0
Tuesday 29 Dec 2020 22:11

اسرائیل کا وجود ناجائز، غیر قانونی اور غاصبانہ ہے اور یہی اسکی پہچان ہے، علامہ ساجد نقوی

اسرائیل کا وجود ناجائز، غیر قانونی اور غاصبانہ ہے اور یہی اسکی پہچان ہے، علامہ ساجد نقوی
اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے قائد علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں کہ قرآن پاک سورة مائدہ میں جن بنی اسرائیل کو ارض مقدسہ میں داخل ہونے اور اس زمین کا اُن کیلئے قرار پانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بنی اسرائیل صدیوں پہلے نیست و نابود ہوچکے، ان کا نام و نشان تک مٹ چکا اور ان کی تعلیمات بھی مسخ ہو چکیں۔ موجودہ نام نہاد یہود اور صہیونیوں کا ان بنی اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں۔ استعمار کی کھلی زیادتی کا شاخسانہ اسرائیل کا وجود ناجائز، غیر قانونی اور غاصبانہ ہے اور یہی اسکی پہچان ہے، اسرائیل کے حق میں دلائل دینے والے بابائے قوم اور شاعر مشرق سے زیادہ دور اندیش نہیں۔ قرآن پاک کی سورہ ہود میں واضح ارشاد ربانی ہے کہ ”ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاﺅ گے، اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے، اور تم کو کہیں سے مدد نہ پہنچے گی‘‘۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے آنیوالے مختلف بیانات، تبصروں اور حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے 30 مسلمان اور عرب ممالک کے سربراہان کے نام لکھے گئے مکتوب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کو علاقائی یا مذہبی معاملہ بنا کر اس کی اہمیت کم کرنے اور مختلف حیلوں سے اسرائیل کو تسلیم کرنے یا اس کی حمایت کرنے والے یا گمراہ کن پیمانے مرتب کرنیوالے اس کی درندگی، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، عصمت دریوں اور مسلسل گھناونے مظالم کو کس پلڑے میں ڈالیں گے؟ مقبوضہ بیت المقدس، مسجد اقصیٰ میں ہونیوالی بے ہودگی، بدتہذیبی اور بے حرمتی کے حوالے سے کیا جواز تراشیں گے؟ اپنی سرزمین سے بے وطن کئے جانے والے مظلوموں کی آہوں، سسکیوں اور بے یار و مددگار خواتین و بچوں پر ہونیوالے مظالم پر کونسا پردہ ڈالیں گے؟ اسرائیلی قابض فوج کے قتل عام اور عالمی قوانین کو نظر انداز کر دینے پر کون سے دلائل لائینگے؟ استعمار کی شہ پر ناجائز ریاست بنانے کے لئے انسانی حقوق کی پامالیوں کو کیسے نظر انداز کرینگے؟یہ کیسی انسانی اقدار و وقار ہے، یہ کیسی معاشرت ہے کہ ظالم، جابر قوت کے لئے دلائل دیئے جائیں اور علاقائی یا مذہبی معاملہ قرار دے کر پر دہ پوشی کی جائے؟

انہوں نے کہا کہ آج اسرائیل کے حق میں بیان بازی کرنیوالے اور اپنے آپ کو دور اندیش ثابت کرنیوالے کیا خود کو بابائے قوم حضرت قائد اعظم ؒ اور شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال ؒ سے بڑا دانشور یا دور اندیش تصور کرتے ہیں؟ کیا پاکستان کی تشکیل، بنیادوں اور اساس میں یہ شامل تھا کہ ہر بدمعاشی کے سامنے سر جھکائینگے؟ ایک طرف ہولوکاسٹ کے صرف تذکرے پر تک پابندی مگر دوسری جانب اسرائیلی مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرنا بھی جرم؟ یہ کیسا دہرا معیار ہے۔ انہوں نے حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے حالیہ خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا مسلم حکمرانوں اور سنجیدہ فکر شخصیات کی آنکھیں کھولنے اور حقائق کو جاننے کے لئے یہ خط کافی نہیں؟ کیوں انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں اور جمہوریت کے چمپیئنز کو فلسطینی عوام پر روا رکھے جانیوالے ریاستی ظلم، جبر اور اسرائیلی دہشت گردی نظر نہیں آتی؟ انہوں نے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین و کشمیر عالمی ضمیروں پر بوجھ ہے، ہم مظلوم اقوام کے ساتھ ہیں کہ جب تک ان کو ان کا حق نہیں مل جاتا، ہم ان کی تحریک حریت کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔
خبر کا کوڈ : 906909
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش