0
Wednesday 16 Jan 2019 07:24

برطانوی پارلیمنٹ میں یورپی یونین سے علیحدگی کا بل واضح اکثریت سے مسترد

برطانوی پارلیمنٹ میں یورپی یونین سے علیحدگی کا بل واضح اکثریت سے مسترد
اسلام  ٹائمز۔ برطانیہ کے اراکین پارلیمنٹ نے بریگزٹ ڈیل مسترد کردی، ڈیل کے حق میں 202 جبکہ مخالفت میں 432 ووٹ ڈالے گئے۔ واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے بریگزٹ پریورپی یونین کے ساتھ پچھلےسال نومبر میں ڈیل کو حتمی شکل دی تھی۔ ایوان زیریں میں اس بدترین شکست کے بعد تھریسامے کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپوزیشن پارٹی کے رہنما جیرمی کوربن نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کو تباہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا اور تھریسامے کی حکومت نے عوام اور پارلیمنٹ کا اعتماد کھو دیا ہے۔ ووٹنگ سے قبل تھریسامے نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ 2016ء کے ریفرنڈم کے نتائج کی روشنی میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ برطانوی عوام کے اس جمہوری فیصلے پر ہم نتائج دیں۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اس معاہدے کے خلاف ووٹ سے غیریقینی اور بٹوارے کی صورتحال جنم لے گی جس کے بعد کسی بھی قسم کا معاہدہ نہ ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔

بریگزٹ پر عمل درآمد میں اب محض دو ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے، لیکن برطانوی حکومت ابھی تک اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ ووٹنگ کے وقت معاہدے کے حامیوں اور مخالفین کی بڑی تعداد پارلیمنٹ کے باہر جمع تھی جو اپنی کامیابی کی امید کے ساتھ ہاتھوں میں ڈھول اور بانسریوں سمیت دیگر آلات کے ہمراہ موجود تھے جبکہ کچھ افراد نے پارلیمنٹ کی تاریخی عمارت کے باہر ریلی بھی نکالی۔ واضح رہے کہ 2016ء میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جو اب آئندہ برس 29 مارچ کو عمل میں آئے گا۔ جولائی 2016ء میں وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامع پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔ اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعدازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

مارچ 2017ء میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنماؤں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ چند دن قبل ہی بریگزٹ کے حوالے سے تازہ ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبرپارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973ء میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔ بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتداء میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔
خبر کا کوڈ : 772319
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش