0
Wednesday 22 Jul 2020 13:47

اے پی ایس شہداء فورم کے رہنما قاتلانہ حملے میں محفوظ

اے پی ایس شہداء فورم کے رہنما قاتلانہ حملے میں محفوظ
اسلام ٹائمز۔ آرمی پبلک اسکول شہداء فورم کے مرکزی رہنماء ایڈووکیٹ فضل خان پشاور کے علاقے کاک شال میں قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے۔ ایڈووکیٹ فضل خان نے یکہ توت پولیس کو بتایا کہ وہ منگل (21 جولائی) کے روز پشاور ہائی کورٹ سے اپنے گھر واپس جا رہے تھے، جب سٹی سرکلر روڈ پر رومان شادی ہال کے قریب 2 موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گاڑی کو ریورس گیئر میں ڈالا اور تیزی سے جائے وقوع سے نکل گیا۔ خیال رہے کہ 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد حملے میں انہوں نے اپنے بیٹے عمر خان کو کھو دیا تھا۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد سے ایڈووکیٹ فضل خان اسکول کے شہید بچوں، اساتذہ اور دیگر عملے کے اراکین کیلئے مہم چلا رہے اور انصاف طلب کر رہے ہیں۔

گذشتہ برس ایڈووکیٹ فضل خان نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت، ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کو رہا کرنے کیلئے تیار ہے، انہوں نے عدالت سے نوٹس لینے اور حکومت کو اس سے روکنے کی استدعا کی تھی۔  یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014ء کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 6 دہشت گردوں نے اے پی ایس پر بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد کو شہید کر دیا تھا۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد پاک فوج نے قبائلی علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا تھا اور حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد اپریل 2018ء میں بچوں کے والدین کی درخواست اور ان کی شکایات کے ازالے کیلئے اُس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

بعد ازاں 9 مئی 2018ء کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے سانحے کی تحقیقات کیلئے پشاور ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن بنانے کیلئے زبانی احکامات جاری کئے تھے، تاہم ہائی کورٹ کو تحریری احکامات موصول نہیں ہوئے تھے، جس کے باعث کمیشن تشکیل نہیں پایا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے 5 اکتوبر 2018ء کو کیس کی سماعت کے دوران کمیشن کی تشکیل کیلئے تحریری احکامات صادر کر دیئے تھے، جس کے بعد اکتوبر 2018ء کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں اے پی ایس سانحے کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا اور یہ کمیشن 19 اکتوبر 2018ء کو فعال ہوا تھا۔

تقریباً 20 ماہ تک وسیع پیمانے پر کارروائی کے بعد کمیشن کے پریزائیڈنگ افسر جسٹس محمد ابراہیم نے 9 جولائی کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کو رپورٹ پیش کی تھی۔ جوڈیشل انکوائری کے بعد 2014ء میں ہونے والے سانحے میں شہید ہونے والے طلبہ کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد کی اُمیدیں سپریم کورٹ آف پاکستان سے وابستہ ہیں۔ انہیں امید ہے کہ اس رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے گا اور ان عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، جن کی لاپروائی کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی کے بدترین واقعات میں سے ایک کی صورت میں نکلا، جس میں 147 افراد، اکثر طلبہ شہید ہوگئے تھے۔
خبر کا کوڈ : 875927
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش