0
Tuesday 6 Aug 2019 22:41

چترال، رواں سال پولیس اہلکار سمیت 16 نوجوانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا

چترال، رواں سال پولیس اہلکار سمیت 16 نوجوانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا
اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کا ضلع چترال قدرتی حُسن سے مالا مال ہے، مگر یہاں مایوسی اور ڈپریشن اس قدر عام ہے کہ رواں سال اب تک 16 نوجوانوں نے زندگی کا خاتمہ کیا، جن میں جوانسال لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے، جبکہ خودکشی کرنے والوں میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ خاندانی روابط میں فقدان اور ڈپریشن سے متعلق آگاہی نہ ہونا خودکشی کی بڑی وجوہات ہیں اور اس ضمن میں صرف ایک شخص کا نہیں بلکہ پوری فیملی کا علاج کرنا ضروری ہے۔ امتحانات میں کم نمبر آنے پر بھی طالبات نے دریا میں کود کر جان دیدی۔ صوبائی حکومت نے آگاہی سے متعلق اقدامات اُٹھائے ہیں جبکہ سماجی رہنماؤں کے مطابق والدین کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کو بھی بچوں کی مثبت ذہن سازی میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ مختلف سکولوں، کالجز اور انسٹیٹیوٹس میں وقتاً فوقتاً سیشنز ہونے چاہیئے تاکہ بچوں کو بتایا جاسکے کہ وہ کن کے ساتھ اپنے مسائل شیئر کر سکتے ہیں اور دوسرا والدین اور بچوں کے درمیان جو فاصلہ آیا ہے وہ بھی ختم ہونا چاہیئے۔ گذشتہ سال چترال میں خودکشی کے 52 کیسز رپورٹ ہوئے۔ محکمہ صحت نے خودکشیوں کے تدارک کیلئے ٹاسک فورس بھی تشکیل دی، مگر عملی طور پر کچھ نہ ہوسکا۔ صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سکولوں کے اندر کاؤنسلنگ کا سسٹم نہیں ہے جس کا ہونا بڑا لازمی ہے، بچوں کو بتانا چاہیئے کہ آپ نے کیا بننا ہے، یہ جو صرف نمبر کی دوڑ شروع ہے یہ بہت خطرناک ہے، اسے ختم ہونا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 809250
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش