2
5
Thursday 14 Feb 2019 22:59

سعودی ولیعھد کی آمد اور ہمارا قومی مفاد

سعودی ولیعھد کی آمد اور ہمارا قومی مفاد
تحریر: سید میثم ہمدانی
meesamhamadani@gmail.com


سننے میں آیا ہے کہ حکومتی جماعت کے اعلیٰ عہدیدار نے کچھ مذہبی سیاسی قائدین سے ٹیلیفونک گفتگو میں آل سعود ولیعھد کی پاکستان آمد پر مظاہرے نہ کرنے کی بات کی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ وسیع تر قومی مفاد میں اپنے اختلافات کو بھلا کر خاموشی اختیار کی جائے۔ اس سے صرف نظر کہ مذہبی سیاسی قائدین کا ایسے مطالبہ پر کیا جواب ہونا چاہیئے، دنیا میں جہاں کہیں بھی چلیں جائیں، آپ اگر انسانی فطرت کو سامنے رکھیں تو اس کا تقاضا ظالم اور ظلم سے نفرت جبکہ شجاع اور شجاعت سے محبت ہے۔ اس چیز کا تعلق نہ کسی مذہب سے ہے اور نہ ہی کسی سیاسی نظریہ سے، بلکہ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ اگر ایک ظالم سے بھی پوچھا جائے کہ تم اپنے حق میں ظلم چاہتے ہو یا محبت، تو وہ بلاشبہ ظلم سے دوری کا تقاضا کرے گا۔ پاکستان آنے والے جس نوجوان شہزادے کے بے نظیر استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اسکو اگر مذہب و فرقہ و سیاسی ملاحظات سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے تو پوری دنیا میں اس کی پہچان قاتل شہزادے کے طور پر ہے۔

آیت اللہ شیخ باقر النمر کا قتل ہو یا خاشقجی کا قتل، اقوام متحدہ کی نائن الیون کے بارے میں فیکٹ رپورٹ ہو یا یمن کے بے گناہ عوام کا قتل، مدینہ میں روضۃ النبی کے زائر معصوم بچے زکریا کا قتل ہو یا مکہ میں بیت اللہ الحرام کے ہزاروں حاجیوں کی پیاسی موت، ان سب مظالم کی بازگشت اس سفید پوش شہزادے اور اسی کے ہمنوا حکام کی طرف ہے۔ لہذا سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھنا چاہیئے کہ اگر کوئی ولیعھد کی آمد پر ناخوش ہے، چاہے وہ اپنی اس ناراضگی کا علی الاعلان اظہار کر رہا ہے یا سول ڈکٹیٹر شپ کے مخصوص ہتھکنڈوں کی وجہ سے خاموش ہے تو اس کی وجہ وہ انسانی فطرت ہے، جو ظلم اور ظالم سے نفرت کرتی ہے۔ دوم یہ کہ ہر شہری کو احتجاج کا قانونی حق حاصل ہے۔ دنیا میں کہیں بھی سیاسی اختلاف رکھنے والے افراد کو ان کے سیاسی اختلاف کی وجہ سے اس بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

اسی شہزادے کے مختلف ممالک کے دوروں کو ہی دیکھ لیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ تقریباً ہر ملک کے دورے پر سعودی ولیعھد کے عالمی مخالفین نے مختلف انداز میں اسکو نو ویلکم کیا ہے اور اس کے لئے اپنے اپنے انداز میں مظاہروں کا اہتمام کیا گیا۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں اپنی رائے کے اظہار سے نہیں روکا جاتا۔ پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی حکومت تو خود مظاہروں اور دھرنوں کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہے، ایسی سول گورنمنٹ کی طرف سے جب مارشل لا جیسی فضا بنائی جاتی ہے تو یہ بذات خود کئی سوالات کو جنم دیتی ہے، جس میں بنیادی ترین سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کونسا کام ہے جو اس دفعہ پاور میں آنے یا لانے والی یہ حکومت انجام دینے جا رہی ہے، جس کے خلاف کوئی کمزور سی آواز بھی برداشت نہیں کی جاتی؟ اب بات کرتے ہیں، قومی مفادات کی۔ کہا جاتا ہے کہ وسیع تر قومی مفاد کی خاطر اختلاف سے پرہیز کیا جائے۔ یہاں اس بات کو واضح ہونا چاہیئے کہ قومی مفادات کیا ہیں اور کیا واقعاً براستہ ریاض امریکن اسرائیلی بلاک میں شامل ہونا ہمارا قومی مفاد ہے یا اگر خود مختاری کی طرف بڑھنا مشکل بھی ہو تو کم از کم  علاقائی برادر ممالک کے ساتھ اسرائیل مخالف بلاک میں شامل ہونا ہمارا قومی مفاد ہے۔؟

قومی وحدت
کسی بھی ملک کا سب پہلا قومی مفاد قومی وحدت ہے۔ اگر ایک ملک کے اندر قومی وحدت نہ ہو تو وہ ملک اپنا سفر کامیابی سے طے نہیں کرسکتا۔ قومی وحدت سے کیا مراد ہے؟ قومی وحدت سے مراد کسی بھی جغرافیائی اکائی میں بسنے والے لوگوں کا کسی ایک مسئلہ پر اتفاق رائے یا اجماع ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی نائب پادشاہ کا دورہ پاکستان قومی وحدت کے حق میں ہے یا قومی وحدت کو خراب کرنے کا سبب ہے؟ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پاکستان کی اکثریت ولیعھد کے اس انداز سے ہونے والے دورے سے راضی نہیں ہے۔ جس انداز میں سعودی نائب شہنشاہ اپنے ہزاروں کے لشکر کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں، گویا ایک فاتح اپنی مفتوح سرزمین پر قدم رکھ رہا ہے۔

دورے سے پہلے کاسہ گدائی میں عربوں کے اربوں ڈالر ڈالے گئے ہیں، آنے سے پہلے اپنی سرزمین کے سابق سپہ سالار جو دوسروں کی سرزمین پر تیسری قوم کو نابود کرنے والی فوج کی کمانڈ پر مامور ہے، وہ شہزادے کی آمد سے پہلے اس کا راستہ ہموار کرنے کیلئے ملک کے وزیراعظم سمیت اسٹیک ہولڈرز سے ملتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ آپ کو "گریٹر رول پلے" کرنا پڑے گا۔ ہم اس عربی ڈو مور کی شرط کو مان کر ولیعھد کے لئے سرخ قالین بچھانے جا رہے ہیں۔ اب اس بات کا فیصلہ عوام کو ہی کرنا پڑے گا کہ آیا اس شہزادے کی آمد پر خاموش رہنا قومی وحدت کے حصول کے نتیجہ میں قومی مفاد میں ہے یا اس پر اپنے تحفظات کا اظہار قومی مفاد میں ہے۔؟؟؟

قومی معیشت
قومی مفادات میں ایک اہم عنصر قومی معیشت ہے۔ معیشت کے بارے میں ماہرانہ رائے دینے کا حق بہرحال معیشت دان کو ہے، لیکن ہم اس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ جن کاموں کو قومی معیشت کے نام پر انجام دیا جا رہا ہے، آیا وہ قومی معیشت ہیں بھی یا نہیں؟ ظاہراً محسوس تو یوں ہوتا ہے کہ چونکہ پہلے سے ایک سناریو تیار کیا جا چکا تھا تو اب اس پلان میں رنگ بھرنے کیلئے شروع ہی سے خالی خزانے کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگا، تاکہ جیسے ہی اپنے منصوبہ کو عملی شکل دی جائے تو فوری خالی خزانہ کی بات کرکے سب کو خاموش کروا دیا جائے، بھوک سے مرنے کو قبول کر لیں یا سعودی غلامی کو؟ اب کون کہے گا کہ ہمیں بھوک سے مرنا منظور ہے۔ لیکن اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ جو کچھ ہم سابقہ حکمرانوں کے لئے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے قرضوں پر قرضے لے کر قومی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے تو کیا جس راستے سے قوم کا بیڑہ غرق ہوا ہے، اس راستے پر چلنے سے قوم کا بیڑہ پار لگ جائے گا۔؟؟

کیا سعودی اربوں ڈالر قرض کے طور دیئے جا رہے ہیں یا نہیں؟ اگر قرضہ کے طور پر دیئے جا رہے ہیں تو آیا اتنے قرضوں کا مزید بوجھ قوم پر ڈالنا قومی مفادات میں شامل ہے؟ اگر قرضہ نہیں دیا جا رہا، مدد کی جا رہی ہے تو کن شرائط پر مدد کی جا رہی ہے؟ قوم کو حکومتی ترجمان کے وہ الفاظ نہیں بھولے، جو انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں اسی سعودیہ سے یہی رقم ملنے میں جب پہلی دفعہ ڈیڈلاک کی سی صورتحال سامنے آگئی تھی تو کہا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی مفت پیسے نہیں دیتا؟ جو بھی رقم دیتا ہے، اس کے بدلے کچھ چاہتا ہے؟؟ اب جو کچھ چاہا جا رہا ہے اور چاہت کے پہلے امتحان سے بھی پہلے جنرل راحیل شریف صاحب ڈور مور کا مطالبہ لے کر آجاتے ہیں، آیا وہ چاہت قومی مفاد میں ہے۔؟؟ ایسی رقم اور قرضوں یا ہدیوں سے حاصل ہونے والی معیشت کبھی بھی قومی مفاد میں نہیں ہوسکتی۔ کسی بھی ملک کے مفاد میں ایسی معیشت کو قومی معیشت کا درجہ دیا جاتا ہے، جو اپنے پاوں پر کھڑی ہو، نہ کہ دوسروں کی بیساکھیوں کے سہارے چلنے والی معیشت۔ ایسی معیشت کبھی بھی قومی معیشت نہیں ہوسکتی۔

قومی امن
فرقہ واریت اور سعودی عرب کا نام لازم و ملزوم ہے۔ جہاں کہیں بھی سعودیہ کا نام لیا جائے، وہاں فوراً فرقہ واریت کا تصور ذہن میں آجاتا ہے اور یہ دلالت ذہنی اگرچہ علمی لحاظ سے التزامی ہوگی، لیکن اسکا التزام اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب التزامی سے ذاتی کی حد تک جا پہنچی ہے۔ ضیاء الحق کے دور سے شروع ہونے والی فرقہ واریت کا زہر قاتل دوبارہ سے ہمارے معاشرے کو آڑے ہاتھوں لینے کو تیار ہے۔ قومی مفادات فرقہ واریت ہے یا عدم فرقہ واریت؟ پس جو شہزادے کی آمد پر نالاں ہیں، وہ عیناً قومی مفاد کا دفاع کر رہے ہیں، جبکہ شہزادے کی آمد پر خاموش کروانی والی طاقتیں اور روڈ فلاسفرز درحقیقت قومی مفاد کے خلاف جا رہے ہیں۔ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ جتنا سعودی عرب کا ہمارے معاشرے میں اثر و نفوذ بڑھتا چلا جائے گا، اتنا فرقہ واریت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

دہشتگردی
موجودہ دور میں پوری دنیا میں دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت داعش جیسے مسلح تکفیری گروہ ہیں۔ گذشتہ دور میں بھی ریال کے سہارے انجام پانے والے افغان جہاد کے نتیجہ میں شروع ہونے والی دہشت گردی نے ابھی تک ملک کو عذاب سے دوچار کیا ہوا ہے، جبکہ ہم نئے پاکستان میں دوبارہ سانپوں کو پالنے والے سپیروں کے استقبال پر جا رہے ہیں۔ یہاں پھر سوال یہ ہے کہ آیا دہشت گردی قومی مفاد میں ہے؟ یا ملک میں امن و سلامتی قومی مفاد میں ہے؟ اگر گذشتہ دور میں سعودی ریال نے ہمارے ملک عزیز میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے رکھا تھا تو اب اس نئے دور میں تو یہ دہشت گردی بین الاقوامی شکل بھی اختیار کر چکی ہے اور پوری دنیا کو علم ہے کہ اس بین الاقوامی دہشت گردی کی سہولت کار قوتیں اور ممالک کون کون ہیں۔ ایک انگریزی جملہ ہے "نیبرز کین ناٹ بی چینج" ہم جس خطے میں صدیوں سے رہتے رہے ہیں، ہم نے اسی خطے میں رہنا ہے۔ اپنے ہمسایوں کی طرف ایک نظر ڈالیں۔ ایک طرف ہندوستان ہے، دوسری طرف افغانستان ہے اور تیسری طرف ایران۔

کیا امریکن اسرائیلی بلاک میں شامل ہو کر اپنے ہمسائیوں کے خلاف سازش میں شریک ہونا ہمارے ملک کے قومی مفاد میں ہے؟ جب سے عرب اربوں ڈالر کی ہوا چلی ہے، تقریباً روزانہ کی بنیاد پر مغربی سرحدوں پر موجود دہشت گرد گروہوں کی طرف سے دہشت گردی کے واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ان گروہوں کی فعالیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ فلان و فلان لشکر جو مشکل سے اپنی گذر اوقات کر رہے تھے، اب ان کے پاس نئی گاڑیاں، جدید اسلحہ اور تیزی سے کارروائیاں کرنے کا تمام ساز و سامان فراہم ہوچکا ہے۔ کیا حال ہی میں ہونے والے زاہدان خاش روڈ پر خودکش دھماکے کو عزت مآب شہزادے کی آمد پر سلامی تصور نہیں کیا جائے گا؟ کیا اس دہشت گردی کا تعلق انہی عربوں کے اربوں ڈالروں سے ہے! کیا ہم ایک دفعہ پھر ضیاء الحق کی جہاد پالیسی کی طرف پلٹ رہے ہیں؟ کیا ہم ہمسائیوں کے حالات خراب کرنے کیلئے بین الاقوامی قوتوں کو اپنی سرزمین پر ایکسس دے کر دوبارہ بدامنی کے دور کی طرف جا رہے ہیں؟ کیا یہی ہیں قومی مفادات؟؟ کیا ان سوالوں کا اٹھانا اور ان پر بات کرنا اور اس مطلع میں مغرور شہزادے کو نو ویلکم کرنا قومی مفاد کے خلاف ہے یا عین قومی مفاد ہے؟؟ ان سوالوں کے جواب قاری حضرات پر چھوڑ دیتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 778044
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
ما شاء الله بہت خوب. حرف حق ہے، اگر کوئی سمجھے تو
bahar ali
Pakistan
good
ہماری پیشکش