1
0
Saturday 27 Nov 2010 12:11

کرم ایجنسی پاکستان کے بے بس شیعہ طلبہ

کرم ایجنسی پاکستان کے بے بس شیعہ طلبہ
تحریر:باقر علی
 پاکستان کے تمام قبائلی علاقے گزشتہ کئی برس سے دہشت گردی کا شکار ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر پاکستان کے دوسرے علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزرانے پر مجبور ہیں۔تاہم کرم ایجنسی واحد ایک ایسا قبائلی علاقہ ہے جہاں دہشت گردی کے علاوہ مذہبی فرقہ واریت نے تباہی مچا رکھی ہے۔کرم ایجنسی کے عوام تعلیم،صحت اور زراعت کے میدان میں اپنے آپ کو فاٹا کی دیگر ایجنسیوں سے خوش نصیب سمجھتے تھے۔لیکن دو ہزار سات کے بعد اس یہ عوامی تاثر یکسر بدل گیا ہے اور اب کرم ایجنسی کے لوگ اپنے آپ کو ملک کے بد نصیب ترین عوام سمجھتے ہیں۔
کرم ایجنسی میں تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی خوشحالی تباہی اور بربادی میں تبدیل ہو گئی ہے۔اگر کوئی تجارت سے وابستہ ہے تو کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے،اگر کوئی مریض ہے تو صحت کی سہولت جیسے دوا اور ڈاکٹر دونوں ندارد۔اسی طرح کسانوں اور ملازمین کے لئے بھی مصیبتوں اور مسائل کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ٹل پاڑہ چنار روڈ کی مستقل بندش تمام مسائل کی جڑ ہے۔اب اس روڈ سے گزرنا زندگی اور موت کی وادی سے گزرنے کے مترادف ہے۔اس روڈ پر کئی بار سکیورٹی فورسز کے نگرانی میں جانے والے قافلوں پر حملے ہو چکے ہیں جس میں اب تک درجنوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ سڑک اور سکول،کالج جانے والے معصوم طالب علموں کے لیے بھی محفوظ نہیں رہی اور سکول اور کالج کے طلبا کو بھی اغوا کیا جانے لگا ہے۔اس وجہ سے پشاور میں کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے طلبا بہت پریشان ہیں۔
پشاور یونیورسٹی میں زیر تعلیم مزمل حسین کا کہنا ہے کہ ان کی یہ آٹھویں عید ہے کہ وہ پردیس میں گزار رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ عید کی خوشیاں بھول گئے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ اب پاڑہ چنار میں موبائل فون بند ہو گیا ہے اور لینڈ لائن بھی کام نہیں کر رہی،جس کی وجہ سے کافی عرصے سے ان کا والدین سے رابط نہیں ہوا ہے۔
ایک اور طالب علم الطاف حسین نے بتایا کہ ان کو اپنے والدین بہن بھائی بہت یاد آتے ہیں۔لیکن وہ کیا کرے مجبوری ہے کہ گھر نہیں جا سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خاص کر عید کے موقع پر ان کو گھر والے زیادہ یاد آتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ پشاور یونیورسٹی کو عید کے موقع پر بند کر دیا گیا ہے اب ان کی نہ ہاسٹل میں جگہ ہے اور نہ پشاور میں کوئی رشتہ دار ہے کہ عید کے موقع پر ان کے ہاں چلے جائیں۔ اٹھارہ سالہ الطف حسین کی آنکھوں میں آنسوں بہہ رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ وہ اکیلے ہیں۔سید حسنی نے بتایا کہ وہ چھ مہینے پہلے افغانستان کے راستے سولہ گھنٹوں کاسفر کر کے گھر گیا تھا لیکن اب افغانستان کا راستہ محفوظ نہیں رہا،اب اس راستے سے بھی کوئی نہیں جاسکتا ہے۔
محمد حسین کا کہنا ہے کہ پشاور میں ان کے لیے سرکاری ہاسٹلوں میں جگہ نہیں ہے اور پرائیوٹ ہاسٹلز کے اخراجات پورے کرنے سے والدین قاصر ہے۔ان کے مطابق ان کے والدین کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے اور وہ ہمارے تعلیمی اخراجات کے لیے سخت فکر مند ہیں۔
منہاج کا کہنا تھا کہ پہلے فاٹا سکالرشپ جو ہر سال ملتا تھا اس سال پولیٹکل انتظامیہ نے روک دیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ وہ عید کی خوشیوں میں احساس محرومی کے شکار ہیں۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ پاڑہ چنار کے طلبا کے لیے خصوصی عید پیکج دیا جانا چاہیے،تاکہ طلبا مزید احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔
خبر کا کوڈ : 45256
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Austria
nice
ہماری پیشکش