0
Saturday 28 Sep 2013 10:31

نواز منموہن ملاقات سے کسی بریک تھرو کی توقع نہیں، حریت رہنما

نواز منموہن ملاقات سے کسی بریک تھرو کی توقع نہیں، حریت رہنما
اسلام ٹائمز۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ بندوق کسی مسئلے کا حل نہیں، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے حکمران نتیجہ خیز مذاکرات کریں۔ نوازشریف اور منموہن سنگھ کی ملاقات سے کشمیریوں کو بڑی توقع نہیں، جنوبی ایشیاء میں امن کے تمام راستے سری نگر سے ہو کر جاتے ہیں۔ پاکستانی قیادت کشمیر پر نیشنل پالیسی بنائے۔ بھارتی فورسز نے کشمیریوں پر مظالم کی حد کر دی ہے۔ اگر بھارت نے کشمیریوں کو آزادی نہ دی تو کشمیری نوجوان پھر بندوق اٹھانے پر مجبور ہو گا، ہم نے پاک بھارت دوستی کی مخالفت نہیں کی (مگر کشمیر کی قیمت پر) کوئی بھی دوستی ہمیں قبول نہیں۔ کشمیر کے بغیر امن کی کوئی آشا  نہیں چل سکتی۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے حریت رہنمائوں نے ایک نجی اخبار کے فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ 

نیوز فورم میں حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے چیئرمین سید یوسف نسیم، سینئر ممبر حریت کانفرنس الطاف بٹ، شیخ عبدالمتین، عبدالحمیدلون و دیگر شامل تھے۔ اس موقعہ پر انسانی حقوق کے رہنماء انصار برنی بھی موجود تھے۔ یوسف نسیم نے کہا کہ پرامن پاکستان تحریک آزادی کشمیر کا ضامن ہے۔ پاکستان میں بدامنی، دہشت گردی، معیشت کی گرتی ہوئی صورتحال کے کشمیر پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پشاور چرچ پر حملے جیسے واقعات سے ہمیں دکھ ہوتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ امن کے تمام راستے پاکستان سے ہو کر گزرتے ہیں، مگرحکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کے حالات خراب ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کو پاکستان سے بہت محبت ہے مگر کشمیریوں کو وہ رسپانس نہیں مل رہا جو ملنا چاہیے تھا۔ مسئلہ کشمیر بندوق کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی مجاہدین اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ ہم نے حق کے لیے بندوق اٹھائی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ بندوق اٹھائی تھی مگر نائن الیون کے بعد ہم نے بندوق کو خاموش کیا اور سیاسی پرامن جدوجہد شروع کی مگر اس پرامن جدوجہد کا عالمی دنیا سے وہ رسپانس نہیں ملا جس سے کشمیری مایوس ہوئے ہیں۔ اگر عالمی برادری کا رویہ یہی رہا تو کشمیری نوجوان پھر بندوق اٹھانے پر مجبور ہو گا۔ مسئلہ کشمیر کوئی علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی سیاسی اور انسانی حقو ق کامسئلہ ہے۔ 

یوسف نسیم نے کہا کہ نیویارک میں نواز اور منموہن سنگھ ملاقات سے کشمیریوں کو کوئی خاص توقع نہیں ہے کیونکہ گذشتہ 65 سالوں میں اس طرح کے مذاکرات کے 213 دور ہو چکے ہیں۔ مذاکرات اسی وقت نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں کہ جب دونوں طرف کی قیادت مسئلہ کشمیر پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی اور کشمیر پر نتیجہ خیز مذاکرات کا آغاز کرے گی۔ 

شیخ عبدالمتین نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل لائن آف کنٹرول پر بھارت کی طرف سے کشیدگی پیدا کرنے کے سیاسی مضمرات تھے کیوں کہ بھارتی فوج اور بیورکریسی یہ سمجھتی ہے کہ کانگریس نے پانچ سال کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی اس لیے متبادل کے طور پر بے جے پی کو لایا جائے۔ الطاف بٹ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کشمیریوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطاق بندوق اٹھائی تھی اس خطے میں بنیادی ایشو مسئلہ کشمیر ہے۔ جہاں تک امن کی آشا کاتعلق ہے تو امن کی آشا اس وقت تک بے معنی ہے جب تک کشمیر کا معاملہ حل نہیں ہوتا۔ 

عبدالحمید لون نے کہا کہ بھارت کی طرف سے مظالم کے سلسلے میں تیزی آ گئی ہے شوپیاں میں چار کشمیری طلباء کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا، دس ہزار کشمیری لاپتہ ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کی قیادت کشمیر پر ایک نیشنل پالیسی بنائے اورپھر اس کی بھرپور لابنگ کی جائے تاکہ مسئلہ کشمیر کی طرف پیش رفت ہو سکے۔
خبر کا کوڈ : 306148
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش