0
Tuesday 20 Sep 2016 22:07

پانامہ لیکس معاملہ پر اسٹیٹ بینک، نیب، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی نے بےبسی ظہار کردی

پانامہ لیکس معاملہ پر اسٹیٹ بینک، نیب، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی نے بےبسی ظہار کردی
اسلام ٹائمز۔ پانامہ پیپرز معاملہ پر پبلک اکائونٹس کمیٹی میں اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے، نیب اور ایس ای سی پی کے سربراہان نے بے بسی کا اظہار کر دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ قوانین کے تحت جتنا کر سکتے تھے کر لیا، چیئرمین نیب کہتے ہیں کہ پانامہ پیپرز کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں ہیں، سیکرٹری قانون نے تو پی اے سی کے اختیارات پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔ تفصیلات کے مطابق، پی اے سی اجلاس میں نون لیگ کے ارکان کی اپوزیشن ارکان سے متعدد جھڑپیں ہوئیں، شیخ رشید اور میاں منان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ پی اے سی کا اجلاس شروع ہوا تو ابتدا میں ہی لیگی رکن میاں منان اور شیخ رشید کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہو گیا۔ کچھ دیر بعد دونوں ارکان کے درمیان دوبارہ جھڑپ ہوئی تو شیخ رشید احتجاجاً واک آئوٹ کرگئے۔ لیگی ارکان نے پی اے سی کے دائرہ اختیار سے متعلق استفسار کیا تو سیکرٹری قانون نے قائدہ 203 کی روشنی میں پی اے سی کے اختیارات پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پانامہ پیپرز کا معاملہ قاعدہ 203 کے تحت نہیں ہے، اس لئے پی اے سی اس معاملہ کو نہیں دیکھ سکتی۔ یہ معاملہ قائمہ کمیٹی خزانہ دیکھ سکتی ہے۔ پی اے سی نے سیکرٹری قانون کی رائے مسترد کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر کو بریفنگ دینے کی ہدایت کی۔

چیئرمین ایف بی آر نثار محمد خان نے بتایا کہ پانامہ پیپرز میں شامل 221 پاکستانی افراد کو یکم اور دو ستمبر کو نوٹسز جاری کئے گئے ہیں، دوسری فہرست کی تیاری کیلئے کچھ لوگوں کے ایڈریسز ٹریس کئے جا رہے ہیں، چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ان کا ادارہ صرف یہ دیکھے گا کہ رقم باہر بھجوانے سے پہلے ٹیکس ادا کیا گیا یا نہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک اشرف وتھرا نے بریفنگ میں بتایا کہ مرکزی بینک کے پاس کرمنل تحقیقات کا کوئی اختیار نہیں، صرف بینکوں کی مدد سے منی لانڈرنگ کے خلاف تحقیقات کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 250 آف شور کمپنیوں نے 2 ارب 37 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ پانامہ کی بھی 10 آف شور کمپنیوں نے پاکستان میں 12 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اشرف وتھرا نے بتایا کہ پاکستانیوں نے 25 ممالک میں 60 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، اس میں سے 8 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری آف شور کمپنیوں میں ہے لیکن پانامہ کی کوئی آف شور کمپنی شامل نہیں۔

چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی نے کمیٹی کو بتایا کہ پانامہ پیپرز میں آنے والے 155 افراد رجسٹرڈ کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہیں مگر انہوں نے رجسٹرڈ کمپنیوں کے ذریعے کوئی رقم باہر نہیں بھجوائی۔ ذاتی اکائونٹس کے ذریعے آف شور میں سرمایہ کاری کی تحقیق کرنا ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے محمد عملیش نے بتایا کہ ٹیکس چوری کرنے سے متعلق معاملہ ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا۔ چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے بھی معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ اداروں کی ابتدائی تحقیقات سے قبل وہ کوئی ایکشن نہیں لے سکتے۔ انہوں نے کمیٹی کو واضح طور پر بتایا کہ نیب کے پاس پانامہ پیپرز کے حوالے سے کسی کے خلاف کوئی شواہد نہیں ہیں، نہ ہی قومی احتساب بیورو اسوقت پانامہ پیپرز پر کوئی تحقیقات کر رہا ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے تمام اداروں کے سربراہان کو ایک ماہ کا وقت دیتے ہوئے پانامہ پیپرز پر پیش رفت کی رپورٹ طلب کر لی۔
خبر کا کوڈ : 568887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش