0
Wednesday 19 Jan 2011 13:27

ایرانی جوہری سائنسدان کے قاتل کے سنسنی خیز اعترافات

ایرانی جوہری سائنسدان کے قاتل کے سنسنی خیز اعترافات

ترجمہ اور ترتیب: ایس این حسینی

چند روز قبل ایرانی ٹیلی ویژن کے کئی چینلز نے ڈاکٹر علی محمدی کے قتل کے منصوبے کے مرکزی ملزم مجید جمالی فش کو پیش کر کے اسکا تفصیلی انٹرویو جاری کیا جو اسکی اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے ساتھ روابط کی ابتداء سے لیکر علی محمدی کے قتل تک کے واقعات پر مشتمل تھا۔ ہم اپنے قارئین کی دلچسپی کیلئے اسکے اعترافات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔
"میرا نام مجید جمالی فش ہے۔ آج سے تین سال قبل ترکی کے شہر استنبول کے اپنے دوسرے سفر کے دوران میں "رادیور" نامی شخص سے آشنا ہوا جسکے ساتھ اسرائیلی کونسلیٹ گیا اور وہاں مائیکروفون کے ذریعے ایک اور شخص سے طویل گفتگو ہوئی۔ اگلے دن مجھے رادیور کے بغیر تنہا کونسلیٹ طلب کیا گیا۔ اس ملاقات میں مکمل ھدایات کے بعد مذکورہ بالا فرد بلکہ تمام ایرانی دوستوں کے ساتھ رابطہ کاٹنے اور ایران میں معلومات اکٹھا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ تہران آ کر 30 صفحات پر مشتمل معلومات فراہم کیں اور تین ماہ بعد دوبارہ ترکی گیا۔ دس دن قیام کے دوران میری ایک نئے شخص "بھرام" سے ملاقات کرائی گئی جو موساد کے ساتھ میرا مڈل مین بھی تھا۔ اسی دوران پلی گراف [جھوٹ پکڑنے والا آلہ] کے ذریعے میرا ایک ٹیسٹ لیا گیا۔ ٹیسٹ کے بعد میری ٹریننگ شروع ہو گئی۔ خصوصا تہران میں مختلف مکانات، عمومی مقامات، پارکوں وغیرہ کی نشاندھی اور یہ کہ سرکاری افراد کہاں کہاں ہوتے ہیں، سڑکوں پر کہاں کہاں کیمرے نصب ہیں وغیرہ۔
اس سفر میں میری ایک درجہ ترقی ہو گئی، اور مجھے میموری کے حامل ایک ڈیجیٹل کیمرے کے ساتھ چمڑے کی ایک جدید کالی بیلٹ فراہم کی گئی جس میں کیمرے کی میموری کیلئے ایک خصوصی اور خفیہ جگہ تھی۔ آئندہ کاغذ کی بجائے اسی کیمرے اور میموری کے توسط سے معلومات فراہم کرنے کی ھدایت دی گئ۔
میں رپورٹس ایک کاغذ پر لکھ کر اس سے تصویر لے لیتا، پھر میموری میں محفوظ کر کے بیلٹ میں رکھ کر ایران سے باہر لے جاتا۔ اگلے سفر میں مجھے ایک ای میل ایڈریس بھی دیا گیا۔ چنانچہ بعد میں ای میل کے ذریعے سفر کی تاریخ مقرر کی جاتی تھی۔ اس سفر میں چند ممالک کے ناموں کا کوڈ بھی دیا جا چکا تھا۔ مثلا تھائی لینڈ کو جنوب اور ترکی کو شمال قرار دیا گیا تھا۔ اسکے بعد اسی کوڈ کے مطابق مجھے جنوب مشرقی ایشیا کی طرف بلایا گیا۔ وہاں پہلے سے ای میل میں ڈالے گئے ایڈریس کے ذریعے میں بھرام سے ملا۔ بھرام نے مجھے دو مزید افراد سے متعارف کروایا جو ٹیکنیکل اور کمپیوٹر کے ماہر "جونی" اور آپریشنل امور کے ماہر "اومر" تھے۔ مجھے مختلف مہارتوں کی تربیت دی گئی۔ مثلا کسی کا تعاقب کرنا، تعاقب سے بچنا، گاڑی کا تعاقب، کسی مخصوص جگہ سے معلومات اکٹھا کرنا اور گاڑی کے نیچے بم نصب کرنا وغیرہ۔ یہ ساری

چیزیں مجھے عملا سکھائی اور پڑھائی گئیں۔ خصوصا لیپ ٹاپ کے ذریعے براہ راست رابطے کے متعلق مجھے کافی ٹریننگ دی گئی۔ انہوں نے مجھے ایک جدید لیپ ٹاپ بھی دیا لیکن میں چونکہ اپنا لیپ ٹاپ بھی اپنے ساتھ لا چکا تھا اور بیک وقت دو لیپ ٹاپ ایران لے جانے کو انہوں نے خطرناک قرار دیا لہذا نیا لیپ ٹاپ انہیں واپس کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ لیپ ٹا تمہیں اگلے سفر میں دیا جائے گا۔ مجھے کچھ نئی معلومات جمع کرنے کی ذمہ داری سونپ کر واپس تہران بھیج دیا گیا۔
یہ جدید لیپ ٹاپ جو بظاہر ایک سادہ لیپ ٹاپ تھا اورکوئی اسکی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا تاہم اسمیں کمال یہ تھا کہ اس میں دو XP وینڈوز تھیں جن میں سے ایک خفیہ تھی۔ اس وینڈوز میں داخل ہونے سے پہلے کچھ مراحل کو طے کرنا پڑتا تھا۔ کچھ خاص اور نہایت پیچیدہ مراحل کے بعد تیسری ونڈوز جسے "ریڈ وینڈوز" کہا جاتا تھا، میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ اس میں جانے سے پہلے پاسورڈ انٹر کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنا پاس ورڈ sony777 رکھا تھا۔
مجھے دوسری مرتبہ جنوب مشرقی ایشیا کے ایک خاص ملک بلایا گیا۔ اس سفر کے دوران مجھے مذکورہ لیپ ٹاپ بھی مل گیا۔ اس سفر میں بھرام کے ساتھ ایک حاملہ خاتون اور مزید دو نئے افراد سے میری ملاقات ہوئی جنہوں نے مجھے سائیکل سواری کی مکمل تربیت دی۔ سائیکل کے پیچھے ایک ٹوکری باندھ کر نقشے اور ھدایت کے مطابق مقامات کو ڈھونڈنے کی مکمل تربیت دی گئی۔ اس سفر میں میرے ساتھ اپنی بیوی بھی تھی۔ مجھے پیسے رکھنے کیلئے دو مخصوص بیگ اور30 ھزار ڈالردیئے گئے۔ اور کچھ خاص معلومات جمع کرنے کی ذمہ داری دے کر مجھے تہران واپس بھیج دیا گیا۔
اگلی دفعہ مجھے یورپ کے ایک خاص ملک بلانے کا پروگرام بنایا گیا جہاں "سٹیفن کیرالی" نامی ایک شخص کا کیمپ تھا۔ وہاں مجھے باکسنگ کی تربیت دینا مقصود تھی مگر کسی خاص وجہ سے یہ پروگرام کینسل ہو کر مجھے زمینی راستے سے ایک ہمسایہ ملک طلب کیا گیا۔
یہاں بھرام ملا۔ اس نے جوتوں سے لیکر کپڑوں اور بیگ تک تمام چیزیں بالکل نئی خرید کر دے دیں۔ تین دن بعد مجھے ایک ہوٹل میں طلب کیا گیا جہاں انگوٹھی کے علاوہ میرا اپنا سارا سامان لے کر رکھ لیا گیا اور ایئرپورٹ چلے گئے۔ یہاں ہمارے ساتھ ایک اور اہم شخص بھی ہمراہ ہو گیا، تاہم حکم یہ ملا کہ اس کے بعد اس سے آپ کا کوئی کام نہیں۔ گویا میرا ہمسفر صرف بھرام ہے اور تمام تفصیلات کے بعد مجھے اپنا پاسپورٹ دیا گیا۔ میرے پاسپورٹ پر ایک سٹیمپ لگی ہوئی تھی جس کے تحت میں ایک اسرائیلی شہری شمار ہوتا تھا۔
یہاں سے ہم سب دوست پرواز کر کے تل ابیب پہنچ گئے۔ ایئرپورٹ پہنچنے پر پاسپورٹ پر مہر لگانے والے افسر نے مہر لگاتے وقت عبرانی زبان میں مجھ سے ایک سوال پوچھا، میں سمجھ نہ سکا۔ میری ہیچکچاہٹ سے اس
کو شک گزرا اور مجھے روکا تو میرے ساتھی نے اپنا کارڈ دکھا کر میری جان خلاصی کر کے مجھے اپنے ساتھ باہر نکالا۔
باہر ایک ڈبل کیبن گاڑی میں ھم ائرپورٹ سے چل پڑے اور تل ابیب کو کراس کرنے کے بعد ھرزلیا Herzliya نامی شہر پہنچ گئے جہاں مجھے 1000 اسرائیلی سکے [شیکل shekel] اور اسرائیلی سم کارڈ سمیت ایک موٹرولا موبائل دے کر ایک ہوٹل میں چھوڑ دیا گیا [1ڈالر = 3.55 شیکل]۔ ہوٹل میں کچھ آرام کے بعد بھرام اور جونی آ کر میری تربیت میں مشغول ہو گئے۔ راستوں کی راھنمائی وغیرہ کی ابتدائی تربیت یہیں پر مجھے دی گئی۔ اسکے اگلے دن کچھ سودا سلف خرید کر یہاں سے روانہ ہو کر تل ابیب یروشلم ھائی وے پر آدھ گھنٹے سفر کرنے کے بعد ایک تھانے میں پہنچ گئے جس کے چارون طرف 3 یا 4 کلومیٹر تک مظبوط دیوار بنائی گئی تھی۔ یہاں مجھے موٹر سائیکل کی پروفیشنل ٹریننگ دی گئی۔ پہلے روز اسرائیلی ساخت کی 200 سی سی موٹر سائیکل تھی جبکہ اگلے روز بالکل زیرو میٹر 125 سی سی ایرانی ساخت کے دو موٹر سائیکل فراہم کئے گئے۔ انہی پر پوری تربیت دی گئی۔ آخر میں اس پر دو پیچوں کے ذریعے 20 تا 30 کلوگرام کا ایک ڈبہ فٹ کر کے اسکے ساتھ ڈرائیونگ کرائی۔ پھر اسی ڈبے کے ساتھ اسی ایرانی ساخت کی موٹر سائکل پر تل ابیب شہر میں ایک خاص نقطے سے دوسرے نقطے تک جانے اور اسے تلاش کرنے کی عملی تربیت بھی دی گئی۔
اس اثنا میں مجھے دو دن تک پستول کی تربیت بھی دی گئی۔ اس تربیت کے دوران بلکہ اکثر تربیتوں کے دوران فلم بندی بھی کی جاتی تھی۔ کھڑے، متحرک اور مختلف پوزیشنوں کے ساتھ پستول کے ذریعے کسی شخص کو قتل کرنے کی پوری تربیت دی گئی۔ فائرنگ کے دوران مجھے فوجی لباس پہنایا جاتا تھا تاکہ ان کپڑوں پر بارود کی بو یا نشان باقی نہ رہے۔ نیزیہ کپڑے اپنی بو دوسرے کپڑوں کو منتقل نہ کرے۔
انہی ایام میں ایک نیا شخص جان آ گیا جو ٹیکنیکل کاموں کا ماہر تھا۔ اس نے کئی دفعہ موٹر سائیکل پر ایک ڈبہ باندھنے کا طریقہ سکھایا اورکہا کہ یہ ڈبہ کم سے کم وقت اورکم سے کم شور اور آواز کے ساتھ بار بار موٹر سائیکل پر نصب کرو۔ میں اپنے ہاتھوں سے بار بار اسے انجام دیتا تھا۔ واضح رہے کہ انہوں نے اس کام کیلئے اتنا بندوبست کیا تھا کہ پیچ بھی ایرانی فراہم کئے تھے تاکہ ایران میں اصل کام انجام دیتے وقت مجھے کوئی دقت پیش نہ آئے۔
ایک دن ہوٹل میں دو خواتین میرے پاس آئیں اور مجھے میک اپ کی مکمل تربیت دی۔ جب تربیت مکمل ہو گئی تو میرا ٹیسٹ لیا گیا جس میں 7 افراد میرا امتحان لینے والے تھے اور کہا گیا کہ جب تک یہ افراد OK نہیں کرتے آپ کی تربیت ناقص قرار دے کر دوبارہ دہرائی جائے گی کیونکہ ایرانی انٹیلی جنس اداروں سے ان پر ایک خوف طاری تھا۔ اسی وجہ سے وہ زیادہ احتیاط کرتے تھے تاکہ کوئی کمی باقی نہ رہے۔ وہ مجھے بھی بار
بار تاکید کرتے تھے کہ کوئی غلطی اور کمی واقع نہ ہو کہ کہیں ایجنسیوں کے ہاتھ نہ لگ جاوں۔
اگلے دن بالکل ایرانی شکل کا ایک شخص آ گیا جو عبرانی میں گفتگو کر رہا تھا جس کا ترجمہ بھرام کرتا تھا۔ وہ مجھے باربار تسلیاں دے کر کہتا تھا: "تم بالکل بے فکر رہو، آپ کو کچھ نہیں ہو گا، نیزیہ کہ عملی کام میں کوئی نکتہ نہ چھوڑنا کہ وہی تیرے لئے مشکل کا سبب بن سکتا ہے"۔ کافی اطمینان حاصل کرنے کے بعد مجھے ہوٹل میں لے آئے اور اسکے اگلے ہی دن ہم پرواز کے ذریعے ایران کے اسی مذکورہ ھمسایہ ملک میں آ گئے۔ یہاں ایک ہوٹل میں مجھے اپنا ایرانی لباس واپس کر دیا گیا۔ اس ہوٹل میں بھی میرے ساتھ 3 اور افراد کی ملاقات کرائی گئی جو عبرانی بولتے تھے اور مخصوص کام کے متعلق مجھے دوبارہ توضیح دی گئی۔
مجھے ایک مخصوص قسم کا جیومیٹری باکس بھی دیا گیا جس میں نیچے ایک پیچ لگا تھا۔ پیچ والے حصے میں قومی شناختی کارڈ، مھدی ولی کے نام سے موٹرسائیکل لائسنس اور ایرانی نیشنیلیٹی کے دوسرے لازمی اسناد اس میں رکھے گئے تھے۔ لائسنس پر میرا اپنا وہ فوٹو چسپان تھا جو انہوں نے مجھ سے پہلے لیا تھا۔
اسرائیل میں تربیت کے دوران میرے گھر سے چوری ہو گئی تھی۔ اسی وجہ سے انہیں خوف تھا کہ چور کہیں میرا وہ خاص کمپیوٹر نہ لے گئے ہوں۔ لہذا اطمینان کی خاطر انہوں نے مجھے ایک اور کمپیوٹر بھی دیا تاکہ کام میں تعطل نہ پڑے۔
یوں میں ایران آ گیا۔ بارڈر پر کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ دو تین دن بعد مجھے کہا گیا کہ موٹرسائیکل خود نہ خریدوں بلکہ موٹرسائکل مل جائے گی اور یہ کہ موٹر سائیکل اپنی تحویل میں لے لوں۔ اس کام کیلئے ایک ڈاٹسن خریدنے کا بھی کہا گیا، اسکے بعد میک اپ کے ذریعے شکل تبدیل کر کے بغیر نام اور رجسٹریشن کے ایک موبائل سیٹ بھی خریدنے کی ہدایت دی گئی۔ مجھے کہا گیا کہ ان تمام کاموں کے بعد ایک مخصوص مقام پر پہنچوں جہاں موٹر سائیکل پارک کی گئی تھی۔
ھدایات کے مطابق میں نے تمام امورانجام دئے۔ ڈاٹسن خرید لی اور اسکا نمبر اپنے موبائل میں محفوظ کر دیا۔ وعدے کے مطابق دو عام ایرانی موٹرسائیکلوں کے ساتھ وہ مطلوبہ جگہ پر آ گئے۔ موٹرسائیکل زیادہ نئے نہیں تھے اور اسکے کچھ پرزوں کو تبدیل بھی کیا جا چکا تھا۔ میں نے انکی ھدایت کے مطابق انہیں مطلوبہ جگہ منتقل کر دیا۔
موٹرسائکل پرڈبہ فٹ کرنے سے ایک دن قبل ڈاکٹر علی محمدی کے گھر کا ایڈریس دیا گیا۔ میں اس گھر کا ماڈل پہلے ہی اسرائیل میں دیکھ چکا تھا۔ اس دن معلومات حاصل کرنے اور جای وقوعہ کو عملا دیکھنےکی غرض سے میں وہاں گیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ وہی گھر ہے جسکا ماڈل تم نے دیکھا ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ وہاں رکنا نہیں حتی گھر کی طرف نگاہ بھی نہ کروں۔ فاصلے سے گھر کے ساتھ گذر کر اپنا راستہ پیدا کروں۔
میں نے ایسا ہی کیا۔ اگلے دن دوپہر کو مجھے وہ ڈبہ نصب کرنا تھا، البتہ ان دو ھفتوں میں موٹرسائیکلوں کے متعلق اطمینان حاصل کرنے کی خاطر میں دو بار گودام میں گیا۔ گودام میں دو کارٹن پڑے تھے۔ مستطیلی کارٹن کو کھولا تو دیکھا کہ وہی سامان اس میں پڑا ہے جسے اسرائیل میں دیکھا تھا حتی کہ ان کے رنگ بھی وہی تھے۔ اس سامان میں ایک اوزار کا ڈبہ تھا، چابیوں کے ساتھ دو تالے، دستانے اور ایک زنجیر بھی اس میں پڑی تھی۔
ایک ڈیجیٹل ٹیلیفون بالکل اسی طرح جس پر جونی نے مجھے تربیت دی تھی، اسکے ساتھ دو اضافی بیٹریاں بھی تھیں۔ ایک کارٹن جو بم رکھنے کیلئے مختص تھا اسکے دو کور تھے۔ پہلا کور پلاسٹک کا تھا، بہت صاف اور نیا تھا۔ دوسرا کور ایلومینیم کا تھا جو سریش کے ذریعے بند تھا۔ میں نے اسے کھول کرھدایت کے مطابق سارا کام میڈیکل دستانوں کے ساتھ بڑی احتیاط سے انجام دیا تاکہ انگلیوں کے نشانات باقی نہ رہیں۔
آخری بار ٹیلی فون کے ذریعے مجھے کہا گیا کہ کل صبح 5 بجے موٹرسائیکل لا کر پروفیسر علی محمدی کے گھر کے سامنے کھڑا کر دوں۔ میں نے اپنا ٹیلیفون بند کیا اور گھر سے بذریعہ لیپ ٹاپ رابطہ کیا اور تمام امور کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ میں نے "سب اچھا" کا سگنل دے دیا۔ کہا سب کچھ تیار ہے، انہوں نے کل صبح 5 بجے آنے کا حکم دیا۔ میں صبح 4 بجے بیدار ہوا اور دوبارہ لیپ ٹاپ چیک کیا کیونکہ آپریشن کینسل ہونے کی صورت میں انہوں نے مجھے اطلاع دینی تھی۔ چنانچہ کوئی نیا پیغام نہ پا کر میں نے پروگرام کے مطابق سادہ گرم لباس پہن لیا تاکہ آسانی سے ڈرائیونگ کر سکوں [کیونکہ سردیوں کا موسم تھا]۔ سیکیورٹی کی خاطر ٹیلی فون گھر میں چھوڑ دیا اور ٹیکسی لے کر طے شدہ پارک پہنچ گیا۔ وہاں سے محمودیہ کے مطلوبہ گودام تک پیدل گیا۔ گودام سے موٹرسائیکل لے کر ھیلمیٹ اور دستانے پہن لئے اور اسی گودام کے اندر ڈبے میں ضروری امور انجام دیئے مثلا دو سوئیاں نکال کر وہاں پھینک دیں۔ مزید دو گولی نما پنوں کو نکال کر یہاں پھینکنا تھا اور کام والے دستانوں کو پھینکنا تھا وغیرہ۔ یہ سب امور انجام دیئے۔
گودام سے باہر آ کر موٹرسائیکل کو سٹارٹ کئے بغیر پارکنگ سے باہر لے آیا، 50 میٹر تک اسی حالت میں چلایا، اسکے بعد موٹر سائکل سٹارٹ کر کے ھدایت کے مطابق راستے پر صبا روڈ کے آخر میں شریعتی روڈ تک لے کر بجلی کے کارخانے کے سامنے کھڑا کیا جس کا کوڈ قھوہ خانہ تھا۔ وہاں سے رابطہ کیا لیکن کہا کہ سیٹلائٹ ٹیلی فون محفوظ نہیں کھل کر بات نہ کروں، سیٹلائٹ فون کیلئے بھی کوڈ رکھے گئے تھے۔
ایک اور ٹیلی فون پاس تھا جس میں ایلومینیم کا ایک انٹینا تھا۔ اس سے تسلی کے ساتھ باتیں کی جا سکتی تھیں اور اس پر تفصیل بیان کی جا سکتی تھی۔ لیکن ہوا یوں کہ یہ محفوظ ٹیلی فون خراب
ہو گیا۔ انٹینا کے باوجود رابطہ برقرار نہ رکھ سکا۔ لہذا مجبورا سیٹلائٹ فون کے ذریعے انکے ساتھ دوبارہ رابطہ شروع کیا تاہم اطمینان سے نہیں بلکہ کوڈ کے ذریعے گفتگو کی۔
پروگرام کے مطابق موٹرسائیکل اسٹارٹ کی اور 3 مھر روڈ چلا گیا۔ وہاں سے اوپر کی طرف گیا اور موٹرسائیکل کو درخت کے ساتھ ہی پارک کر دیا اور ہدایات کے مطابق 3 مھر روڈ کی طرف چلا گیا، پھر بائیں طرف چلا گیا جسکا کوڈ "لائبریری" تھا۔ یعنی وہ جگہ جہاں سے انہیں اطلاع دینی تھی کہ موٹر سائیکل کھڑی کر دی ہے۔ میں نے او کے رپورٹ دے دی اورپھر ایک طرف چلا جس کا کوڈ "مزار" تھا۔ وہاں انتظار کرنا تھا۔ وہاں میں 3 بجے سہ پہر تک انتظار کرتا رہا۔ میرے ساتھ رابطہ کیا گیا اور کہا گیا کہ پروگرام نمبر 2 کے مطابق آگے بڑھو۔ لہذا میں واپس گیا، کوڈ کے مطابق مجھے "میڈیسن" [سامان] واپس اٹھا کر "میڈیکل سٹور" [گودام] پہنچانا تھا۔ میں فرمان کے مطابق موٹر سائیکل کو واپس گودام لے گیا اور ھدایت کے مطابق جو سوئیاں میں نے نکال کر پھینکی تھیں انکو گودام میں دوبارہ فٹ کر کے او کے رپورٹ دے دی۔
اس کے اگلے روز مجھے حکم ملا کہ میں اس مشق کو دوبارہ انجام دوں۔ چنانچہ میں صبح 4 بجے اٹھا، تجریش کے مضافات میں وعدے کے مطابق اسی پچھلے دن کی طرح سارے کام انجام دیئے، جو چیزیں ضائع کرنا تھیں وہ دریا میں پھینکیں یا ضائع کیں۔ سب کام انجام دینے کے بعد پروگرام کے مطابق میں اپنے سسر کے گھر گیا۔ وہاں ٹیلی ویژن کے ذریعے متوجہ ہوا کہ اصل معاملہ کیا تھا۔ کون قتل ہو گیا ہے۔ کیونکہ 24 گھنٹے تازہ خبریں نشر ہو رہی تھیں، تب پتہ چلا کہ ٹارگٹ کون شخص تھا۔
مجھے کہا گیا کہ اخبار دیکھنے پر کوئی ردعمل اور گھبراہٹ نہ دکھا وں اور بالکل معمول کی زندگی جاری رکھوں۔ ایک یا دو ہفتے بعد میرے ساتھ رابطہ کیا جائےگا اور کہا گیا کہ عید نوروز کے موقع پر ہماری ملاقات ہو گی۔ مگر عید پر بھی ملاقات نہ ہو سکی بلکہ ایک ماہ اور لیٹ ہو گئی۔
طے یہ تھا کہ ملاقات ایک ہمسایہ ملک میں ہو گی، نیز یہ بھی طے تھا کہ ملاقات نہایت مختصر ہو گی۔ پروگرام کے مطابق میں زمینی راستے سے آرمینیا چلا گیا۔ ۔صرف جونی اور بھرام آئے تھے، دو دن ملاقات کے تھے، پہلے دن جونی نے ایک ہوٹل میں مجھ سے زبانی سوالات کئے اور میرے جوابات کو ٹائپ کر لیا۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے لئے ایک کاروبار ڈھونڈوں اور کاروبار شروع کروں۔ 35 ھزار ڈالر جو دو بیگوں میں تھے مجھے دیئے گئے، اور کہا کہ اس آپریشن کیلئے آپ کو 50 ھزار ڈالر ملیں گے، جن میں سے یہ رقم اب لے لو باقی دوسری قسط میں دی جائے گی۔ اور کہا کہ اکٹھے ہم نہیں دے سکتے۔
مجھے 50 ھزار کا بقیہ حصہ نہیں ملا، معلوم نہیں کہ وہ خود لے اڑے، بھرام کھا گیا، یا جونی لے گیا"۔

مترجم : ایس این حسینی
خبر کا کوڈ : 50711
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش