0
Thursday 10 Oct 2013 12:18

پرویز مشرف کی ضمانت سے نفرتوں میں شدت آئیگی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

پرویز مشرف کی ضمانت سے نفرتوں میں شدت آئیگی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا گذشتہ شب نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ نواب اکبر بگٹی کے مقدمہ قتل کے مرکزی ملزم پرویز مشرف کی ضمانت کی منظوری سے نفرتوں میں شدت آئے گی۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے کمیشن تشکیل دینا ہماری آئینی و قومی ذمہ داری ہے، اس کو ہر صورت پورا کریں گے۔ بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کو کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد سے مشروط کیا گیا ہے۔ تمام سیاسی و جمہوری جماعتوں کو اعتماد میں لے کر معاملات کو سلجھانے کی کوشش کریں گے۔ تاہم آئین کو تسلیم نہ کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ بلوچستان میں مداخلت کے حوالے سے تمام اطلاعات وفاق کی ہیں۔ اگر ہم اپنے گھر کو درست کرلیں تو بہت سے معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ہم نے نیشنل پارٹی کے انتخابی منشور میں یہ نکتہ شامل کیا، کیونکہ بلوچستان کے لوگوں کی خواہش ہے کہ نواب محمد اکبر خان بگٹی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

وزیراعلٰی بلوچستان کا کہنا تھا کہ ہم نے کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ وہ ہماری آئینی و قومی ذمہ داری ہے، ضرور تشکیل دیں گے۔ عدلیہ نے پرویز مشرف کو جو ضمانت دی ہے، اس سے بلوچستان کے لوگوں میں نفرت کا جذبہ ہے، اس میں شدت آئے گی، جو نیک شگون نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل میں تاخیر کی کئی ناگزیر وجوہات ہیں۔ تاہم ہم آج بھی اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ کیونکہ یہ بلوچستان کے لوگوں کی خواہش ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کی ضمانت تو ہوگئی ہے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک آزاد شہری کے طور پر اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔ انہیں جو لائے تھے انہیں بھی اندازہ ہوگیا کہ عوام میں ان کی مقبولیت کتنی ہے۔ موصوف چلے جائیں گے یا پھر بھیج دیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ کثیر الجہتی ہے۔ اتنا سیدھا سادہ نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے۔ گھمبیر مسائل کے حل میں کچھ وقت لگے گا۔

ہمارے برسراقتدار آنے کے بعد لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے میں کوئی قابل ذکر کامیابی تاحال نہیں ہوسکی۔ لیکن مسخ شدہ لاشوں کے ملنے میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے۔ لاپتہ افراد کے معاملے پر وفاقی حکومت سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ بگٹی مہاجرین کی آبادکاری جیسا مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ اغواء برائے تاوان کے واقعات کو اگر ماضی کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں بہت بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ جہاں تک فرقہ وارانہ واقعات، مذہبی انتہاء پسندی و دہشت گردی کی بات ہے تو یہ صرف کوئٹہ کا مسئلہ نہیں، بلکہ پورے ملک کو دہشت گردی و انتہاء پسندی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگر امن و امان کے حوالے سے دیکھا جائے تو حالات ایسے بھی نہیں ہیں، جتنا کہ بتایا جاتا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کی نسبت یہاں صورتحال قدرے بہتر ہے۔ بلوچستان کی شورش کو ملکی و عالمی صورتحال سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لندن تک کی مسافت فیض احمد فیض کی محبت میں طے کی، کیونکہ میں فیض احمد فیض کے چاہنے والوں میں سے ایک ہوں۔

وہاں کسی ناراض بلوچ قیادت سے ملنے نہیں گیا تھا اور یہ معاملہ اتنا آسان نہیں کہ میں منانے چلا جاؤں، تو وہ مان لیں گے۔ اس کیلئے ہمیں تمام سیاسی جمہوری جماعتوں، قبائلی قوتوں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ اسلام آباد میں ہونے والی اے پی سی میں مجھے ٹاسک ضرور دیا گیا ہے کہ میں ناراض بلوچوں سے مذاکرات کروں، لیکن مذاکرات اور رابطوں کو بلوچستان کے ایشوز پر کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد سے مشروط کیا گیا ہے۔ جس میں تمام سیاسی و جمہوری قوم پرست قوتیں بیٹھیں گی۔ ان فیصلوں کی روشنی میں حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اکسیویں صدی ہے اور اکیسیویں صدی میں جنگ بہتر طریقے سے جمہوری انداز میں ہی ہوتی ہے اور ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم پاکستان کے اندر رہتے ہوئے بلوچ قومی مسائل کو حل کرلیں گے۔ بندوق کی نوک پر مسائل حل نہیں ہوتے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو لوگ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے، ان سے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

کیونکہ جمہوری انداز میں ہم مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آواران میں زلزلہ متاثرین کی امداد کیلئے چار روز تک قیام کیا اور ڈاکٹراللہ نذر سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی میں نے کسی رابطے کی کوشش کی۔ ہم معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کیلئے خواہاں ہیں اور اس کیلئے عید کے بعد کل جماعتی کانفرنس بلائیں گے۔ جس میں مل بیٹھ کر کوشش کریں گے۔ ایمانداری سے کام کیا جائے تو ناراض بلوچ عسکریت پسندوں اور مذہبی سوچ رکھنے والوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر بلوچستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہمارے اکابرین اور قائدین نے نہ صرف جنگیں لڑی ہیں بلکہ انہوں نے مسائل کے حل کیلئے مذاکرات بھی کئے ہیں۔ بہترین جمہوری انداز بھی یہی ہے کہ معاملات کو سیاسی اندازمیں افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ فرنٹیئر کور میرے ماتحت نہیں، جو کہ ہونی چاہئے، لیکن حالیہ زلزلے میں ایف سی نے متاثرین کی امداد کیلئے ہماری بہت بڑی مدد کی۔ ایف سی کے اس کریڈٹ کو تسلیم نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ یہ سچ ہے کہ گذشتہ دس سال کے دوران وہاں کوئی حکومت وجود نہیں رکھتی تھی۔ خوف اور دہشت کا ایک ماحول تھا۔ پہلی بار ہم نے جاکر وہاں نہ صرف سیاسی کام کیا، بلکہ متاثرین سے ملاقاتیں کیں، ان کو ہر ممکن امداد کی یقین دہانی کرائی۔ ایف سی اور فوج کے تعاون کے بغیر متاثرین کی امداد ممکن نہیں تھی۔ بلوچستان اس وقت جن مشکلات سے گزر رہا ہے، اس کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے اور میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ سیاسی اور عسکری قیادت کو ایک پیج پرآنا ہوگا۔ ہمارا نصب العین اقتصادی و سیاسی معاملات کو حل کرتے ہوئے بلوچستان میں امن استحکام، ترقی اور خوشحالی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غیر سرکاری اداروں کو آواران کے زلزلہ متاثرین کی امداد سے روکنے کی جہاں تک خبروں کا تعلق ہے، تو وہ درست نہیں۔ جب میں وہاں موجود تھا تو 18 سے 20 این جی اوز وہاں موجود تھیں اور متاثرین کی امداد وبحالی کے کاموں میں مصروف عمل تھیں بلکہ ہم نے غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر آواران ڈیزاسٹر کوآرڈینیشن کمیٹی بھی تشکیل دی۔ جس کی میں خود نگرانی کر رہا تھا۔ وہاں سکیورٹی کے خدشات ضرور موجود ہیں۔ آنے والی این جی اوز کو ایف سی کانوائے میں لایا جا رہا تھا۔ تاکہ کہیں امدادی سامان کو لوٹا نہ جاسکے لیکن جس طرح کا تاثر پیش کیا گیا ہے، وہ قابل افسوس ہے۔ البتہ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں یا انٹرنیشنل آرگنائزیشن کی آواران آمد سے متعلق معاملہ وفاق دیکھتا ہے اور میں نے ذاتی طور پر دو روز قبل وفاق سے تحریری طور پر درخواست کی ہے، کہ عالمی اداروں سے زلزلہ متاثرین کی ازسر نو بحالی کے حوالے سے رابطہ کیا جائے اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن کو آواران آنے دیا جائے۔

تاہم ابھی تک مجھے اس پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا لیکن میں مایوس نہیں پرامید ہوں۔ میڈیا پر متاثرین تک امداد نہ پہنچنے سے متعلق خبروں میں صداقت نہیں۔ متاثرین کی امداد وبحالی کے حوالے سے حکومتی سطح پر ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس وقت بھی 36 ہزار خیمے تقسیم کئے جاچکے ہیں اور 3 ہزار ٹن خوراک کی تقسیم ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود جس طرح کا تاثر پیدا کیا جا رہا ہے، وہ قابل افسوس ہے۔ کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مخلوط حکومت ہے اور اتحادی جماعتوں کے مابین بہت سے معاملات تھے جن کو طے کرنا تھا۔ اس لئے ان معاملات کو طے کرنے میں تاخیر ہوئی۔ تاہم کسی قسم کے کوئی اختلافات نہیں تھے۔ میڈیا اس وقت بھی تنقید کرتا تھا جب کابینہ کا حجم بہت بڑا تھا اور آج کابینہ کی عدم موجودگی پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ لیکن اس کے پس پردہ وجوہات کیا تھیں، اس پر کبھی کسی نے توجہ نہیں دی۔

ڈاکٹر عبدالمک بلوچ نے کہا کہ ایک طرف تو ہم زلزلے میں الجھے رہے اور دیگر ایشوز ایسے تھے، جس کی وجہ سے مشکلات ہوتی رہیں اور ہم تاخیر کا شکار ہوئے، تاہم اختلافات نہیں تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بالکل میں نے یہ کہا تھا کہ مجھے ایسے گھوڑے کی سواری کا کوئی شوق نہیں، جس کی لگام میرے اپنے ہاتھ میں نہ ہو اور میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمنٹ ہی کے پاس اختیار ہے کہ جس کا میں کپتان ہوں اور میری پارٹی میری واچ ڈاگ ہے۔ جو نہ صرف ہر ماہ کارکردگی کا جائزہ لیتی ہے بلکہ اس حوالے سے تنقید بھی کی جاتی ہے۔ جس دن پارٹی نے مناسب سمجھا تو وہی ہوگا۔ بلوچستان میں مداخلت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایک شورش زدہ علاقہ ہے۔ وہاں مداخلت ہوگی لیکن مداخلت کے حوالے سے میرے پاس جو بھی اطلاعات ہیں وہ وفاق کی ہیں۔ البتہ بطور سیاسی کارکن کے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنے بہت سے معاملات کو بہتر کرلیں تو بہت کچھ بہتر ہوسکتا ہے۔

خبر کا کوڈ : 309886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش