0
Sunday 29 Sep 2013 09:13

ہند و پاک وزرائےاعظم کی ملاقات بے سود، سید علی گیلانی

ہند و پاک وزرائےاعظم کی ملاقات بے سود، سید علی گیلانی
اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی نے بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے مابین مجوزہ ملاقات کو دہائیوں سے چلی آرہی ایک سفارتی رسم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک دونوں ممالک کشمیر کے کور  اِشو کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور بھارت اس سلسلے میں اپنی روایتی ہٹ دھرمی ترک نہیں کرتا، جب تک یہ ملاقاتیں اور مذاکرات ایک لاحاصل عمل ہیں اور ان سے کسی بریک تھرو کی امید نہیں کی جاسکتی ہے، نظر بندی کے دوران اپنے ایک بیان میں علی گیلانی نے پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کی یو این او میں تقریر کی سراہنا کرتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ معذرت خواہانہ پالیسی ترک کرکے جموں کشمیر میں جاری شہری ہلاکتوں اور حقوق بشر کی دیگر پامالیوں کو بین الاقوامی فورموں پر اُجاگر کرائیں اور بھارتی وزیراعظم کے ساتھ آلو اور پیاز کی تجارت کے بجائے تنازعہ کشمیر اور انسانی زندگیوں کے اتلاف پر توجہ مرکوز کریں۔

سید علی گیلانی نے کہا کہ ہم جنگ چاہتے ہیں اور نہ اصولی طور ہم مذاکرات کے خلاف ہیں، البتہ بھارت اپنی ملٹری مائیٹ کے ذریعے سے کشمیریوں کو سرینڈر کرانا چاہتا ہے اور وہ طاقت کے بل بوتے پر کشمیر پر اپنا فوجی قبضہ جاری رکھنا چاہتا ہے، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے لاکھوں کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اُتاردیا گیا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی برابر جاری ہے، بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم جب اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے موقعے پر ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کررہے ہیں، کشمیری تہاڑ جیل میں پھانسی چڑھائے گئے افضل گورو کی لاش کی واپسی کے منتظر ہیں اور وہ گول، مرکنڈل اور شوپیان میں ہلاک کئے گئے بے قصور شہریوں کا ماتم کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین بات چیت سے صرف بھارت کو فائدہ پہنچتا ہے اور پاکستان اور کشمیری عوام اس سے نقصان ہی اٹھاتے ہیں، بھارت چونکہ اپنی ہٹ دھرمی اور غیر حقیقت پسندانہ پالیسی پر کاربند ہے، لہٰذا وہ ڈائیلاگ کے ذریعے سے وقت گزاری کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے اور مذاکراتی عمل کے ذریعے سے جموں کشمیر میں جاری اس کی ریاستی دہشت گردی پر بھی پردہ پڑا رہتا ہے، علی گیلانی نے کہا ہے کہ یہ بات اپنی جگہ پر غور طلب ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین آج تک 150 بار سے زیادہ مذاکرات ہوئے ہیں اور دونوں ممالک کے سربراہان ایک دوسرے کے ساتھ درجنوں رسمی میٹنگ کرتے رہے ہیں۔ البتہ اس عمل سے دونوں ممالک کے درمیان تلخیاں کم اور تعلقات خوشگوار ہوسکے ہیں اور نہ مسائل حل کرنے میں کوئی پیش رفت ہوسکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 306409
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش