابتداء میں ہی ہے، وہ فوجی حکام کی بریفنگ کے تناظر میں اس بات کا اعتراف ہے کہ حالات گذشتہ کئی برسوں میں خراب ہوئے ہیں، ان میں بہتری نہیں آئی ایک بڑی بات اس میں کسی مدت کا تعین نہیں کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف ثالثوں کا انتخاب کرکے کب تک مذاکراتی عمل کو شروع کرنے کے پابند ہیں۔ یہ کل بھی ہوسکتا ہے اور آئندہ سال بھی۔ شاید جان بوجھ کر کوئی مدت نہیں رکھی گئی، تاکہ مسلم لیگ (نون) کی حکومت تسلی سے بات چیت کی تیاری اور آغاز کرے۔ یا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کسی معاہدے تک پہنچنے تک حکومت اس کا کوئی اعلان نہ کرے۔ اخبارات میں آنے سے شہہ سرخیاں تو بن جائیں لیکن بات چیت آگے نہ بڑھ پائے۔ شاید اسی لیے حکومت کی رضا پر اسے چھوڑ دیا گیا ہے۔
ہماری پیشکش