0
Saturday 6 Jun 2020 02:59

سندھ حکومت نے ملک بھر میں کورونا کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد کردی

سندھ حکومت نے ملک بھر میں کورونا کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد کردی
اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ملک بھر میں کورونا کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر 13 مارچ کو وہ فیصلہ کرلیا جاتا جو ہم تجویز کررہے تھے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، غلطی کرنے کے بعد اب کہتے ہیں کہ  تم سنبھالو۔ انہوں نے کہا کہ غیر معمولی کام کرنے کے باوجود سندھ حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر افسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بات سندھ اسمبلی میں کورونا کی وباء پر بلائے جانے والے خصوصی اجلاس کے موقع پر ایوان میں بحث کو سمیٹے ہوئے اپنے خطاب میں کہی۔  وزیراعلی سندھ نے اپنے خطاب سے قبل طبی عملہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر تمام ارکان نے کھڑے ہوکر مہمانوں کی گیلری میں موجود ڈاکٹرز کو سلام تحسین پیش کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے اراکین کو ڈیسک بجانے سے منع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ موقع ڈیسک بجانے کا نہیں ہے، میری تقریر کے دوران کوئی بھی ڈیسک نہ بجائے۔ مراد علی شاہ نے ایوان کو بتایا کہ آج ایک دن میں کورونا سے 40 افراد انتقال کرگئے ہیں، سات پولیس والے شہید ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں 57 ہزار دو سو چار کیسز ہیں سب کی صحت یابی کے لئے دعا کرتا ہوں، آرمی رینجر اور پولیس کو سلام کرتا ہوں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ فردوس شمیم نقوی نے اسپیکر کا غصہ مجھ پر نکالا ہے، اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ انہوں نے کورونا کی وباء کے بارے مں بتایا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے پاس بیٹھا تھا، اس وقت زرداری صاحب نے فون اٹھایا تو معلوم ہوا کہ ایک کیس آیا ہے، بلاول بھٹو نے مجھے کہا آپ ابھی جائیں، میں نے اس وقت صبح ایک میٹنگ رکھی، ڈبلیو ایچ او اور یونیسف کے نمائندوں کو بلایا، سعید غنی نے کہا اسکول بند کردینا چاہیئے، میں نے کہا کہ ابھی نہیں تاہم تھوڑی دیر بعد میں نے سعید غنی کو کہا کہ دو روز کے لئے اسکول بند کردیں پھر آگے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 13 مارچ کو ہم اپنے ہتھیار ڈال چکے تھے، کیوں ڈال چکے تھے اسکا بتاؤنگا۔ وزیراعلی نے کہا کہ فردوس شمیم نقوی نے بہت باتیں کی ہیں، میں جواب نہیں دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ مارچ کو میری کورونا پازیٹو مریض سے ملاقات ہوگئی تھی، میں نے اس صورتحال کے بعد خود کو 14روز قرنطینہ کرنے کا فیصلہ کیا، 13 مارچ کو مجھے اسلام آباد جانا تھا، میں نے وزیراعظم کے سیکریٹری کو کہا کہ ویڈیو کانفرنس کرلیں۔مجھے کہا گیا کہ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ وزیراعلی اسلام آباد اجلاس میں ضرور آئیں، ڈاکٹرز سے مشاورت اور کورونا ٹیسٹ کروانے کے بعد میں نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا۔

وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ وزیر صحت ٹی وی پر نہیں آرہی تھیں لیکن کام کررہی تھیں، وفاقی حکومت کے وزیر صحت وزیراعظم ہیں، وفاقی معاون خصوصی صحت غیر منتخب ہیں، 13 مارچ کو وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں تجویز دی کہ مکمل لاک ڈاؤن کریں، یہ بھی تجویز کیا کہ دو ہفتے کا لاک ڈاؤن اکتیس مارچ تک کریں۔ انہوں نے بتایا کہ مجھ سمیت دیگر کئی شرکاء نے لاک ڈاؤن کی حمایت کی، مگر اس اجلاس میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہیں کیا گیا، میں نے کہا کہ کوئی بھوک سے نہیں مرے گا، اس کے بعد کراچی آکر میں نے خود سے سخت فیصلے کئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر کئی الزام لگائے گئے دیگر ممالک کی ویڈیوز اور تصاویر سندھ کی بناکر پیش کی گئیں، ہم سے کہا گیا کہ ہم لاک ڈاؤن کا کام نہیں کرسکتے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ اگر 13مارچ کو وہ فیصلہ کرلیتے تو ہم بہتر صورتحال میں ہوتے، غلطی کرنے کے بعد کہتے ہیں اب تم سنبھالو۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی کارکردگی کو جھوٹی ویڈیوز پھیلا کر خراب کرنے کی کوشش کی گئی، آج بھی میں نے ڈی جی ایف آئی او کو فون کرکے تحقیقات میں پیش رفت کا پوچھا ہے، سب پتہ چل گیا ہے کس نے کیا کیا، ٹیکنالوجی کا دور ہے سب پتہ چل جاتا ہے۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ہم نے مشکل فیصلے کئے، اپوزیشن جماعتوں اور گورنر کی مشاورت سے سندھ میں لاک ڈاون کا فیصلہ کیا تھا، 23 مارچ سے سندھ میں لاک ڈاون کا فیصلہ کیا، اس دوران وزیراعظم نے تقریر کی شاید وہ لاک ڈاون کیخلاف تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ پاکستانی ہیں، باہر کے ملکوں میں پڑوسی مرجاتا ہے کوئی اٹھانے والا نہیں ہوتا، کہتے ہیں کہ سندھ حکومت نے لاک ڈاون کرکے ظلم کردیا۔ وزیر اعلی نے شکوہ کیا کہ بدقسمتی سے یہاں سوشل میڈیا کو منفی چیزوں کے لئے ستعمال کیا گیا، ایف آئی اے اور بہت کاموں میں مشغول ہے، ایف آئی اے کو ڈیڑھ ماہ پہلے سائبر کرائم ایکٹ کی خلاف ورزی پر درخواست دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ منفی یا مثبت آنے میں میرا کیا فائدہ ہے؟ اس معاملے پر بھی سندھ حکومت کو بدنام کیا جارہا ہے۔ وزیراعلی نے کہا کہ پی سی آر ٹیسٹنگ میں ستر اسی فیصد ایکیوریسی ہے، بعض ٹیسٹ کے نتائج غلط آنے پر سندھ حکومت پر الزام تراشی شروع کردی گئی، کہا گیا کہ سندھ حکومت کو پیسے ملتے ہیں، یہ بھی الزام لگا کہ تین ہزار ڈالر ملتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ رپورٹ آنے سے پہلے اگر کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو پھر بھی پروسیجر مکمل کیا جاتا ہے، تافتان میں کسی کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا، سکھر قرنطینہ میں ایک عالم نے اشتعال پھیلانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ممالک سے آنے والے افراد سے کورونا پھیلا۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ باہر سے آتے تھے تو دو پیناڈول کی ٹیبلیٹ کھا کر آتے تھے، اس وجہ سے ان مسافروں کا پتہ نہیں چل سکا۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کا علاج نہیں ہے سب کو پتہ ہے، وفاقی حکومت سے ہم کہتے رہے کہ ہماری ٹیسٹنگ استعداد بڑھائی جائے، سندھ میں تیرا اضلاع میں ٹیسٹنگ ہورہی ہے، پورے پاکستان میں ہماری ٹیسٹنگ استعداد ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایوریج ٹیسٹنگ سے ہماری ٹیسٹنگ ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاضل دوست اٹھ کر چلے گئے سن لیتے تو بہتر ہوتا، پچھلے سات دنوں میں ہم نے پینتالیس ہزار سے زائد ٹیسٹ کئے جو کسی بھی صوبے سے زیادہ ہیں، 80 فیصد ٹیسٹ ہمارے ہاں سرکاری سطح پر کئے جارہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 866821
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش