0
Thursday 11 Jul 2019 17:40

چترال میں گلیشئیرز پھٹنے کی وجوہات کیا ہیں؟

چترال میں گلیشئیرز پھٹنے کی وجوہات کیا ہیں؟
اسلام ٹائمز۔ چترال کی وادی گولین میں گلیشئیر پھٹنے سے سیلاب کے باعث تمام سڑکیں ابھی تک تباہ حال پڑی ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق 7 جولائی سے  چترال بھر میں پانی اور بجلی کی فراہمی معطل ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ خیال رہے کہ وادی گولین میں چند دن قبل گلیشیئر پھٹنے سے سیلاب آیا تھا، جس کی وجہ سے کئی لوگ پانی میں پھنس گئے تھے، تاہم بعد میں انکو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ گلئشیر کے پھٹ جانے کے نتیجے میں درجنوں درخت اکھڑ کر سیلابی ریلے میں بہہ گئے، جبکہ قریبی واقع گاؤں ازغور میں گھروں، دکانوں اور متعدد فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ خیال رہے کہ چترال کے ہزاروں سالہ پرانے برف کے پہاڑ یعنی گلیشیئرز گذشتہ کچھ عرصہ سے پگھلنا شروع ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے مقامی آبادی کو خطرات لاحق ہیں اور اسکی وجہ سے کئی بار سیلاب آ چکے ہیں۔ گلیشئرز کے پگھلنے کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ علاقے میں گرمی کی شدت میں اضافہ، بارشوں اور برفباری کے موسم میں تغیر اور جنگلات کی کٹائی اس کی بڑی وجوہات ہیں۔

چترال کی 34 وادیوں میں سے 19 میں گلیشیئرز ہیں، جبکہ ایک اندازے کے مطابق ضلع بھر میں کل 543 گلیشیئرز ہیں، جن میں سے کئی موسمی تغیرات کے باعث نہ صرف خود خطرے سے دوچار ہیں، بلکہ ان کی وجہ سے مقامی آبادی کے سر پر بھی خطرے کی تلوار مستقل لٹک رہی ہے۔ محولہ بالا وجوہات کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار علاقوں میں سے ایک وادی بریپ گول بھی قرار دی جاتی ہے، ماحولیاتی امور کے ماہر حامد احمد میر کے بقول بریپ گول کو 2013ء سے ہر سال گرمیوں میں گلیشیئرز پگھلنے کی وجہ سے سیلابی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے، جس میں 2015ء کا سال سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوا تھا۔ اس سے قبل 2005ء کے سیلاب کی وجہ سے متاثرہ اس وادی سے 26 خاندانوں نے کاٹن لشٹ نقل مکانی کی تھی، تاہم 2012ء میں بھی کئی خاندان ایک بار پھر سیلاب سے متاثر ہوئے، جس کے بعد وہ دوسرے علاقوں کو منتقل ہوئے تھے۔ مقامی ذرائع کے مطابق حالیہ سیلاب کی وجہ سے پانی کی پائپ لائن بھی تباہ ہوئی اور پانچ دنوں سے چترال میں پینے کی پانی کی شدید قلت ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق وادی گولین کے لوگ نہایت مشکلات سے گزر رہے ہیں اور وادی میں ادویات اور اشیائے خوردونوش کی بھی قلت ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق حکومتی دعوے غلط ہیں کہ وادی میں سب کچھ پہنچایا، لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، مقامی لوگوں نے وادی گولین کی سڑکیں فوری بحال کرنے اور علاقے کے متاثرین کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چترال میں (گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ) نامی پراجیکٹ میں ڈائریکٹر کے حیثیت سے کام کرنے والے حامد احمد میر کا کہنا ہے کہ گلیشیئرز پگھلنے کے بعد اوپر پہاڑوں میں جھیل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جو زیادہ بارش یا گرمی کے باعث پانی کی مقدار میں اضافے کی وجہ سے سیلاب کی صورت نیچے بہنے لگتا ہے اور عوام عموماََ اس طرح کے سیلابوں کیلئے جسمانی طور پر تیار ہوتے ہیں نہ ذہنی طور پر، جس کی وجہ سے زیادہ مالی اور جانی نقصان اُٹھا لیتے ہیں۔ حامد خان کے مطابق چترال میں اس وقت 187 ایسے گلیشیئرز ہیں، جو گلیشیئل لیک یعنی پگھلنے کے بعد پہاڑوں کے دامن میں بڑی بڑی جھیلوں یا جوہڑوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں، جن میں سے 20 کو انتہائی خطرناک قرار دیا جا رہا ہے، جو بارشوں کی صورت یا گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ سیلاب کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔


ان کے بقول 2015ء میں سیلاب کے باعث زیادہ نقصان کی وجہ بھی یہی تھی کہ گلیشیئرز کا پانی بہہ جانے کی وجہ سے سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا تھا۔ بقول ان کے گلیشیئرز کے پگھلنے سے نہ صرف موجودہ وقت میں جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے، بلکہ اس سے آنے والی نسل کیلئے بھی پینے اور دیگر استعمال کیلئے پانی کے ذخائر ختم ہوتے ہیں۔ ماہر ماحولیات اور زرعی یونیورسٹی پشاور میں درس و تدریس سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر اکمل کے مطابق گذشتہ چند برسوں کے دوران ملک کے دیگر حصوں کی طرح چترال بھی ماحولیاتی تبدیلی سے بہت متاثر ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سالوں کے دوران چترال میں گرمی کی شدت میں نہ صرف ایک سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے، بلکہ بارشوں اور برفباری کے وقت اور انداز بھی بدل گئے ہیں، جس کے گلیشیئرز پر واضح اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اب نومبر اور دسمبر کی بجائے جنوری اور فروری میں برفباری کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور مارچ اپریل میں ایکدم گرمی آنے سے یہ برف پگھلنا شروع ہو جاتی ہے اور ماضی کی طرح جم کر گلیشیئرز کی شکل اختیار نہیں کرتی۔
خبر کا کوڈ : 804492
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش