0
Friday 25 Mar 2011 16:51

کرم ایجنسی،مسافر گاڑیوں پر فائرنگ، 13 افراد جاں بحق،متعدد زخمی، 20 اغوا، مسافروں کو دھشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، سید عابد حسینی

کرم ایجنسی،مسافر گاڑیوں پر فائرنگ، 13 افراد جاں بحق،متعدد زخمی، 20 اغوا، مسافروں کو دھشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، سید عابد حسینی
ہنگو:اسلام ٹائمز۔ ہنگو میں لوئر کرم ایجنسی کے علاقہ بگن میں مسافر کوچوں پر فائرنگ سے 13 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق پشاور سے پاراچنار جاتے ہوئے مسافر کوچوں پر لوئر کرم کے علاقہ بگن کے مقام پر نامعلوم دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 13 افراد موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ فائرنگ کے بعد نامعلوم دہشت گردوں نے گاڑیوں کو آگ بھی لگا دی جبکہ دو گاڑیوں کو مسافروں سمیت اغواء کر لیا گیا، سیکورٹی فورسز نے علاقہ کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ 
جنگ نیوز کے مطابق لوئر کرم ایجنسی میں مسافر گاڑیوں پر مسلح دہشت گردوں کی فائرنگ سے آٹھ افراد جاں بحق اور 4 زخمی ہو گئے، مسلح دہشت گردوں  نے 20 افراد کو گاڑی سمیت اغوا بھی کر لیا۔ ٹل سے پاراچنار جانیوالی گاڑیوں کے قافلے پر لوئر کرم ایجنسی کے علاقے بگن میں نامعلوم دہشت گردوں نے فائرنگ کی، مسلح ملزمان نے دو گاڑیوں کو آگ لگا دی، زخمیوں کو کرم ایجنسی کے سدہ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ واقعے کے بعد فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ ڈیرہ ماہ قبل ہونیوالے امن معاہدے کے بعد مسافر گاڑیوں پرہونیوالے چار حملوں میں بیس سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ 
واضح رہے کہ  20 مارچ کو  بھی طالبان دہشتگردوں نے ھنگو کے قریب پاراچنار سے آنیوالی ایک فلائنگ کوچ پر خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا جس میں معجزانہ طور پر جانی نقصان نہیں ہوا، صرف 8 مسافر زخمی ہوئے جو تمام کے تمام اہل تشیع سے تعلق رکھتے تھے۔
امن معاھدے کے بعد پاراچنار پشاور روڈ پر یہ چوتھا حملہ تھا۔ پہلا حملہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ماموں خواڑ میں کیا گیا تھا جس میں 6 افراد زخمی ہوئے تھے اسکے چند روز بعد دوآبہ کے قریب ایک پل کے نیچے ریموٹ کنٹرول بم کو پولیس نے بروقت کاروائی کر کے ناکارہ بنا دیا اور اسکے صرف دو ہی دن بعد ماموں خواڑ ہی میں پاراچنار سے پشاور جانے والے مسافر ویگن پر خود کار ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا جس میں 12 نہتے شیعہ مسافر شہید جبکہ باقی 5 شدید زخمی ہو گئے تھے۔
امن معاہدے کے بعد سے طالبان اور انکے علاقائی ہمنواوں کی جانب سے یہ چھٹی کوشش تھی۔ کیونکہ مسافر گاڑیوں پر حملوں کے علاوہ طالبان اور انکے ہم پیمان علاقائی نواصب نے معاھدے کے چند روز بعد مینگک سے سکول کے دو بچوں کو اغوا کیا۔ اور چند دن بعد نواصب میں محصور ایک شیعہ علاقے گاودر سے بھی 2 بچوں کو اغوا کیا گیا جن کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں اس وقت تک کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔
اس سلسلے میں 22 مارچ کو تحریک حسینی کے سپریم لیڈر اور سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی نے اپنے مدرسہ (مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای) میں ایک پریس کانفرنس بلائی۔ پریس کانفرنس سے علامہ حسینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہر وقت شیعوں کو ہی دباو میں رکھتی ہے۔ انکے افراد کو بغیر کسی جرم کے صرف اپنی علاقے کے دفاع کے جرم میں پابند سلاسل کرتی ہے جبکہ مخالف طالبان اور انکے ہم پیمان نواصب کی طرف سے چھ مرتبہ معاھدہ کی خلاف ورزی ہونے کے باوجود حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بار بار حکومت اور امن معاھدہ کرنے والے ذمہ داروں سے مطالبہ کر رہے تھے کہ معاھدہ کا مسودہ دکھائیں مگر مسلسل انکار کیا جاتا رہا چنانچہ حقیقت سے خود بخود پردہ اٹھ گیا ہے کہ معاھدے کے سلسلے میں قوم سے خیانت کی گئی ہے۔ معاھدے میں صرف شیعوں کی طرف سے کرم میں امن کی ضمانت دی گئی ہے جبکہ شیعوں کے لئے امن کی کوئی ضمانت نہیں لی گئی ہے۔ اور انکے نہتے مسافروں کو دھشگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا معاھدہ تو تقریباً تین سال پہلے بھی ہوا تھا جو اسی طرح کی خلاف ورزیوں کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ اس وقت بھی ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت اور اہلسنت پشاور خصوصاً چھپری سے ھنگو تک سیکیورٹی کا ذمہ لیں۔ 
سید عابد حسینی نے کہا کہ ایسا معاھدہ ہمیں ہرگز منظور نہیں، جس میں شیعوں کی سیکیورٹی کی ضمانت نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ معاھدہ 95 فیصد مخالف فریق کے حق میں ہے کیونکہ انکی 95 فیصد آبادی کرم ایجنسی میں ہمارے علاقوں سے گزرتی ہے جبکہ کرم ایجنسی کے اندر ہم انکے صرف چار دیہات بگن، مندوری، اوچت اور چھپری سے گزرتے ہیں۔ چنانچہ ہم سے اپنی پوری ایجنسی کے اندر امن کی ضمانت لی گئی جبکہ انہوں نے گویا صرف چار دیہات میں امن کی ضمانت دی ہے۔ اور یہ لوگ تو اس سے پہلے 1996-97 میں اور پھر تین سال قبل مری معاھدے کے بعد ایجنسی سے باھر انہی مقامات میں کاروائی کرتے رہے ہیں۔ تو اس میں نئی کونسی بات ہے۔ انہوں نے قوم کے بعض نام نہاد عمائدین کہلانے والے افراد کی بھی مذمت کی، جنہوں نے آنکھیں بند کر کے یا کسی کی ڈکٹیشن پر معاھدے پر دستخط کر کے اپنی قوم کو تاریکی میں رکھا۔ جبکہ نام نہاد عمائدین کے اس معاہدے کے متعلق قوم کے مخلص، تنظیمی اور ذمہ دار افراد کو پتہ بھی نہیں تھا کہ نیا معاھدہ وجود میں آیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر امن کو واقعی برقرار رکھنا ہے تو صحیح طریقے سے پہلے والے پچاس رکنی جرگہ ممبران کے توسط سے معاھدے کو نئے سرے سے ترتیب دیا جائے ورنہ اسکے بعد شیعوں کی طرف سے کوئی بھی ردعمل سامنے آسکتا ہے، جسکی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔
انہوں نے مرکزی حکومت کی دوغلی پالیسی کو بھی ھدف تنقید بنایا جو شمالی اور جنوبی اضلاع میں تو طالبان کے خلاف کاروائیاں کرتی ہے جبکہ کرم ایجنسی میں طالبان پروری کا ثبوت دے رہے ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو بخوبی علم ہے کہ کرم کے شیعہ عوام نے ملک کی آزادی سے لیکر آج تک ملکی استحکام کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جبکہ ہمارا مخالف لوکل فریق مسلسل ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث پایا جاتا ہے جبکہ حکومت کے مقامی افسران خصوصاً فوجی انتظامیہ کی طرف سے انہیں باقاعدہ سپورٹ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے آخر میں معاھدے کے بعد متاثر ہونے والے تمام مومنین کو معاوضہ ادا کرنے اور معاھدے کی خلاف ورزی کرنے والوں سے مذکورہ جرمانہ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ اغوا ہونے والے بچوں کی بازیابی کے لئے فوری اقدامات کا بھی مطالبہ کیا۔ 
خبر کا کوڈ : 61366
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش