0
Saturday 23 Nov 2019 23:45

امریکہ کو باور کروانے کی ضرورت ہے پاکستان انکی محکوم ریاست نہیں ہے، سینیٹر رضا ربانی

امریکہ کو باور کروانے کی ضرورت ہے پاکستان انکی محکوم ریاست نہیں ہے، سینیٹر رضا ربانی
سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء رضا ربانی پاکستان کے صف اول کے سیاستدان ہیں۔ مخصوص انداز بیان اور ٹھوس جمہوری اصول انکی پہچان ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاک امریکہ تعلقات کی مختلف جہتوں اور کشمیر کے متعلق موجودہ حکومت کی پالیسی سمیت اہم ایشوز پر انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: امریکہ کی جنوبی اور وسط ایشیائی امور کی نائب سیکریٹری نے کہا ہے کہ سی پیک سے صرف چین کے مفادات پورے ہونگے، پاکستان اس بیان کو کس تناظر میں لے گا؟
سینیٹر رضا ربانی:
پاکستان اب یہ طے کرچکا ہے کہ ہم کسی ریاست یا طاقت کیلئے اپنی سرزمین، وسائل اور تزویراتی حیثیت کو استعمال نہیں کرنے دینگے، یہ بات پوری دنیا کو باور کروا دی گئی ہے، لیکن امریکہ کی پرانی عادت یا زعم ہے کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے ناطے جیسے چاہے ویسا ہونا چاہیے، اس کی خاطر وہ ہر حربہ استعمال کرتے ہیں، لیکن چین ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے۔ استعماری مزاج اور سامراجی انداز کی وجہ سے امریکہ کا کام استحصال کرنا ہے، سی پیک کے متعلق امریکی عہدیدار کی ہرزہ سرائی، اشتعال دلانے کیلئے ہے، جس پر چین نے بڑا سخت ردعمل دیا ہے۔ پاکستان کو اشتعال انگیزی کے مضمرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، اس بیان کے بعد اگلا اقدام کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جس کیلئے تیار رہنا بھی ضروری ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ حالات کے مطابق اس کا تدارک کرے۔ لیکن ہمیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، البتہ اس بات کا اندیشہ ضرور ہے کہ امریکہ پاک چین تعلقات، سی پیک منصوبوں یا پاکستان کے قومی مفاد کو نقصان پہنچا سکتا ہے، کیونکہ امریکہ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ کچھ بھی نہ کر سکیں تو نقصان پہنچانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سی پیک پر تو 2013ء سے کام کا آغاز ہو چکا ہے، اس وقت امریکہ کی طرف سے ایسی اشتعال انگیزی کیوں سامنے آ رہی ہے؟
سینیٹر رضا ربانی:
اس وقت پورا خطہ بڑی حساس صورتحال سے دوچار ہے۔ پاکستان کے چاروں طرف آگ کا الاؤ ہے، پاکستان درمیان میں گھرا ہوا ہے، یہ ہمارے لیے بہت بڑی ذمہ داری کا لمحہ ہے۔ پاکستان کے جس طرح رخ کریں، ہر طرف مسائل ہیں، تناؤ ہے، کشمکش ہے۔ مغرب میں افغانستان، جہاں امریکہ پھنس چکا ہے، کبھی نکلنے کی بات کرتے ہیں کبھی رکنے کی، اس کا مطلب ہے، وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے، ابھی نہیں حاصل ہوا، لیکن ہمارے ساتھ وعدے وعید بھی کررہے ہیں، جب امریکی ڈپٹی سیکرٹری کا یہ بیان آیا ہے، شاید اس ایک روز قبل ہی وزیراعظم کی بات ہوئی امریکی صدر سے، صدر ٹرمپ نے افغانستان میں پاکستان کے تعاون کی تعریف کی ہے، لیکن ایک دن بھی نہیں گذار اور چین کیخلاف بیان آ گیا، جس میں براہ راست پاکستان کو مخاطب کیا گیا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امریکی صدر کو وزیراعظم پاکستان کی گفتگو سے یہ احساس ہوا ہے کہ پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ جس طرح افغانستان میں امریکہ کو درکار تعاون فراہم کر رہا ہے، مزید دباؤ ڈالنے سے چین کیخلاف بھی پاکستان کو ساتھ دینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہمارے وزیراعظم بار بار اسکا ذکر کرچکے ہیں کہ وہ صدر ٹرمپ کے کہنے پر سعودیہ اور ایران کے درمیان صلح کروانے میں مشغول ہیں۔ یہیں سے کمزوری ظاہر ہوتی ہے، موجودہ حکمران ناتجربہ کاری اور ناسمجھی کی وجہ سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکہ کی کاسہ لیسی سے پاکستان کو کشمیر مل سکتا ہے، یا کشمیر میں مشکلات کم ہو سکتی ہیں، یا افغانستان میں امن آ سکتا ہے، یہ سب وہم و خیال ہے، حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں، ہمیں اس غلط فہمی سے نکلنا چاہیے، اس کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان کے متعلق جو غلط فہمی ہے، اسے ہم دور کر سکتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان عالمی برادری سے کٹ جائے یا امریکہ سے جنگ شروع کر دے، تعلقات منقطع کر لے۔

نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ امریکہ پر سیاسی اور معاشی حوالے سے انحصار ختم کر دیں۔ اس سلسلے میں امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ چین کیساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات سے پاکستان کی حیثیت بہتر ہو سکتی ہے، جس سے امریکہ پر انحصار کم ہو جائیگا، دوسرے لفظون میں پاکستان امریکی غلامی سے آزاد ہو جائیگا، جس سے پورے خطے میں امریکہ کے مفادات کو زک پہنچے گی، اب یہاں احتیاط کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان براہ راست امریکہ سے دشمنی لینے کی پوزیشن میں ببھی نہیں، نہ ہی یہ ہمارا مطمع نظر ہونا چاہیے، لیکن ثابت قدم رہنا اور قومی وقار کیساتھ ملکی مفادات کے مطابق پالیسی اختیار کرنا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی دوستی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے، امریکہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی تاریخ کیساتھ پاکستان کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟
سینیٹر رضا ربانی:
ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عالمی طور پر تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق اپنے فیصلے خود کرے، قومی مفاد کا تعین کرے، ریاست اور قوم کے دفاع کیلئے ضروری اقدامات کرے، چاہے تو کسی ملک کیساتھ تعلقات قطع کرنیکا فیصلہ کر لے، لیکن بد قسمتی سے ہم نے امریکہ کو ہمیشہ دشمن ہی سمجھا ہے اور امریکہ نے یہ پمارا یہ گمان ہمیشہ سچ ہی ثابت کیا ہے، لیکن ہماری یہ کمزوری بھی ہے کہ ہمارے فیصلے امریکی مفادات کے تابع رہے ہیں، اسی چیز کو امریکہ سے تعلقات اور دوستی بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کی امریکہ کیساتھ تعلقات کی جو تاریخ ہے وہ سوائے گھاٹے اور نقصان کے کچھ بھی نہیں، اس سے ہمارے کی جڑیں کمزور ہوئی ہیں، نہ یہاں جمہوریت پنپ سکی ہے، نہ قانون کی عملداری رواج پا سکی ہے، امریکہ نے آمروں کو جمہوریت کے نام پہ آنے والے حکمرانوں کو تقویت دی انہوں نے امریکی مفادات کی پاسداری کو ملحوظ رکھا۔ دوطرفہ تعلقات کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی، امریکہ جب چاہتا ہے ہمارے ملکی معاملات میں مداخلت کرتا ہے، پاکستان کو اپنی اسٹیٹ سمجھتا ہے۔

ہم خودمختار ملک ہیں، ہماری معیشت اور قومی سیکیورٹی ترجیحات ہیں، پاکستانی قوم کا امریکہ کے ساتھ نام نہاد تعلقات کا بڑا تلخ تجربہ ہے، کیری لوگر سے وابستہ امداد، بھارت کے ساتھ جنگ میں چھٹے بیڑے کی کہانی، افغانستان میں جہاد کے نام پہ جنگ، پھر دہشت گردی کی دلدل، نیٹو سپلائی اور کولیشن اسپورٹ فنڈ میں سہولیات کی عدم ادائیگی، ڈرون حملوں اور اب بھارت کو اتحادی بنا کر ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی پابندیوں تک یہ تلخ اور تکلیف دہ سفر جاری ہے، کیا ہمیں یہ تعلقات ایسے ہی جاری رکھنے چاہیں، بالکل نہیں، بدقسمتی سے اس چنگل سے نکلنے اور آگے بڑھنے کی امید موجودہ حکمرانوں سے نہیں لگائی جا سکتی، بلکہ انہوں نے تو خود سی پیک کو مشکوک بنایا، چین سے تعلقات بگاڑے، امریکی صدر کی چال بازی کو اپنی حمایت اور فتح سمجھتے ہوئے کشمیر مودی جیسے درندے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، جتنی جلدی پاکستان کی جان چھوڑ دیں اتنا بہتر ہے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر پر امریکہ کی ثالثی کی پیشکش اور عمران خان کو صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران اور سعودیہ کے مصالحت کی ذمہ داری دیئے جانے کا پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان؟
سینیٹر رضا ربانی:
کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ بھارت اور امریکہ کی ملی بھگت ہے، اسی طرح ایران کیخلاف جو کچھ ہو رہا ہے یہ اسرائیل اور امریکہ کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے، عرب ممالک اسرائیل اور امریکہ کا ساتھ دیکر غلطی کر چکے ہیں۔ اس تناظر میں امریکی صدر نے آسانی سے ہمارے وزیراعظم کو دھوکا دیا ہے، جب وزیراعظم امریکی صدر کے ایماء پر بظاہر کوئی اچھا کام بھی کرنے کی کوشش کرینگے تو حقیقت میں وہ امریکہ کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایران، سعودی عرب اور دوسرے مسلم ممالک کے درمیان مصالحت نہیں ہونی چاہیے، پاکستان کو اس میں کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن یہ خیال کرنا کہ جو کچھ امریکی صدر ہمیں کہیں گے اگر ہم وہ کر دینگے تو ہماری مشکل آسان ہو جائیگی۔ یا خطے میں بلکہ دنیا میں کہیں بھی امن قائم ہو جائیگا اور ہمارے وزیراعظم ہیرو بن جائینگے، یہ بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ آپ امریکہ کا نام استعمال کر کے کوئی اچھا کام کر لیں، تاکہ امریکہ اس میں رخنہ اندازی نہ کرے تو یہ بھی بعید از قیاس ہے۔

بالخصوص موجودہ وزیراعظم کے بس یا سوچ سے باہر ہے کہ اتنی سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہوں اور اتنی مہارت اور حوصلہ بھی کہ وہ سالوں سے ریاستوں کے درمیان تنازعات کو صلح صفائی کے ذریعے ختم کروا دیں، درمیان میں پاکستان کیلئے ان سے حمایت بھی حاصل کر لیں، وزیراعظم کے اندازے، انداز اور امیدیں سب بے معنی ہیں، بلکہ پاکستان کے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ کشمیر پہ امریکہ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کے بعد انہوں نے جو کچھ اپنے ذمہ لیا، وہ اسی خام خیالی کا نتیجہ تھا، یا ہماری انٹیلی جنس نے کمزوری دکھائی کہ پاکستان کو خبر ہی نہیں ہو سکی، جس کے بعد مودی نے ظالمانہ اقدام کے ذریعے کشمیر کو قبرستان میں بدل دیا اور ہم اپنی شہ رگ کو موت کی دلدل میں دھنستا دیکھ رہے ہیں، کنارے پہ بیٹھے دیکھ رہے ہیں اور کشمیر ڈوب رہا ہے، ایسا کیوں ہوا؟۔ اس کا جواب موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے، یا ان سے بالاتر سارے فیصلے ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کشمیر کی موجودہ صورتحال کا پس منظر فقط یہی ہے اور ہمارے پاس اسکا کوئی حل نہیں ہے؟
سینیٹر رضا ربانی:
ہر پاکستانی کا دل کشمیر کیساتھ دھڑکتا ہے، لیکن اس وقت جس طرح کشمیری محکوم اور مجبور ہیں، ہمیں بھی یہ احساس ہو رہا ہے کہ بحیثت پاکستانی ہم پوری قوم بے بس ہیں۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال میں جتنا کردار مودی اور ٹرمپ کا ہے اتنا ہی عمران خان کا بھی ہے، جو ناقابلِ قبول ہے۔ کشمیر کی حیثیت میں اتنی بڑی تبدیلی ایک دم نہیں آ سکتی تھی، یہ سقوط ڈھاکہ سے بڑا سانحہ ہے، اس کے پسِ پردہ عوامل کا کھوج لگانا مشکل نہیں، اب بھی وقت ہے، کشمیر کے لیے پاکستان ڈٹ جائے، عالمی طاقتوں کی سازشوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، پیچھے نہ ہٹے، اگر کوئی غلطی سرزد ہو گئی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کریگی۔

 
خبر کا کوڈ : 828688
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش