0
Friday 19 Aug 2016 15:47

ایران سے ممکنہ جنگ کی صورت میں اس کے انتہائی درست نشانہ لگانے والے میزائلوں سے سامنا ہو گا، اسرائیلی تھنک ٹینک

ایران سے ممکنہ جنگ کی صورت میں اس کے انتہائی درست نشانہ لگانے والے میزائلوں سے سامنا ہو گا، اسرائیلی تھنک ٹینک
اسلام ٹائمز – فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اسرائیلی تھنک ٹینک بیگن سادات ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے "انتہائی درست عمل کرنے والے میزائلوں سے درپیش نیا خطرہ" کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں لکھا ہے: ٹھیک نشانہ لگانے کے اعتبار سے انتہائی درست عمل کرنے والے میزائلوں کا خطرہ جوہری ہتھیاروں سے کم نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مستقبل قریب میں اکثر ممالک انتہائی درست عمل کرنے والے گائیڈڈ میزائلوں سے لیس ہو جائیں گے۔ یہ میزائل اگرچہ جوہری ہتھیاروں کی مانند وسیع پیمانے پر تباہی نہیں پھیلا سکتے لیکن سنگین نقصان پہنچانے اور کاری ضرب لگانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ البتہ ان میزائلوں کے پھیلاو سے دنیا اس حد تک خطرناک نہیں ہو گی جتنی جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو سے ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود ماضی کی نسبت زیادہ خطرناک ہو جائے گی۔

مقالہ نگار مزید لکھتا ہے: بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ انتہائی درست عمل کرنے والے میزائلوں کے میدان میں اسرائیل وہ پہلا ملک نہیں جو کام کر رہا ہے بلکہ اسے کم از کم دو ایسے دشمنوں کا سامنا بھی ہے جو ایسے میزائل بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں اور یہ دشمن ایران اور حزب اللہ لبنان ہیں۔ البتہ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ ایک دن حماس بھی ایسے میزائل بنانے کی صلاحیت سے برخوردار ہو جائے۔ حال ہی میں ایران ایسی ٹیکنولوجی حاصل کر چکا ہے جس کے ذریعے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے انتہائی درست عمل کرنے والے میزائل تیار کئے جا سکتے ہیں۔ خطے کی دوسری طاقتیں بھی شاید ایسی ٹیکنولوجی حاصل کر چکی ہیں۔ ایران نے حتی حزب اللہ لبنان کو بھی ایسے میزائلوں سے لیس کر دیا ہے۔ ان میزائلوں پر 500 کلوگرام تک کے وار ہیڈ نصب کئے جا سکتے ہیں جبکہ ان میزائلوں میں نشانہ بنانے میں خطا کا احتمال صرف 5 میٹر تک ہے۔ انتہائی درست عمل کرنے والے میزائلوں نے روایتی انداز میں جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا ہے اور اگر بالفرض اسرائیل روایتی انداز میں جنگ میں کامیاب بھی ہو جائے تو میزائل جنگ میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسرائیل پر میزائل حملے کی صورت میں ہزاروں عام شہری ہلاک ہونے اور ملکی انفرااسٹرکچر جیسے پاور پلانٹس، واٹر سپلائی کا نظام، بین الاقوامی ایئرپورٹس وغیرہ کی مکمل طور پر نابودی کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی دو تہائی بجلی صرف 6 پاور پلانٹس کے ذریعے بنائی جا رہی ہے۔

بیگن سادات انسٹی ٹیوٹ اپنے مقالے میں لکھتا ہے: کسی کو اس بات کا علم نہیں کہ چند میزائل گرنے اور اہم انفرااسٹرکچر کی تباہی کے بعد اسرائیل میں زندگی کیسے بسر ہو گی لیکن صرف بجلی کا منقطع ہونا ہی اسرائیلی عوام اور معیشت پر شدید منفی اثرات کا باعث بنے گا۔ دوسری طرف اسرائیل دیگر ممالک کی طرح ہنگامی حالات میں اپنے ہمسایہ ممالک سے بھی امید وابستہ نہیں کر سکتا۔ لہذا میزائل ڈینفس سسٹمز جیسے فولادی گنبد اور فلاخن انتہائی درست عمل کرنے والے میزائلوں کے مقابلے میں اسرائیل کے اہم انفرااسٹرکچر کو محفوظ بنانے کیلئے ایک طاقتور ہتھیار تصور نہیں کئے جا سکتے۔ اگرچہ بعض یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ میزائل ڈیفنس سسٹم کا فروغ بذات خود انتہائی درست عمل کرنے والے میزائلوں کے مقابلے میں موثر ثابت نہیں ہو سکتا لہذا اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جارحانہ صلاحیتوں میں اضافہ بھی ضروری ہے۔ لہذا اسرائیلی رہنماوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج دفاعی اور جارحانہ سرگرمیوں کے درمیان توازن برقرار کرنا اور اس ضمن میں بجٹ میں اضافہ کرنا ہے۔

مقالے کے آخر میں لکھتا ہے: اگلی جنگ میں اسرائیل کی معیشت بڑے خطرے سے روبرو ہو گی۔ اسی طرح انتہائی درست عمل کرنے والے میزائلوں کے ذریعے ہلاک شدگان کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل چند دنوں حتی 6 دنوں میں بھی جنگ سے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ لہذا اسرائیل کو بھی ایسے میزائل تیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ حزب اللہ لبنان اور ایران کو ایسے میزائل استعمال کرنے سے روکا جا سکے۔
خبر کا کوڈ : 561579
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش