0
Friday 23 Jan 2015 21:24

سعودی عرب میں بادشاہ کی تبدیلی، چند حقائق

سعودی عرب میں بادشاہ کی تبدیلی، چند حقائق
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدلعزیز السعود کی وفات کے بعد نئے فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے بادشاہت کا منصب سنبھال لیا ہے۔ ان کے بارے میں کچھ معلومات تو انتہائی معمولی نوعیت کی ہیں کہ شاہ سلمان مرحوم سعودی فرمانروا کے سوتیلے بھائی اور شاہ عبدالعزیز کے سب سے چھوٹے اور پینتیسویں بیٹے ہیں، مگر کچھ معلومات ایسی بھی ہیں جو آپ کو حیران کر دیں گی۔ نئے سعودی بادشاہ کو بھولپن کی بیماری "الزائمر" لاحق ہے اور ان کی یاداشت مسلسل زوال کی طرف رواں دواں ہے اور صحت کی خرابی کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ عملاً ملک کی باگ دوڑ ولی عہد کے ہی ہاتھ میں ہوگی۔ اس کے علاوہ ان پر فالج کا بھی ایک حملہ ہوچکا ہے، جس کے باعث ان کا بایاں بازو صرف معمولی حرکت ہی کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ شاہ عبداللہ کے سابق مشیر 70 سالہ شہزادہ مقرن کو پاکستان ک حوالے سے بھی ایک اعزاز حاصل ہے۔ یہ وہی پرنس مقرن بن عبدالعزیز ہیں جو کہ 2007ء میں پاکستان تشریف لائے تھے اور نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان ہونے والے جلاوطنی کے معاہدے کا راز افشاں کیا تھا۔

یہ دورہ اس وقت کیا گیا تھا جب میاں محمد نواز شریف کسی بھی معاہدے کے وجود سے انکاری تھے اور وطن واپسی کے لئے پر تول رہے تھے۔ اس وقت لبنانی سیاسی رہنما سعد الحریری بھی پرنس مقرن کے ساتھ تشریف لائے تھے اور دونوں نے اسلام آباد میں باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے نواز شریف کو معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے دس سال جلاوطنی مکمل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس موقع پر وہ معاہدے کی خلاف ورزی پر خاصے ناخوش نظر آئے تھے، تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اب وہ سعودی عرب کے اہم ترین عہدے پر فائز ہوچکے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہزادہ مقرن کی خدا نے عمردراز کی تو وہ ایک دن بادشاہ بھی بنیں گے۔ ایسے میں سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ ان حالات میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا سعودی شہزادے کو اب بھی معاہدے کی خلاف ورزی یاد ہے؟ کیا اس خلاف ورزی کے بدلے میں سابق صدر کو کوئی رعایت دینی پڑے گی؟ یا پرنس مقرن بھی نواز شریف کی طرح اس معاہدے کو بھول چکے ہیں۔

نئے سعودی فرمانروا اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے تعلقات کے بارے میں کئی قصے مشہور ہیں۔ اسامہ بن لادن کی زندگی پر کتاب تحریر کرنے والے یوسف بودنسکی کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان ہی وہ شخص تھے، جنہوں نے افغانستان میں روس کیخلاف لڑنے والے مجاہدین خصوصاً اسامہ سے مضبوط تعلقات قائم کرکے انہیں مالی معاونت فراہم کی۔ شاہ سلمان کی تین بیویاں اور 13 بچے ہیں۔ سعودی عرب کے نئے بادشاہ کے دوسرے بیٹے "سلطان بن سلمان" خلاء میں سفر کرنے والے پہلے مسلمان اور عرب شخص ہیں۔ جنہوں نے جون 1985ء میں سپیس شٹل میں سفر کیا۔ اکہتر سالہ سلمان بن عبدالعزیز نے شاہی سکول میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ کے رائل ایئر فورس کالج سے بھی تعلیم حاصل کر رکھی ہے، جس کی بنیاد پر انہیں سعودی انٹیلی جنس کی سربراہی بھی ملی۔ مزید برآں سلمان بن عبدالعزیز نے 1963ء میں قدرے جواں عمری میں ریاض کی گورنری سنبھالی اور ایک دوردراز صحرائی قصبے کو جدید ترین شہر بنا ڈالا۔
 
شاہ عبداللہ کی انتہائی خراب صحت کے باعث گذشتہ کچھ عرصے سے شہزادہ سلمان ہی مختلف تقریبات میں ان کی نمائندگی کرتے آئے ہیں۔ سعودی عرب کے نئے حکمراں شاہ سلمان بن عبدالعزیز اس سے پہلے وزیر دفاع رہ چکے ہیں۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز 31 دسمبر انیس 1935ء کو پیدا ہوئے۔ تعلیم اپنے دادا السعود کی طرف سے شاہی خاندان کیلئے بنائے گئے اسکول میں حاصل کی۔ 1950ء میں انہیں سرکاری عہدے پر شاہ عبدالعزیز نے اپنے نمائندے کے طور پر متعارف کروایا۔ 1954ء میں انہیں ریاض کا میئر بنایا گیا تو ان کی عمر 19 برس تھی۔ 20 سال کی عمر میں 1955ء میں انہیں وزیر کا عہدہ بھی مل گیا۔ 1963ء میں جب وہ صرف 27 سال کے تھے تو ان کو ریاض کا گورنر بنایا گیا، جس کو انہوں نے ایک چھوٹے سے قصبے سے عالی شان صوبے میں بدل دیا، انھوں نے غیر ملکی سرمایہ کاری پر خصوصی توجہ دی جبکہ مغرب سے تعلقات کو مضبوط کر دیا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز 1963ء سے 2011ء تک 48 سال تک صوبہ ریاض کے گورنر رہے۔ 5 نومبر 2011ء کو انہیں سعودی عرب کا وزیر دفاع مقرر کیا گیا۔ 18 جون 2012ء کو شہزادہ سلمان اپنے بھائی شہزادہ نائف کے انتقال کے بعد ولی عہد مقرر ہوئے۔

سعودی عرب کے نئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو ملک میں بے روزگاری، خواتین کے حقوق، سیاسی تحاریک سمیت دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہوگا۔ مسلم ممالک میں امیر ترین ریاست اور مسلمانوں کی مقدس سرزمین سعودی عرب اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے۔ نئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کو نوجوانوں کی بے روزگاری، عراق اور شام سے جہادیوں کی واپسی اور سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی "سیاسی" مہم جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ سعودی عرب کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے 12 فیصد سے زائد بے روزگار ہیں۔ ملک میں پانی کے نئے ذخائر، تعلیم کی ابتر صورت حال بھی توجہ کی متقاضی ہوگی۔ شاہ سلمان کو مشرقی صوبوں میں شورش کا مسئلہ بھی درپیش ہوگا، ملک میں آل سعود پر بڑھتی ہوئی تنقید بھی ان کے آڑے آئے گی۔ نئے سعودی حکمراں کو امریکا ایران تعلقات میں بہتری، اردن اور ترکی سے بھی واشنگٹن کے تعلقات سعودیہ کے لئے باعث تشویش ہوں گے۔ دوسری جانب یہ بی کہا جاتا ہے کہ "اخوان المسلمون" بھی سعودی عرب کیلئے خطرہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دولت اسلامیہ اور القاعدہ کے حملوں کا خطرہ بھی موجود ہے، جس کے لئے سعودی عرب نے عراق کے ساتھ اپنی سرحد پر دیوار بھی تعمیر کرنا شروع کر دی ہے۔

کنگ عبداللہ کی وفات کے بعد نئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے پرنس محمد بن نائف کو سعودی عرب کا ڈپٹی کراﺅن پرنس (نائب ولی عہد) مقرر کر دیا ہے۔ اس سے قبل یہ عہدہ پرنس مقرن کے پاس تھا جو شہزادہ سلمان کے بادشاہ بننے کے بعد ولی عہد بن گئے۔ پرنس محمد بن نائف کا تقرر اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ وہ سعودی عرب کے پہلے بادشاہ عبدالعزیز السعودی کے پہلے پوتے ہیں جو کہ مستقبل کے بادشاہ بنیں گے۔ اب تک اقتدار کنگ عبدالعزیز کے بیٹوں میں منتقل ہوتا رہا ہے۔ اس حوالے سے سعودی عرب میں خاص تشویش بھی پائی جاتی تھی کہ اگلی نسل میں سے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والا پہلا آدمی کون ہوگا۔ تاہم بادشاہ سلمان نے فوری تقرر کرکے اس حوالے سے بے چینی پھیلنے کا موقع نہیں دیا۔ 55 سالہ پرنس محمد بن نائف اس وقت ملک کے وزیر داخلہ ہیں۔ ان کے والد سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ نائف تھے جو کہ 2012ء میں دل کے دورہ کے بعد انتقال کرگئے تھے۔ 1975ء سے 2012ء تک وہ سعودی عرب کے وزیر داخلہ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ پرنس محمد بن نائف نے 1981ء میں امریکہ سے پولیٹیکل سائنس میں ڈگری حاصل کی۔ القاعدہ انہیں اپنے خطرناک ترین دشمن کا نام دے چکی ہے اور 2009ء میں جب وہ ملک کے سکیورٹی چیف تھے، ان کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔
خبر کا کوڈ : 434617
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش