0
Wednesday 22 Jun 2011 17:16

حزب تحریر بغاوت کیلئے فوجی افسران بھرتی کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ٹائم

حزب تحریر بغاوت کیلئے فوجی افسران بھرتی کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ٹائم
کراچی:اسلام ٹائمز۔ امریکی جریدے "ٹائم" کے مطابق حزب تحریر گزشتہ 15 سالوں سے اسلامی خلافت کے قیام کی خاطر فوجی بغاوت کی راہ ہموار کرنے کے لیے فوجی افسران کو بھرتی کرنے کی خفیہ کوششیں کر رہی ہے، جنرل کیانی کی اپنی پوزیشن کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی فوج کے اعلیٰ حکام میں کوئی تشویش موجود ہے۔ جی ایچ کیو میں کور کمانڈروں اور سینئر افسران کے درمیان مختلف مسائل پر بحث جاری ہے۔ جنرل کیانی دباوٴ میں نہیں ہیں۔ عرب دنیا یا لاطینی امریکا کی فوج کے برعکس پاکستان میں فوج کے کمان بہت مضبوط ہے، مشترکا انسداد دہشت گردی کی ٹاسک فورس پاکستان میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے انٹیلی جنس آپریشن کی نگرانی کرے گی۔ جن میں ڈرونز آپریشن بلوچستان کے شمسی ائیر بیس سے نہیں بلکہ افغانستان سے جاری رہیں گے۔ امریکی اسپیشل فورسز احتیاط سے کام کریں گی اور افغانستان میں جنگ بندی کے قیام کے عمل میں پاکستان شامل رہے گا۔ 
جریدے کے مطابق پاکستان کے طاقتور جرنیلوں کے لیے 2 مئی کے بعد یہ سات ہفتے سنگین تر ثابت ہوئے ہیں۔ اسامہ کے احاطے پر یک طرفہ امریکی حملے سے بیرون دنیا میں ان کے لیے پیچیدہ صورت حال پیدا ہو گئی جب کہ اندرونی سطح پر بھی تنقید کا سامنا ہے۔ کراچی میں نیول بیس پر دہشت گردی کے حملے، صحافی سلیم شہزاد کے قتل اور کراچی میں رینجر کے ہاتھوں نوجوان کا قتل کی ویڈیو نے سیکورٹی فورسز پر تنقید شدت اختیار کر گئی۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ یہ حیرت انگیز تنقید کی سطح ہے جسے فوجی قیادت سامنا کر رہی ہے۔ یہ فوجی تاریخ کی بدترین صورت حال ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی پاکستانی فوج کے سربراہ بننے کے بعد سے اب وہ انتہائی سخت موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔ چونکہ جنرل پرویز مشرف کے فوجی اقتدار کے آخری برسوں میں فوج کا امیج بری طرح متاثر ہوا، مشرف کے بعد جنرل کیانی احتیاط کے ساتھ اپنے ادارے کے امیج کی تعمیر نو کے کام مصروف ہیں۔ اندرونی اور بیرونی دنیا میں انہوں نے وادی سوات اور جنوبی وزیرستان میں کامیاب فوجی کارروائیاں کر کے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عہد نو پر خراج تحسین حاصل کیا۔ انہوں نے اپنے آپکو سیاست سے دور رکھا۔ اس وقت کیانی امریکا، فوج اور پاکستانی عوام جیسے تین محاذوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
 اسامہ بن لادن پر حملے کے بعد واشنگٹن کی طرف سے دباو اور زیادہ جارحانہ مطالبات پیش کیے گئے کہ القاعدہ اور طالبان کے خلاف کاروائیاں کی جائیں، جن کے خلاف فیصلہ کن اقدام کرنے میں ماضی میں انکار کر دیا گیا تھا۔ حالیہ دنوں میں ایک بار پھر کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب سی آئی اے نے شکایت کی کہ آئی ایس آئی عسکریت پسندوں کو معلومات فراہم کر دیتی ہے، جن کو ہدف بنانا ہوتا ہے۔ اسی وقت سی آئی اے نے پانچ مخبروں کا معاملہ بھی اٹھایا جنہوں نے اسامہ تک پہنچنے میں مدد فراہم کی تھی۔ پاک امریکا تعلقات کشیدگی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ امریکا کے یکطرفہ چھاپے نے جنرل کیانی کو اپنی صفوں میں بے بس کر دیا۔ فوج کی درمیانی سطح کی قیادت میں کافی عرصے سے امریکا کے خلاف اس لیے غصہ پایا جاتا ہے کہ امریکا پاکستان کی خودمختاری کو خاطر میں نہیں لا رہا اور نہ ہی فوج کی تین ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی کو سامنے رکھ رہا ہے۔ امریکا کی طرف سے تسلسل کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی تشویش سے انکار، واشنگٹن اور نئی دہلی کی قربت اور حتٰی کہ امریکا کی سازشی نظریات کہ پاکستان طالبان کی حمایت کر رہا ہے اس نے فوج میں امریکا کے خلاف ناراضگی پیدا کی ہے۔
 ایک اعلیٰ مغربی سفارت کار کے مطابق فوج کے اعلیٰ حکام میں یہ تشویش پائی جا رہی ہے کہ آیا مخصوص حالات میں فوجی احکامات پر عمل کریں گے۔ جنرل کیانی کو اس خوف کا بھی سامنا ہے کہ فوج میں انتہا پسند موجود ہیں۔ پاک فوج نے حزب التحریر کے ساتھ تعلق کے شبہ میں بریگیڈیئر علی خان کو حراست میں لیا۔ حزب تحریر گزشتہ 15 سالوں سے اسلامی خلافت کے قیام کی راہ ہموار کے لیے فوجی بغاوت کے لیے فوجی افسران کو خفیہ بھرتی کر رہی ہے۔ واشنگٹن میں جنوبی ایشیا سینٹر کے ڈائریکٹر شجاع نواز کا کہنا ہے کہ جنرل کیانی کی اپنی پوزیشن کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی فوج کے اعلیٰ حکام میں کوئی تشویش موجود ہے۔ جی ایچ کیو میں کور کمانڈروں اور سینئر افسران کے درمیان مختلف مسائل پر بحث جاری ہے۔ جنرل کیانی دباوٴ میں نہیں ہیں۔ عرب دنیا یا لاطینی امریکا کی فوج کے برعکس پاکستان میں فوج کی کمان بہت مضبوط ہے۔ 
جریدے کے مطابق اس بات میں مبالغہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ فوجی جرنیل امریکا کے ساتھ محاذ آرائی چاہتے ہیں جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کے اعلیٰ حکام مشترکا انسداد دہشت گردی کی ٹاسک فورس بنانے پر راضی ہو چکے ہیں جو پاکستان میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے انٹیلی جنس آپریشن کی نگرانی کرے گا۔ جن میں ڈرونز بلوچستان کے شمسی ائیر بیس سے پروازیں نہیں کریں گے بلکہ افغانستان سے جاری رہیں گے۔ امریکی اسپیشل فورسز احتیاط سے کام کریں گی اور افغانستان میں جنگ بندی کے قیام کے عمل میں پاکستان شامل رہے گا۔ مغربی سفارت کار کے مطابق جنرل کیانی اس بات سے متفق نہیں کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی پاکستان کے مفاد میں ہو گی۔ امریکا اور اپنے فوجیوں کی تنقید کے بعد کیانی کو پاکستانی عوام سے بھی تنقید کا سامنا ہے جس میں حزب اختلاف کے سیاستدانوں، سول سوسائٹی اور صحافی شامل ہیں۔ کیانی کی قیادت کا ایک بڑا امتحان دو اعلیٰ سطحی کمیشن بھی ہیں۔ آئندہ ہفتے اس بات کو واضح کریں گے کہ کیانی ادارے کی ساکھ کو بحال کرنے، امریکا کے ساتھ اتحاد رکھنے، اپنے جونیئر آفیسرز کی حمایت حاصل کرنے اور پاکستان کی جمہوریت کو چلانے میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 80433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش